تجزیہ

چین کی آئی آر جی سی کو بالواسطہ حمایت سے اس کے اپنے معاشی مفادات کو نقصان

از پاکستان فارورڈ

ملازمین ابوظہبی کی خلیفہ بندرگاہ میں چہل قدمی کرتے ہوئے، جسے ایک ایسے اہم منصوبے کے طور پر نامزد کیا گیا ہے جسے چین مشرق وسطیٰ میں اپنی بیلٹ اینڈ روڈ پہل کاری (بی آر آئی) کے تعاون سے تیار کرے گا۔ ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کے حملوں نے گزشتہ سال ابوظہبی میں اہم اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ [کریم صاحب/اے ایف پی]

ملازمین ابوظہبی کی خلیفہ بندرگاہ میں چہل قدمی کرتے ہوئے، جسے ایک ایسے اہم منصوبے کے طور پر نامزد کیا گیا ہے جسے چین مشرق وسطیٰ میں اپنی بیلٹ اینڈ روڈ پہل کاری (بی آر آئی) کے تعاون سے تیار کرے گا۔ ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کے حملوں نے گزشتہ سال ابوظہبی میں اہم اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ [کریم صاحب/اے ایف پی]

ایران کے ساتھ چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات ایک مہنگا منصوبہ ثابت ہو رہے ہیں۔

ریکارڈز ظاہر کرتے ہیں کہ ایران کی علاقائی توسیع کی پالیسی، جسے بالواسطہ طور پر چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی مدد سے مالی معاونت حاصل ہے، خطے میں بیجنگ کے بڑے اور اہم اقتصادی مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

چین اور ایران کے 25 سالہ تزویراتی معاہدے اور دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے فوجی تعلقات کے حوالے سے بہت کچھ کیا گیا ہے، جس کا ثبوت بالکل حال ہی میں گزشتہ ماہ چینی وزیرِ دفاع وی فینگے کے تہران کے اعلیٰ سطحی دورے سے ملتا ہے.

لیکن جب کہ دونوں فریق بڑھتے ہوئے تعلقات کے فوائد پر زور دیتے ہیں، شواہد بتاتے ہیں کہ چین کے لیے اخراجات بڑھ رہے ہیں۔

20 ستمبر 2019 کو آرامکو تیل کمپنی کے ملازمین سعودی عرب کے خریس آئل پروسیسنگ پلانٹ میں ایک بہت زیادہ تباہ شدہ تنصیب کے قریب کھڑے ہیں۔ ایرانی پشت پناہی کے حامل اس حملے نے چین کو یومیہ 97 ملین ڈالر اضافی ادا کرنے پر مجبور کیا کیونکہ برینٹ خام تیل کی قیمتیں ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔ [فیاض نورالدین / اے ایف پی]

20 ستمبر 2019 کو آرامکو تیل کمپنی کے ملازمین سعودی عرب کے خریس آئل پروسیسنگ پلانٹ میں ایک بہت زیادہ تباہ شدہ تنصیب کے قریب کھڑے ہیں۔ ایرانی پشت پناہی کے حامل اس حملے نے چین کو یومیہ 97 ملین ڈالر اضافی ادا کرنے پر مجبور کیا کیونکہ برینٹ خام تیل کی قیمتیں ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔ [فیاض نورالدین / اے ایف پی]

ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق، گزشتہ 12 ماہ میں ایران کی چین کو برآمدات میں 58 فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ چین سے درآمدات میں 29 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

یکم مارچ کو رائٹرز نے خبر دی کہ ٹینکروں سے باخبر رہنے والے کوائف سے ظاہر ہوا کہ اس سال کے شروع میں چین کی ایرانی تیل کی خریداری میں ریکارڈ سطح پر اضافہ ہوا، جو کہ سنہ 2017 میں بلند ترین سطح سے تجاوز کر گئی جب یہ تجارت امریکی پابندیوں کے تابع نہیں تھی۔

تین ٹینکر ٹریکرز کے اندازے کے مطابق، جنوری میں چینی درآمدات 700,000 بیرل یومیہ سے تجاوز کر گئیں، جس نے سنہ 2017 میں چینی کسٹمز کی جانب سے ریکارڈ کردہ 623,000 بیرل یومیہ کی بلند ترین سطح کو پیچھے چھوڑ دیا۔

البتہ گزشتہ ہفتے ہی کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ چین اب سستا، اعلیٰ معیار کا روسی تیل خرید رہا ہے، جس سے ایرانی تیل کے ایک بڑے حصے کے خریدار نہیں رہ گئے ہیں۔

اس سے قطع نظر، بہت سے مبصرین پوچھ رہے ہیں کہ یہ سارا چینی پیسہ ایران میں کہاں جا رہا ہے، خصوصاً جب ایرانی بڑھتی ہوئی غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور مایوسی کا شکار ہیں۔.

