سلامتی

مکڑا درمیان میں: ایرن کا ڈرون سازی کا جال اور علاقائی افراتفری

بہروز لاریگانی

18 اپریل کو فوج کے دن پر تہران میں عسکری پریڈ کے دوران ایران نے 50 کے قریب ڈرون ماڈل کی نمائش کی۔ [ایرانی وزارت دفاع]

18 اپریل کو فوج کے دن پر تہران میں عسکری پریڈ کے دوران ایران نے 50 کے قریب ڈرون ماڈل کی نمائش کی۔ [ایرانی وزارت دفاع]

ایرانی ساختہ ڈرون اور اسلامی جمہوریہ کے ضمنیوں کے بنائے گئے بنا آدمی کے طیاروں (یو اے ویز) کے ویرینٹ خطے میں بے چینی اور تباہی کی غرض سے مزید کثرت سے استعمال ہو رہے ہیں۔

اگرچہ ان حملوں میں سے متعدد کی ذمہ داری ضمنی گروہوں نے قبول کی ہے، تاہم دھماکے کے ملبے اور فارینزک شواہد کی دیگر کڑیاں ایران تک پہنچتی ہیں، جو کہ جال کے درمیان میں ایک مکڑے کی طرح بیٹھا ہے۔

تجزیہ کاروں نے 18 اپریل کو ملک میں منعقد ہونے والی فوج کے دن کی تقریبات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران اپنی علاقائی ڈرون آپریشنز کے مرکز کی حیثیت کو فخر کے ساتھ پیش کرتا ہے۔

تہران میں صدر ابراہیم رئیسی پھولوں سے مزیّن اور اسلامی جمہوریہ کے بانی روح اللہ خمینی اور ان کے جانشین علی خامنہ ای کی تصاویر سے گھرے ایک پلیٹ فارم سے عسکری پریڈ دیکھ رہے ہیں۔

18 اپریل کو تہران میں نمائش پر ایک ڈرون [ایرانی وزارتِ دفاع]

18 اپریل کو تہران میں نمائش پر ایک ڈرون [ایرانی وزارتِ دفاع]

18 اپریل کو فوج کے دن کی پریڈ کے دوران ایرانی خودکش ڈرون عرش دیکھا جا سکتا ہے۔ [مشرق ڈاٹ آئی آر]

18 اپریل کو فوج کے دن کی پریڈ کے دوران ایرانی خودکش ڈرون عرش دیکھا جا سکتا ہے۔ [مشرق ڈاٹ آئی آر]

بنا تاریخ کے اس تصویر میں ایک عسکری مشق کے دوران یہاں ابابیل ڈرون دیکھا جا سکتا ہے۔ [مشرق ڈاٹ آئی آر]

بنا تاریخ کے اس تصویر میں ایک عسکری مشق کے دوران یہاں ابابیل ڈرون دیکھا جا سکتا ہے۔ [مشرق ڈاٹ آئی آر]

قومی ٹیلی ویژن پر دکھائی گئی پریڈ میں عسکری گاڑیاں اور ٹینک، اور اسلحہ اور دفاعی نظام، بشمول میزائل اور میزائل لانچر دکھائے گئے۔

اس میں ایک درجن سے زائد اقسام کے یو اے وی – خودکش ڈرونز سمیت کل 50 سے زائد – دکھائے گئے جنہیں فلیٹ بیڈ ٹرکوں پر باجوں کے ساتھ لایا گیا۔

ایرانی حکام کا دعویٰ ہے کہ ان ڈرونز میں معائنہ کے علاقوں، لڑائی، یک طرفہ حملے (المعروف ”خودکش ڈرونز“) اور دفاع کی آپریشنل صلاحیتیں ہیں۔

ایران کا یو اے وی بیڑا

حالیہ برسوں میں ڈرون مشرقِ وسطیٰ میں ایران کی عدم استحکام کا باعث کاروائیوں کا مرکز رہے ہیں ۔ یہ اسلامی جمہوریہ باقاعدگی سے اپنے بیڑے میں نئی یو اے وی شامل کر رہی ہے، اور ان کی تیاری، استعمال اور برٱمد میں زیادہ سے زیادہ پرعزم ہو گیا ہے۔

چند ماہرین ایران کے ڈرون کو اس کے بالسٹک میزائلز جیسا ہی خطرہ سمجھتے ہیں۔

کرمان سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار فارمارز ایرانی نے کہا، ”حالیہ برسوں میں ایران نے اپنی مشرقی اور مغربی، ہر دو سرحدوں پر جنگی ڈرونز کے استعمال میں اضافہ کر دیا ہے۔“

انہوں نے کہا کہ عراق کے کرد علاقے اور ”افغانستان میں چند دشمن گروہوں“ پر حملوں میں ڈرون استعمال کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی کی قدس فورس (ٱئی ٱر جی سی-کیو ایف) – یمن میں ایران کے ضمنی – حوثیوں ، متحدہ عراقی ملشیا اور لبنانی حزب اللہ کو متواتر ڈرونز فراہم کرتی ہے۔

