جرم و انصاف

رنگ کے نیچے، مشرق وسطیٰ اور یوکرین پر حملوں میں استعمال ہونے والے ڈرون 'ایران میں بنائے گئے'

از پاکستان فارورڈ

سعودی عرب سے برآمد ہونے والے میزائل کے پرزے کو دکھانے والا تختہ، 2017 میں ایرانی صنعت کار شاہد باقری انڈسٹریز کی شناخت اور علامت کو ظاہر کرتا ہے۔ [جم واٹسن/ اے ایف پی]

سعودی عرب سے برآمد ہونے والے میزائل کے پرزے کو دکھانے والا تختہ، 2017 میں ایرانی صنعت کار شاہد باقری انڈسٹریز کی شناخت اور علامت کو ظاہر کرتا ہے۔ [جم واٹسن/ اے ایف پی]

اگرچہ ایران نے ایسے ڈرونز کی تیاری اور برآمد میں اپنے کردار کو چھپانے کی پوری کوشش کی ہے جنہیں اس کے نائبین اور اتحادیوں نے مشرق وسطیٰ اور یوکرین میں کیے جانے والے حملوں میں استعمال کیا ہے لیکن فرانزک شواہد اسلامی جمہوریہ کی انگلیوں کے نشانات کو ظاہر کرتے ہیں۔

رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ (آر یو ایس آئی)، جو کہ برطانیہ کا ایک دفاعی اور سیکورٹی تھنک ٹینک ہے، نے 13 جنوری کی ایک رپورٹ میں ایسے فرانزک شواہد پیش کیے ہیں جو ایران کو، بغیر پائلٹ کے فضائی گاڑی (یو اے وی) یا ڈرون کے ذریعے، خطے اور اس سے آگے کیے جانے والے حملوں سے جوڑتے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ستمبر 2019 میں سعودی عرب میں ابقیق اور خریص کی تیل کی تنصیبات پر ہونے والے ڈرون حملوں کا ملبہ، سب سے پہلے ایک ایسے طیارے کو سامنے لایا جسے سعودیوں نے "نامعلوم ڈیلٹا ونگ یو اے وی" کے طور پر بیان کیا ہے۔

آر یو ایس آئی نے مشاہدہ کیا کہ اگرچہ ایران عام طور پر فوجی پریڈوں اور نمائشوں میں اپنے ڈرونز کی نمائش کرتا ہے لیکن اس ماڈل کی نمائش حملے سے پہلے نہیں کی گئی تھی، "اور نہ ہی اس حملے کے بعد، کچھ عرصے تک یہ ظاہر ہوا"۔

اسرائیل سے تعلق رکھنے والے ٹینکر ایم ٹی مرسر اسٹریٹ کو 3 اگست 2021 کو متحدہ عرب امارات میں فجیرہ کی بندرگاہ کے قریب دیکھا جا سکتا ہے۔ 29 جولائی کو عمان کے قریب ڈرون حملے میں عملے کے دو ارکان ہلاک ہو گئے تھے، جس کا الزام ایران پر لگایا گیا تھا۔ [کریم صاحب/اے ایف پی]

اسرائیل سے تعلق رکھنے والے ٹینکر ایم ٹی مرسر اسٹریٹ کو 3 اگست 2021 کو متحدہ عرب امارات میں فجیرہ کی بندرگاہ کے قریب دیکھا جا سکتا ہے۔ 29 جولائی کو عمان کے قریب ڈرون حملے میں عملے کے دو ارکان ہلاک ہو گئے تھے، جس کا الزام ایران پر لگایا گیا تھا۔ [کریم صاحب/اے ایف پی]

آر یو ایس آئی نے کہا کہ لیکن پانچ سال پہلے، دسمبر 2014 میں، ایران کی سخت گیر مشرق نیوز ایجنسی نے 10 قسم کے یو اے وی ایس کو پیش کیا تھا جو خودکش مہمات کے لیے استعمال کیے جا سکتے تھے، جن میں ایک طوفان (ٹائفون) کہلایا جانے والا بھی شامل ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ طوفان کی تفصیل کے ساتھ "ڈیلٹا ونگ یو اے وی" کی ایک تصویر تھی، جو کہ 2019 میں سعودی عرب کو نشانہ بنائے جانے والے کی تصویر سے بہت ملتی جلتی ہے"۔

"قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایران نے 'طوفان' کو دوبارہ کبھی نہیں دکھایا۔"

رپورٹ تجویز پیش کرتی ہے کہ ممکنہ طور پر طوفان، سعودی عرب پر حملوں میں استعمال ہونے والے اسلحے کا پیشوا تھا اور یہ ہو سکتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ نے یمن میں ایران کے کردار کو چھپانے کے لیے، اپنی موافقت اور صلاحیتوں کو خفیہ رکھا ہو گا۔

رنگ کے نیچے ایرانی

آر یو ایس آئی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران حوثیوں کی مکمل حمایت کرتا ہے اور انہیں "راکٹ، میزائل اور یو اے وی ایس فراہم کرتا ہے، جو کہ مملکت کی سرزمین کے بہت اندر تک سعودی فوجی، صنعتی اور شہری بنیادی ڈھانچے پر حملہ کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔"