ایرانی عوام بدعنوان ایرانی حکام کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو تیل کا کچھ منافع جیب میں ڈال رہے ہیں، لیکن ایران کے لیے چینی امداد کو بڑھانا بھی سپاہِ پاسدارانِ اسلامی انقلاب (آئی آر جی سی) کو براہِ راست مدد فراہم کر رہا ہے۔

ایران اور چین تعلقات پر مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کی 16 مئی کی رپورٹ میں کہا گیا، "یہ کہنے کی ضرورت نہیں، ہر وہ ڈالر جو چینی بینکوں سے ایران کے خزانے میں آتا ہے -- اب خفیہ طور پر، لیکن پابندیاں ہٹائے جانے کے بعد -- ایک ایسا ڈالر ہے جسے پورے خطے میں آئی آر جی سی کی تخریبی کارروائیوں میں سرمایہ کاری کے لیے لگایا جا سکتا ہے"۔

آئی آر جی سی چین کے اقتصادی مفادات کے لیے خطرہ

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یمن میں حوثی باغی، جن کی پشت پناہی آئی آر جی سی کر رہی ہے، ایرانی ساختہ میزائل اور ڈرون لانچ کر رہے ہیں، جو "چین کے زیادہ اہم جامع تزویراتی شراکت داروں: سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای)" پر قہر ڈھا رہے ہیں۔

مارچ میں حوثیوں نے سعودی عرب میں 16 اہداف پر ڈرون اور میزائل فائر کیے، جدہ میں آرامکو کے پیٹرولیم مصنوعات کی تقسیم کے سٹیشن کو نشانہ بنایا اور دو سٹوریج ٹینکوں میں آگ لگ گئی۔

یہ وہی کمپنی ہے جو ستمبر 2019 میں ایک دوہرے حملے کا نشانہ بنی جس کا الزام ایران پر عائد ہوا، جس نے چین کو روزانہ 97 ملین ڈالر اضافی ادا کرنے پر مجبور کر دیا کیونکہ برینٹ خام تیل کی قیمتیں ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔

مارچ میں ہی حوثیوں نے سعودی عرب میں شہری تنصیبات پر سرحد پار سے ڈرون اور میزائل حملوں کی ایک لہر شروع کی۔

انہوں نے الشقیق میں سمندری پانی کو قابلِ استعمال بنانے کے پلانٹ اور جیزان میں آرامکو کے پیٹرولیم تقسیم کار پلانٹ پر حملہ کرنے کے لیے ایرانی کروز میزائل استعمال کیے۔

عرب اتحاد نے الحدیدہ کے ساحل پر دو کشتی ڈرون تباہ کر دیے، جنہیں حوثی مبینہ طور پر آبنائے باب المندب سے گزرنے والے آئل ٹینکروں پر حملوں میں استعمال کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔

اس سال کے شروع میں، حوثیوں نے یمن میں زمینی شکستوں کے بعد متحدہ عرب امارات پر تین الگ الگ حملے کیے تھے۔

عراق، جو 10.5 بلین ڈالر کی فنڈنگ کے ساتھ، سنہ 2021 میں چین کی بیلٹ اینڈ روڈ پہل کاری سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والا ہے، کو بھی ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا گیا جس کا الزام ایرانی حمایت یافتہ عراقی ملیشیا پر لگایا گیا۔

کیا اس کی اتنی وقعت ہے؟

مشرق وسطیٰ میں چین کے چوٹی کے بی آر آئی منصوبوں میں سے کوئی بھی ایران سے متعلق نہیں ہے، جو کہ اپنے آپ میں کافی حد تک واضح ہے۔

