ایران میں تیار کردہ اور مختلف ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کی جانب سے استعمال کردہ ڈرونز پورے مشرق وسطیٰ میں زمینی اور سمندری سلامتی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں، جس سے ایرانی حکومت کی مہلک برآمدات کا جال اب خطے سے باہر تک پھیل گیا ہے۔
ایران بغیر پائلٹ کے فضائی گاڑیوں (یو اے ویز)، جنہیں عرفِ عام میں ڈرون کہا جاتا ہے، کا ایک بڑا تیار کنندہ اور برآمد کنندہ ہے۔ ایران پرائمر کی رپورٹ کے مطابق، یہ یو اے وی آلات اور ان کی تربیت کو پراکسیوں اور شراکت داروں کے حلقوں کے بڑھتے ہوئے نیٹ ورک کی طرف بھی دھکیلتا ہے۔
امریکی دفاعی خفیہ ایجنسی (ڈی آئی اے) کے مطابق، ایران کے پاس مشرقِ وسطیٰ میں ڈرون ہتھیاروں کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، جس میں کم از کم نو مختلف قسم کے خودکش ڈرون ہیں۔
ڈی آئی اے کے ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل سکاٹ بیریئر نے گزشتہ مئی میں کہا تھا کہ ڈرونز کا یہ پھیلاؤ اور مختلف قسمیں "تہران کو پورے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اور شراکت داروں کے مفادات پر حملہ کرنے کا ایک قابلِ تردید ذریعہ فراہم کرتی ہیں"۔
شام اور عراق میں امریکی اور بین الاقوامی اتحادی افواج پر درجنوں حملوں کے پیچھے ایران کا ہاتھ دیکھا جا سکتا ہے، جس میں حالیہ حملہ بھی شامل ہے جس کا آغاز جمعرات (23 مارچ) کو شام کے شہر الحساکہ کے قریب ڈرون حملے سے ہوا تھا۔
مہلک "خودکش ڈرون" حملے نے بین الاقوامی اتحاد کے اڈے پر مرمت کی سہولت کو نشانہ بنایا، جس میں ایک امریکی ٹھیکیدار ہلاک اور پانچ امریکی فوجی زخمی ہوئے، اور صدر جو بائیڈن کی جانب سے سخت امریکی ردِعمل اور انتباہ کیا گیا ہے۔
شام اور عراق میں تخریب کاری
شام میں، ایرانی ڈرون بین الاقوامی اتحاد کے اڈوں پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں، جس سے انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کو نقصان پہنچا ہے اور جنگ سے تباہ حال ملک میں "دولتِ اسلامیہ" (داعش)کے دوبارہ قدم جمانے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
گزشتہ اگست میں ان رپورٹوں، کہ ایران کی حمایت یافتہ لبنانی حزب اللہ کے ماہرین فاطمیون ڈویژن ملیشیا کے ارکان کو پالمیرا کے قریب مشرقی صحرا (بادیہ) میں ڈرون آپریشن کی تربیت دے رہے تھے، نے شامی کارکنوں کو مشتعل کر دیا تھا۔
شامی وکیل بشیر البسام نے شام میں ایران سے وابستہ ملیشیا کی طرف سے ڈرون کے استعمال کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ یہ "شام اور شامیوں کو مزید مشکل میں ڈال دیتا ہے"۔
سوال یہ ہے کہ ان ملیشیا گروہوں کو ڈرون سے لیس کیوں کیا گیا؟ انہوں نے کہا کہ ایران کے اقدامات سے شام کو اضافی بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
عراق میں، غیر ملکی سفارتی تنصیبات اور داعش کے خلاف برسرِپیکار بین الاقوامی اتحادی افواج پر حملہ کرنے کے لیے مشکوک ایران سے منسلک ملیشیا نے ڈرون کا استعمال کیا ہے۔