لیکن چونکہ 2015 کی اقوام متحدہ (یو این) کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق، یمن کے تنازعے کے تمام فریقوں کو ہتھیاروں کی ترسیل پر پابندی ہے، "ایرانی اس افسانے کو برقرار رکھے ہوئے ہیں کہ تمام حوثی میزائل اور یو اے وی ایس، مقامی طور پر ڈیزائن اور تیار کیے جاتے ہیں"۔

آر یو ایس آئی نے کہا کہ "اس افسانے کو برقرار رکھنے کے لیے، حوثیوں کو حصوں میں اسمگل کیے گئے، ایرانی بیلسٹک میزائلوں کو دوبارہ برانڈ کیا گیا اور ان پر دوبارہ رنگ کیا گیا تھا"، اس لیے سعودی عرب پر حملہ کرنے والے یو اے وی ایس "شاذ و نادر ہی ایرانی رنگوں میں دکھائے جاتے ہیں یا ایران کی مسلح افواج انہیں استعمال کرتی ہیں"۔

جولائی 2021 میں مرسر اسٹریٹ ٹینکر پر حملہ کیے جانے کے بعد، عرشہ پر پائے جانے والے یو اے وی کے ملبے کی جانچ پڑتال سے یہ بات سامنے آئی کہ یہ ستمبر 2019 کے سعودی حملے کے 'نامعلوم ڈیلٹا ونگ یو اے وی' سے مماثلت رکھتا ہے"۔

نامعلوم یو اے وی کو اسرائیل نے ستمبر 2021 میں شہید - 136 کے طور پر "آشکار" کر دیا تھا اور اس کے فوراً بعد ہی ایران نے اسے کھلے عام تسلیم کر لیا تھا۔

آر یو ایس آئی نے کہا کہ شہید - 136 دراصل 2019 میں سعودی عرب پر حملے میں استعمال ہونے والے اصلی، چھوٹے ہتھیار کی ایک چھوٹی شکل ہے، جسے اب شہید -131 کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ستمبر 2022 میں، یوکرین میں تین قسم کے ایرانی ڈیزائن کردہ اور تیار کردہ یو اے وی ایس پائے گئے -- شہید -131، شہید -136 اور مہاجر- 6 -- "ایران کی طرف سے اکثر ہتھیاروں کی نمائشوں اور فوجی مشقوں میں دکھائے جاتے ہیں"۔

ایران نے ابتدائی طور پر اس بات سے انکار کیا تھا کہ وہ روس کو ڈرون فراہم کر رہا ہے، جب کہ روسیوں نے انہیں دوبارہ پینٹ کیا اور شہید 131 اور136 کا نام بدل کر جیران (جیرانیم) 1 اور 2 کر دیا۔

ایران میں ڈرون کی تیاری

ایرانی قاعدے کے مطابق، ایرانی ڈرونز کی اکثریت مقامی طور پر تیار کی جاتی ہے، حالانکہ نئے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اجزاء "ہو سکتا ہے کہ گرے مارکیٹ سے حاصل کیے گئے ہوں گے یا خفیہ طور پر حاصل کیے گئے ہوں گے"۔

آر یو ایس آئی کے مطابق، شہید سیریز کے ڈرونز کو اصفہان کے قریب واقع شہید ایوی ایشن انڈسٹریز ریسرچ سنٹر نے ڈیزائن کیا ہے اور انہیں ایران ایئر کرافٹ مینوفیکچرنگ انڈسٹریل کمپنی (ایچ ای ایس اے) نے تیار کیا ہے، جس کا صدر دفتر تہران میں واقع ہے۔

امریکی وزارت خزانہ کے مطابق، ایچ ای ایس اے ایران کی وزارت دفاع کے زیر کنٹرول ہے اور اس پر امریکی پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔

نیویارک ٹائمز (این وائی ٹی) نے 29 جنوری کو خبر دی کہ اصفہان، ایران کے لیے میزائل کی تیاری، تحقیق اور ترقی کا ایک بہت بڑا مرکز بھی ہے اور چار چھوٹی جوہری تحقیقی تنصیبات کی جگہ ہے، جو سب کئی سال پہلے چین نے فراہم کی تھیں۔

گارڈین نے خبر دی ہے کہ جنوری میں، دھماکوں نے "ایک ایسے فوجی صنعتی کمپلیکس کو نقصان پہنچایا جو ڈرونز اور میزائلوں کی تیاری کا مرکز سمجھا جاتا تھا" اور اسے بظاہر مشرق وسطیٰ بھر میں استعمال کیا جاتا تھا اور یوکرین میں موجود روسی افواج بھی اسے استعمال کرتی تھیں۔

ایرانی خبر رساں ایجنسی ارنا نے دعویٰ کیا کہ یہ سہولت گاہ، گولہ بارود کا ایک کارخانہ تھا، حالانکہ "یہ واضح نہیں ہے کہ ایران تقریباً 20 لاکھ آبادی والے شہر کے وسط میں گولہ بارود کی پیداوار کا کارخانہ کیوں بنائے گا،" این وائے ٹی نے سوال اٹھایا۔