ایگریگیٹس بزنس نیوز سائٹ نے نومبر 2020 میں بتایا، "2018 میں بیجنگ میں چین-عرب ریاستوں کے تعاون کے فورم (سی اے ایس سی ایف) کے اجلاس میں، چین نے خطے کے لیے 23 بلین ڈالر کے قرضوں اور ترقیاتی امداد کا وعدہ کیا۔"

"اجلاس میں متحدہ عرب امارات کی خلیفہ بندرگاہ، عمان کی دقم، سعودی عرب کی جیزان، اور مصر کی پورٹ سعید اور عین سوخنا کو اہم منصوبوں کے طور پر شناخت کیا گیا جو چین مشرق وسطیٰ میں بی آر آئی کے ساتھ مل کر تیار کرے گا۔"

اس میں کہا گیا، "چینی ٹھیکیدار قطر میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے بڑے معاہدوں میں بھی شامل ہیں، جن میں حماد انٹرنیشنل ایئرپورٹ (ایچ آئی اے) کے لیے 25 بلین ڈالر کے توسیعی منصوبے بھی شامل ہیں۔"

ایرانی بحریہ کے ایک سابق تجزیہ کار جس نے گمنامی کی شرط پر بات کی، نے کہا کہ بیجنگ کے نقطۂ نظر سے، تہران کے ساتھ 25 سالہ معاہدے کا نقطہ "چین کا ایران میں قدم جمانا ہے، خاص طور پر خلیج فارس میں جاسک اور کیش کے جزائر پر"۔

انہوں نے کہا کہ معاہدے کے نتیجے میں ایران کے ساتھ چین کے فوجی تعاون میں اضافہ "ایک پہلے سے طے شدہ نتیجہ ہے"۔

پھر بھی، بین الاقوامی پابندیاں بیجنگ کے تہران کے ساتھ تعلقات کو پیچیدہ بناتی ہیں اور چین کے اقتصادی اور فوجی منصوبوں میں بڑی رکاوٹ بن سکتی ہیں۔

بدھ (25 مئی) کے روز، امریکی محکمۂ خزانہ نے بیجنگ میں قائم ہاؤکون انرجی گروپ کمپنی لمیٹڈ اور اس کی ذیلی کمپنی، ہانگ کانگ میں قائم توانائی کمپنی چائنا ہاؤکون انرجی لمیٹڈ پر آئی آر جی سی کی قدس فورس (آئی آر جی سی-کیو ایف) سے دسیوں ملین ڈالر مالیت کے، لاکھوں بیرل ایرانی تیل خریدنے پر پابندی عائد کر دی۔

ایران میں قائم پیٹرو چائنا پارس کمپنی -- جو ایرانی اور بیجنگ میں قائم توانائی کمپنیوں کے درمیان مشترکہ منصوبہ ہے -- اور بیجنگ میں قائم فوزی پیٹرو کیمیکل زوشان کمپنی لمیٹڈ پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔

دونوں کمپنیاں آئی آر جی سی-کیو ایف سے لاکھوں ڈالر مالیت کے ایرانی خام تیل کی فروخت اور خریداری میں ملوث تھیں۔

اور بیجنگ میں قائم شیڈونگ سی رائٹ پیٹرو کیمیکل کمپنی لمیٹڈ کو بھی آئی آر جی سی-کیو ایف سے تیل کی فروخت سے متعلق ادائیگیوں اور فرنٹ کمپنیاں ہونے کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔

ستمبر 2019 میں، چین کے سب سے بڑے نقل و حمل کے نیٹ ورک چائنا اوشین شپنگ کمپنی (کوسکو) کی دو اکائیوں پر، ایران پر پابندیوں کو دھوکہ دینے میں ملوث ہونے کی وجہ سے امریکی پابندیوں نے، فوری طور پر ایشیاء میں تیل کی ترسیل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا اور مجموعی لاگت میں تقریباً 30 فیصد کا اضافہ ہوا۔

چینی کمپنیوں یا شہریوں پر ان کی ایران سے متعلق سرگرمیوں پر پابندیاں چین کو اپنی عالمی منڈیوں کے اہم حصوں سے محروم کر سکتی ہیں، جن کا تخمینہ ایران میں سرمایہ کاری کے ممکنہ منافع سے کئی گنا زیادہ ہو سکتا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500