سلامتی

ایران کی اقتصادی مدد کے ذریعے چین بالواسطہ طور پر یمن میں افراتفری کو ہوا دے رہا ہے

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

سعودی بحیرۂ احمر کے ساحلی شہر جدہ میں 25 مارچ کو حوثی باغیوں کے حملے کے بعد، سعودی آرامکو کی تیل کی تنصیب سے دھواں اور شعلے اٹھ رہے ہیں۔ [اے ایف پی]

سعودی بحیرۂ احمر کے ساحلی شہر جدہ میں 25 مارچ کو حوثی باغیوں کے حملے کے بعد، سعودی آرامکو کی تیل کی تنصیب سے دھواں اور شعلے اٹھ رہے ہیں۔ [اے ایف پی]

چین کی جانب سے ایران پر اقتصادی پابندیوں سے بچنا تہران کی یمن اور پورے خطے میں اس کے پراکسی گروہوں کی حمایت کو ہوا دے رہا ہے۔

1 مارچ کو، رائٹرز نے بتایا کہ ٹینکروں کی سراغرسانی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے حالیہ مہینوں میں چین کی ایرانی تیل کی خریداری ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے، جو سنہ 2017 میں چھوئی گئی انتہاء سے زیادہ ہے جب اس تجارت پر امریکی پابندیاں عائد نہیں ہوئی تھیں۔

تین ٹینکروں کے ٹریکروں کے اندازے کے مطابق، جنوری کے لیے چینی درآمدات 700,000 بیرل یومیہ (بی پی ڈی) سے تجاوز کر گئیں، جس نے سنہ 2017 میں چینی کسٹمز کی جانب سے ریکارڈ کردہ 623,000 بیرل یومیہ کی انتہاء کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

تہران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے معاہدے کے خاتمے کے بعد امریکہ نے سنہ 2018 میں ایرانی تیل پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی تھیں، جس سے ایران کو صلاحیت کے قریب کہیں پمپ کرنے سے روکا گیا تھا۔

چین کے ڈی ایف-41 جوہری صلاحیت کے حامل بین البراعظمی بیلسٹک میزائل 1 اکتوبر 2019 کو بیجنگ کے تیانان مین سکوائر پر ایک فوجی پریڈ کے دوران دیکھے جا رہے ہیں۔ امریکہ نے 30 مارچ کو ایرانی ثالثوں کو چین سے بیلسٹک میزائل کے پرزے سمگل کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ [گریگ بیکر/اے ایف پی]

چین کے ڈی ایف-41 جوہری صلاحیت کے حامل بین البراعظمی بیلسٹک میزائل 1 اکتوبر 2019 کو بیجنگ کے تیانان مین سکوائر پر ایک فوجی پریڈ کے دوران دیکھے جا رہے ہیں۔ امریکہ نے 30 مارچ کو ایرانی ثالثوں کو چین سے بیلسٹک میزائل کے پرزے سمگل کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ [گریگ بیکر/اے ایف پی]

سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق، اتوار (3 اپریل) کو، تاہم، نیشنل ایرانی آئل کمپنی (نائیکو) کے سی ای او محسن خوجستہ مہر نے اعلان کیا کہ "معاشی دباؤ کے باوجود تیل کی پیداوار پابندیوں سے پہلے کے اعداد و شمار تک پہنچ گئی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ پیداوار کو 3.8 ملین بیرل یومیہ کی پابندیوں سے پہلے کی سطح پر بحال کر دیا گیا ہے، انہوں نے مزید کہا: "اب ہم اپنی برآمدات کو دوگنا کرنے کی حالت میں ہیں۔"

چین کی ایران سے تیل کی درآمد

چین طویل عرصے سے ریڈار کے نیچے سے ایرانی تیل درآمد کر رہا ہے، جس کی ترسیل سرکاری کسٹم ڈیٹا میں ظاہر نہیں ہوتی کیونکہ خریداروں کو امریکی پابندیاں لگنے کا خدشہ ہے۔

جنوری میں، تاہم، چین کے کسٹمز نے جاری پابندیوں کے باوجود ایک سال میں ایرانی خام تیل کی پہلی درآمد کی اطلاع دی تھی۔

ایران سے چین کی تیل کی درآمدات اس وقت آتی ہیں جب تہران یمن میں حوثیوں سمیت اپنی پراکسیوں کو مالی امداد اور مسلح کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

یمن میں اقوام متحدہ (یو این) کی ثالثی میں دو ماہ کی جنگ بندی ہفتے کے روز مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے پہلے دن سے عمل میں آئی۔

حوثیوں اور سعودی قیادت میں فوجی اتحاد دونوں نے جنگ بندی کی پاسداری کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

لیکن یہ جنگ بندی سعودی عرب پر حملوں کے ایک سلسلے کے بعد ہوئی ہے.