مغربی ایران میں واقع کرمانشاہ کو ملک کے فوجی ڈرونز کے پیداوار اور ذخیرہ کرنے کے مرکزی کارخانے کے طور پر شناخت کیا گیا ہے۔

مشرق وسطیٰ انسٹی ٹیوٹ (ایم ای آئی) کے مطابق، شمال مغربی شہر تبریز میں بھی ڈرون کا ایک کارخانہ ہے اور تہران کے جنوب مشرق میں واقع پارچین ملٹری کمپلیکس ڈرون، میزائل اور جوہری ٹیکنالوجی تیار کرتا ہے۔

فروری میں، ایران کی روایتی (آرٹیش) فضائیہ نے ایک نامعلوم مقام پر، زیر زمین "سینکڑوں میٹر" کی گہرائی میں بنائے گئے ایک نئے اڈے کی نقاب کشائی کی۔

ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے خبر دی کہ "ایگل 44" بیس میں مبینہ طور پر لڑاکا طیارے اور یو اے وی ایس موجود ہیں اور "بہت سارے لڑاکا طیاروں کی سہولت کاری کرنے کے لیے تمام ضروری آلات موجود ہیں"۔

برآمدات اور بیرونی پیداوار

ایرانی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری نے گزشتہ ماہ تفصیلات بتائے بغیر انکشاف کیا تھا کہ ایران کے فوجی سازوسامان کے "متعدد گاہک" ہیں۔ یہ خبر سپاہِ پاسدرانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) سے منسلک تسنیم نیوز نے فروری میں دی تھی۔

وال اسٹریٹ جرنل (ڈبلیو ایس جے) اور ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق، ایران اور روس نے روسی شہر یلابوگا میں ڈرون بنانے کی سہولت قائم کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت 6,000 جدید قسم کے شہید - 136 تیار کیے جائیں گے۔

مبینہ طور پر ایک ایرانی وفد نے 5 جنوری کو شہر کا دورہ کیا اور ایک "خالی جگہ" دیکھی جہاں ڈرون تیار کیے جانے کی ایک سہولت تعمیر کی جائے گی۔

ایم ای آئی نے 3 جون 2022 کی ایک رپورٹ میں کہا کہ "17 مئی 2022 کو، ایران نے پڑوسی ملک تاجکستان میں ایک ڈرون فیکٹری کا افتتاح کیا۔"

اس میں کہا گیا کہ "یہ کارخانہ، ایران کی طرف سے بیرون ملک ڈرون بنانے کی پہلی باضابطہ سہولت ہے اور یہ ابابیل -2 جو کہ ایک کثیر مقصدی ڈرون ہے، تیار اور برآمد کرے گا جس میں جاسوسی، جنگی اور خودکشی کی صلاحیتیں ہیں۔"

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "دوشنبہ کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کے علاوہ، ایران نے یہ کارخانہ تاجکستان اور دیگر ایسے ممالک کو اپنے ڈرون کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے بنایا جو امریکی پابندیوں کے تحت نہیں ہیں"۔

ایم ای آئی نے کہا کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی طرف سے اگست 2021 میں عہدہ سنبھالنے کے بعد سے، ایران نے "اپنے فوجی ڈرونز کے لیے خریداروں کی تلاش، خطے میں اپنے یکساں زور آوروں یا غیر ریاستی شراکت داروں اور پراکسیوں سے آگے کی ہے۔"

مبینہ طور پر اس نے مہاجر- 6 نامی نگرانی کرنے والے اور جنگی ڈرون کی ٹیکنالوجی وینزویلا کو منتقل کر دی ہے، اور دو مہاجر- 6 ایس ایتھوپیا کو فراہم کیے ہیں۔

کارنیگی انڈومنٹ نے 26 اکتوبر کی ایک رپورٹ میں کہا کہ تاہم، برآمدات میں اس کی واضح دلچسپی موجود ہونے کے باجود، ایران کو "مٹھی بھر ریاستوں، جیسے کہ ایتھوپیا، سوڈان، تاجکستان اور وینزویلا کو ہی اپنے ہتھیار فروخت کرنے میں محدود کامیابی ملی ہے۔"

رپورٹ میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ آئی آر جی سی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے کیئف میں ڈرون حملوں کی ویڈیوز شائع کی ہیں، کہا گیا کہ "شہید اور مہاجر ڈرونز کی تعیناتی نے [یوں] ایران کو پروپیگنڈے کا ایک اہم موقع فراہم کیا ہے۔"

اس میں کہا گیا ہے کہ جب تمام نظریں روس پر ہیں، "ایران کے ہتھیاروں نے قابل قدر توجہ اور مستقبل کے ممکنہ گاہک حاصل کر لیے ہیں، خاص طور پر بدمعاش حکومتوں اور پابندیاں لگائے گئے ایسے ممالک سے، جنہیں ان ہتھیاروں کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500