ایران نے وینزویلا کو بھی اپنے درون برآمد کیے۔

مسلحہ ایرانی یو اے ویز عراق، لبنان، یمن، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور سعودی عرب، بشمول ستمبر 2019 میں آرمکو آئل کی دو تنصیبات پر ہونے والے حملوں، جن کی ذمہ داری حوثیوں نے قبول کی، میں استعمال ہوئے۔

آئی آر جی سی سے منسلک فارس نیوز نے خبر دی کہ 18 اپریل کی عسکری پریڈ میں نمائش کی گئی ایرانی ڈرون اقسام مہاجر-6، کرّار، نصیر، کایان-1، کایان-2، عرش، آمد اور مہاجر-4 کے مختلف ماڈل تھے۔

فوج کے دن پر تہران میں پہلی مرتبہ فوج کی جانب سے تیار شدہ جدید ترین کمان-22 نمائش کیا گیا، جسے ایک ”سٹریٹیجک ملٹی ٹاسکنگ ایئرکرافٹ“ کے طور پر بیان کیا گیا۔

ایرانی عسکری حکام نے دعویٰ کیا کہ یہ حتمی تجرباتی مراحل میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ مسلسل 24 گھنٹے تک 8,000 میٹر کی بلندی پر اڑ سکتا ہے اور 3,000 کلومیٹر رینج کا حامل ہے۔ مبینہ طور پر اس کا وزن 1.5 ٹن ہے اور یہ 300 کلوگرام اسلحہ، لیزر گائیڈڈ اور سمارٹ میزائل، لے جانے کی استعداد کا حامل ہے۔

ایران کے دفاع پریس نے دعویٰ کیا کہ کمان-22 نگرانی، کنٹرول، معلومات اکٹھی کرنے اور دوردراز اہداف کی تصاویر لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ابابیل-5 ڈرون بھی نمائش میں تھا، جو کہ ابابیل خاندان میں ایک حالیہ اضافہ ہے۔ اگرچہ اس نئی یو اے وی سے متعلق کوئی تکنیکی معلومات افشا نہیں کی گئیں، تاہم رپورٹس کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ ساخت کے اعتبار سے یہ مہاجر-6 جیسا ہے۔

ڈرون سازی کا مرکز

تہران سے تعلق رکھنے والے انٹیلی جنس تجزیہ کار ساسان تمغہ نے کہا کہ ابتدائی ایرانی عسکری ڈرون 1980 کی دہائی میں عراق کے خلاف جنگ میں ایسے جنگی علاقوں میں فضائی معائنہ کے لیے استعمال ہوئے جہاں روائتی عسکری معائنہ کے ہوائی جہاز نہیں اڑ سکتے تھے۔

اسلامی انقلاب کے بعد، آئی آر جی سی نے جامعہ اصفہان کے جہاد تربیتی مرکز میں ڈرونز کی صنعت کاری اور آپریشن کے لیے پہلا تحقیقی مرکز تشکیل دیا۔

اس مرکز کی جانب سے تیار کیے گئے پہلے چار ڈرون ماڈل – تلاش، مہاجر-1، مہاجر-2، اور مہاجر-3 کو جنگ کے دوران فضائی تصویر کشی کے لیے استعمال کیا گیا۔

2000 کی دہائی میں مہاجر-4 اور ابابیل-3 اسی مرکز میں تیار کیا گیا۔ آئی آر جی سی حکام نے کہا کہ انہوں نے یہ دونوں افریقی اور جنوبی امریکی ممالک کو برآمد کیے۔

آئی آر جی سی کے جہاد تربیتی مرکز کے علاوہ، قدس ایوی ایشن انڈسٹری کمپنی اور شاہد ایوی ایشن انڈسٹریز ریسرچ سنٹر بھی ڈرونز کی ڈیزائننگ اور تیاری میں فعال ہیں۔

تمغہ نے کہا کہ بعد الزکر دو مراکز نے ایچ ای ایس اے-100 ڈرون کی تیاری کے لیے مل کر کام کیا، جو کہ شاہد ماڈلز کا ابتدائی ورژن تھا۔

انہوں نے کہا کہ فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائل (بشمول فتح-362 اور سدید-361 میزائل) لے جانے کی صلاحیت رکھنے والا ایک جنگی ڈرون شاہد-129 تیار کیا گیا تاہم اسے استعمال نہیں کیا گیا کیوں کہ اس کے لیے موزوں لانچر نہیں تھا۔

2020 میں ایران نے عرش کی نمائش کی جو 2,000 کلومیٹر کی حد کے ساتھ دنیا میں طویل ترین فاصلے تک مار کرنے والے خود کش ڈرون کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔

دیگر قابلِ ذکر ایرانی ڈرونز میں غاریح، سیمرغ، صاعقہ، اور کرار شامل ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500