ان ملیشیاؤں نے عراقی سرزمین سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) پر حملے کرنے اور انہیں دھمکانے کے لیے بھی ڈرون کا استعمال کیا ہے۔
اس طرح کے حملے براہِ راست عرب تعلقات کو خطرے میں ڈالتے ہیں، بشمول عراق-سعودی میل جول، ممکنہ طور پر سعودی تعمیرِ نو کے بہت زیادہ فنڈز کو عراق سے دور موڑ دیتے ہیں۔
یمن کو مہلک برآمد
یمن میں حوثیوں کے زیرِ تسلط صنعا میں ایرانی ڈرونز کی پریڈ کی گئی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی فروری کی ایک رپورٹ کے مطابق، ڈرون ممکنہ طور پر حوثیوں تک ہتھیار پہنچانے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں، جو طویل عرصے سے جاری تنازع کو ختم کرنے کی کوششوں کے تناظر میں اڑ رہے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق، یمنی افواج نے جنوری میں عمان کی سرحد پر مبینہ طور پر کپڑوں سے لدے ایک ٹرک کا معائنہ کرنے کے دوران، حوثیوں کے لیے جانے والے یو اے وی انجنوں کی ایک کھیپ پکڑی تھی۔
مشاورتی اور مصالحتی کمیشن کے نائب سربراہ عبدالملک المخلفی نے ٹوئٹر پر کہا، "یہ ڈرون کتنے لوگوں کو مار سکتے ہیں؟ پچھلے آٹھ سالوں میں کتنے سمگل کیے گئے ہیں؟"
حکام نے جنوری میں کہا کہ سپاہِ پاسداران اسلامی انقلاب (آئی آر جی سی) کے ماہرین کو یمن کے الحدیدہ صوبے میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ حوثیوں کی بحیرۂ احمر اور آبنائے باب المندب میں بین الاقوامی جہاز رانی پر حملے کرنے میں مدد کی جا سکے۔
دسمبر میں الحدث نیوز چینل نے کہا کہ آئی آر جی سی کے ماہرین، جنہوں نے میزائلوں اور ڈرونز کی لانچنگ کے لیے پلیٹ فارم قائم کیے ہیں، کی موجودگی حوثیوں کی جانب سے جہاز رانی کے راستوں پر تازہ حملوں اور حملوں کی دھمکیوں کے ساتھ ہی ہوئی ہے۔
جنوری میں المشارق سے بات کرتے ہوئے الحدیدہ کے صوبائی ترجمان علی حمید الاحدال نے کہا کہ حوثی سرزمین پر اور بحیرۂ احمر میں جزیرے کامران پر "ایران میں تیار کردہ ڈرون کے پرزے جمع کر رہے ہیں"۔
ایران کا ڈرون بردار ڈویژن
ایرانی ڈرون جو بحیرۂ احمر میں بین الاقوامی جہاز رانی کے راستوں پر حملہ کرتے ہیں اور سعودی عرب میں تجارتی کارروائیاں کرتے ہیں سمندر میں بڑے خلل کا باعث بنتی ہیں جو کہ عالمی توانائی کی رسد کا ایک بڑا راستہ ہے۔
"ڈرون بوٹس" یا یمنی سرزمین سے کیے گئے، حملوں میں سعودی شہر ابہا کے ہوائی اڈے اور جدہ میں تیل کی صنعت کی تنصیبات کو بھی بار بار نشانہ بنایا گیا ہے۔
7 مارچ کی ایک رپورٹ میں، مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ (ایم ای آئی) نے کہا کہ اسے معلوم ہوا ہے کہ آئی آر جی سی کی بحریہ منظور شدہ ریاستی شپنگ لائن آئی آر آئی ایس ایل گروپ کی ملکیت والے دو تجارتی کنٹینر بحری جہازوں کو اپنے پہلے طیارہ بردار بحری جہاز میں تبدیل کر رہی ہے۔