حوثیوں نے 25 مارچ کو سعودی عرب میں 16 اہداف پر ڈرون اور میزائل فائر کیے، جن میں جدہ میں آرامکو کے پیٹرولیم مصنوعات کے ڈسٹری بیوشن سٹیشن کو نشانہ بنایا گیا اور ذخیرہ کرنے والے دو ٹینکوں میں آگ لگ گئی۔

کچھ روز پہلے، انہوں نے سعودی عرب میں شہری تنصیبات پر سرحد پار سے ڈرون اور میزائل حملوں کی ایک لہر شروع کی تھی۔

انہوں نے الشقیق میں سمندری پانی میں سے نمک نکالنے کے پلانٹ اور جزان میں آرامکو کے پیٹرولیم ڈسٹری بیوشن پلانٹ پر حملہ کرنے کے لیے ایرانی کروز میزائل استعمال کیے۔

عرب اتحاد نے الحدیدہ کے ساحل پر دو کشتی ڈرون بھی تباہ کر دیے، جنہیں حوثی مبینہ طور پر آبنائے باب المندب سے گزرنے والے آئل ٹینکروں پر حملوں میں استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

اس سال کے شروع میں، یمن میں زمینی شکستیں کھانے کے بعد حوثیوں نے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) پر تین الگ الگ حملے کیے تھے.

یمن کے نائب وزیر برائے قانونی امور اور انسانی حقوق نبیل عبدالحفیظ نے کہا کہ حوثیوں کے حملے "حوثیوں کو ہتھیاروں کی مسلسل سمگلنگ کے ساتھ خطے کی سلامتی اور استحکام کے لیے ایران کے مذموم عزائم" کی نشاندہی کرتے ہیں۔

جاری مذاکرات جن کے نتیجے میں ایران سنہ 2015 کے جوہری معاہدے کی شرائط پر واپس لوٹتا نظر آتا ہے، کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، "ایران جب مطالبہ کرتا ہے کہ اس پر عائد پابندیاں ہٹا دی جائیں تو وہ بین الاقوامی برادری اور امریکہ کو دھوکہ دیتا ہے۔"

حکام نے کہا کہ سپاہِ پاسدارانِ اسلامی انقلاب (آئی آر جی سی) نے حوثیوں کو ہتھیاروں کی سمگلنگ جاری رکھی ہوئی ہے، جو علاقائی کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے اور یمن میں دیرپا امن کے حصول کے مواقع کو ضائع کر رہی ہے۔

عبدالحفیظ نے کہا کہ آئی آر جی سی کے سمگلنگ نیٹ ورکسنے اقوام متحدہ کی طرف سے عائد ہتھیاروں کی پابندی کی بارہا خلاف ورزی کرنے کی کوشش کی ہے جس میں حوثیوں کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی ہے۔

انہوں نے مزید کہا، "شاید ہی کوئی ایسا دور گزرے جب ہم نے امریکی بحریہ کی طرف سے ایرانی ہتھیاروں کے قبضے کے بارے میں نہ سنا ہو.

چین سے بیلسٹک میزائل کے پُرزے

دریں اثناء، چین سے بیلسٹک میزائل کے پُرزوں کی سمگلنگ کرنے والے ایرانی دلالوں کے خلاف پابندیاں خطے میں عدم استحکام میں بیجنگ کے تعاون کی ایک اور علامت ہیں۔

30 مارچ کو امریکہ نے تہران کے جوہری پروگرام کے لیے سامان کی خریداری میں ملوث متعدد اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

امریکی نائب وزیر خزانہ برائے دہشت گردی برائن نیلسن نے ایک بیان میں کہا کہ یہ اقدام ایران کو بیلسٹک میزائل تیار کرنے سے روکنے کے لیے واشنگٹن کے عزم کو "مضبوط" کرتا ہے۔

بیان کے مطابق، پابندیوں کا ہدف ایرانی شہری محمد علی حسینی اور ان کا "کمپنیوں کے نیٹ ورک" بطور پروگرام کے سپلائرز ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ حسینی ذاتی طور پر اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں شامل رہے ہیں اور سینا کمپوزٹ دلیجان کمپنی کے مینیجر کے طور پر اپنے کردار میں آئی آر جی سی کے سینیئر حکام کے ساتھ سفر کرتے رہے ہیں۔

انہوں نے جعلی شپنگ دستاویزات کا استعمال کرتے ہوئے چین سے نائٹرائل بیوٹاڈین ربڑ کی تیاری کی مشینیں خریدیں، ساتھ ہی چینی سپلائرز سے ایک غیر تعامل پذیر گیس جیٹ ملنگ سسٹم بھی خریدا۔

بیان میں کہا گیا کہ "جیٹ ملز، جسے سیال توانائی ملز بھی کہا جاتا ہے، ٹھوس میزائل ایندھن کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں۔"

پابندیوں میں پی۔بی صدر کمپنی کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جس نے ایران کی پارچین کیمیکل انڈسٹریز (پی سی آئی) کے لیے ایک اہم دلال کے طور پر کام کیا، جو ایران کی ڈیفنس انڈسٹریز آرگنائزیشن (ڈی آئی او) کا ایک عنصر ہے۔

پی۔بی صدر کمپنی نے پی سی آئی کی جانب سے بیلسٹک میزائل کے ایندھن کی تیاری میں استعمال ہونے والے چین سے حاصل کردہ سینٹری فیوج اجزاء کے وصول کنندہ کے طور پر کام کیا۔

وزارتِ خزانہ نے کہا کہ یہ پابندیاں 13 مارچ کو عراق کے شہر اربیل پر ایران کے میزائل حملے اور 25 مارچ کو سعودی آرامکو پر حملے کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر ایرانی پراکسیوں کے دیگر میزائل حملوں کے بعد لگائی گئی ہیں۔

ایران نے 13 مارچ کے میزائل حملے کی زمہ داری قبول کی تھی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500