اس میں کہا گیا، "شاہد مہدوی اور شاہد باقری ممکنہ طور پر ایرانی بحریہ کے ڈرون بردار ڈویژن کا حصہ بنیں گے، جس میں کئی بحری جہاز اور آبدوزیں شامل ہیں"۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ دونوں جہازوں کو ہیلی کاپٹر اور رن وے سے شروع کیے جانے والے، فکسڈ ونگ ڈرون، بشمول شاہد-136 خودکش ڈرون لے جانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، جس کی حد 2500 کلومیٹر تک ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آبنائے ہرمز کے قریب بندر عباس میں ایرانی شپ بلڈنگ اینڈ آف شور انڈسٹریز کمپلیکس کمپنی (آئی ایس او آئی سی او) تبدیلی کی حمایت کر رہی ہے، جو شاہد مہدوی پر کم از کم گزشتہ مئی سے جاری ہے۔
ایم ای آئی نے کہا کہ ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق، یہ جہاز مشرقِ وسطیٰ اور اس سے باہر ایران کی طویل فاصلے تک نگرانی اور حملہ کرنے کی صلاحیتوں میں اضافہ کریں گے۔
ان کا استعمال سمندری اثاثوں اور خطے میں امریکی اتحادیوں اور شراکت داروں کے نرم اہداف پر "غیر متناسب اور موقعے کی مناسبت سے" حملے کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔
ایم ای آئی کی رپورٹ میں کہا گیا، "جیسا کہ ایران نے اپنے ڈرون کے ساتھ کیا، وہ اس صلاحیت کو مشرقِ وسطیٰ اور دنیا بھر میں ریاستی اور نیم یا غیر ریاستی شراکت داروں اور پراکسیوں کو برآمد کر سکتا ہے"۔
اس نے یاد دلایا کہ سنہ 2021 میں، آئی آر جی سی بحریہ نے ایک آئل ٹینکر کو فارورڈ بیس جہاز، آئی آر آئی این ایس مکران میں تبدیل کیا تھا، جو جنگی ڈرون لے جا سکتا ہے۔
یو اے وی کی روس اور اس سے آگے برآمد
ایران اپنے ہتھیاروں میں باقاعدگی سے نئے یو اے ویز شامل کرتا ہے، اور ان کی تیاری، استعمال اور برآمد میں تیزی سے پُرعزم ہو گیا ہے۔
ایران پرائمر نے خبر دی کہ اس ماہ تک، ایران نے سینکڑوں شاہد خودکش ڈرون اور مہاجر حملہ آور اور جاسوس ڈرون ماسکو کو برآمد کیے ہیں۔
روس یوکرین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف اپنے حملوں میں ایرانی شاہد سیریز کے ڈرون کا استعمال کر رہا ہے جس نے زیادہ تر آبادی کی گرمی، پانی اور بجلی کی فراہمی میں خلل ڈالا ہے اور شہری ہلاکتوں کا سبب بنی ہے۔
یوکرین نے منگل کے روز کہا کہ روس نے ملک میں راتوں رات کل 15 ایرانی ساختہ ڈرون لانچ کیے جن میں سے 14 کو تباہ کر دیا گیا۔
اے ایف پی کے مطابق یوکرین کی مسلح افواج نے کہا کہ انہوں نے کیف کے اوپر ایک درجن روسی ڈرون مار گرائے ہیں اور "یو اے وی کا ملبہ گرنے کی وجہ سے ایک غیر رہائشی عمارت میں آگ لگ گئی"۔
ایران پرائمر کے مطابق، روس کو مہلک ڈرون فراہم کرنے کے علاوہ، ایران کم از کم چار دیگر حکومتوں: وینزویلا، سوڈان، ایتھوپیا اور تاجکستان نیز سات پراکسی ملیشیا کو بھی ڈرون فراہم کر رہا ہے۔
خطے اور اس سے باہر ایرانی ڈرونز کے جاری اور بڑھتے ہوئے خطرے کی روشنی میں، یو ایس سینٹرل کمانڈ (سینٹکام) فعال طور پر عوام سے یو اے ویز کے استعمال کے بارے میں تجاویز اور معلومات حاصل کر رہی ہے۔
اس میں ایران میں تیار کردہ ڈرون اور ایرانی یو اے ویز کی مختلف اقسام شامل ہیں۔
سینٹکام کے محکمۂ دفاع کا انعامات کا پروگرام ان اہل افراد کو 5 ملین ڈالرتک کے مالیاتی انعامات دیتا ہے جو ایسی معلومات فراہم کرتے ہیں جو امریکی یا اتحادی افواج کی حفاظت کرتی ہیں اور انہیں دہشت گردی سے نمٹنے کے قابل بناتی ہیں۔