سفارتکاری

چینی ویکسین پر عدم اعتماد نے سعودی عرب جانے والے پاکستانیوں کے لیے رکاوٹیں کھڑی کر دیں

از زرک خان

سال بھر جاری رہنے والے عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب پہنچنے والے پاکستانی زائرین، 30 نومبر 2020 کو جدہ میں شاہ عبدالعزیز بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اپنا سامان اٹھائے جاتے ہوئے۔ [اے ایف پی]

سال بھر جاری رہنے والے عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب پہنچنے والے پاکستانی زائرین، 30 نومبر 2020 کو جدہ میں شاہ عبدالعزیز بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اپنا سامان اٹھائے جاتے ہوئے۔ [اے ایف پی]

اسلام آباد -- سعودی طبی حکام نے ابھی تک کورونا وائرس کے لیے کوئی بھی چینی ساختہ ویکسین منظور نہیں کی جس کی وجہ ان کے قابلِ بھروسہ ہونے پر تشویشیں ہیں ، اس امر نے ہزاروں پاکستانی اہلکاروں اور حاجیوں کے ملک میں داخلے کو مشکل بنا دیا ہے۔

ریاض نے فائزر، ایسٹرازینیکا، موڈرنا اور جانسن اینڈ جانسن ویکسینوں کی منظوری دی ہے۔ گزشتہ جمعرات (20 مئی) کو مؤثر ہونے والے نئے اقدامات کے تحت ایسے لوگ جنہوں نے یہ ٹیکے نہیں لگوائے ان کے لیے سعودی عرب میں آمد پر قرنطینہ کرنا لازمی ہے۔

سرکاری طور پر چلائی جانے والی فضائی کمپنی نے اپنی ویب سائٹ پر بیان کیا کہ تمام مسافروں کے لیے ریاض کی منظور کردہ چار ویکسینز میں سے ایک ویکسین لگوانا اور ویکسین لگوانے کا ثبوت دکھانا لازمی ہے۔

گزشتہ فروری میں شروع ہونے والی حفاظتی ٹیکوں کی سرکاری مہم کے جزو کے طور پر پاکستان نے اپنے شہریوں کو زیادہ تر چینی ویکسینز -- سائنوفارم اور سائنوویک -- لگائی ہیں۔

20 اپریل کو کراچی میں محکمۂ صحت کا ایک اہلکار ایک باشندے کو کورونا وائرس کی سائنوفارم ویکسین لگاتے ہوئے۔ [زرک خان/پاکستان فارورڈ]

20 اپریل کو کراچی میں محکمۂ صحت کا ایک اہلکار ایک باشندے کو کورونا وائرس کی سائنوفارم ویکسین لگاتے ہوئے۔ [زرک خان/پاکستان فارورڈ]

روسی ساختہ ایک ویکسین، سپتنک پنجم کی کوئی 50،000 خوراکیں اپریل میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں تجارتی بنیادوں پر دستیاب تھیں۔

دریں اثناء، پاکستان نے عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے ترقی پذیر ممالک میں کووڈ-19 کے ٹیکوں کی مساوی تقسیم کے لیے کوویکس پروگرام کے جزو کے طور پر اس مہینے کے شروع میں ویکسین کی 1.2 ملین خوراکیں وصول کرنے کے بعد اپنے شہریوں کو لگانے کے لیے ایسٹرازینیکا استعمال کرنا شروع کر دی ہے۔

سعودی پالیسی پہلے ہی ان ہزاروں پاکستانی شہریوں کو متاثر کر چکی ہے جو کام کرنے یا دینی سفر (حج) کے لیے سلطنت کا سفر کرنے کے خواہشمند ہیں۔

حج میں رکاوٹیں

سعودی عرب کا سفر کرنے کی کوشش کرنے والے پاکستانیوں کو دو رکاوٹوں کا سامنا ہے: فضائی کمپنیوں کی جانب سے سوار کروانے سے صاف انکار، اور اگر وہ کسی نہ کسی طرح اپنے جہاز میں سوار ہو بھی جائیں تو ایک مہنگے ہوٹل میں لازمی قرنطینہ کرنا۔

پاکستانی ٹریول ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ سعودی حکام نے فضائی کمپنیوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ ایسے مسافروں کو سوار ہونے سے انکار کر دیں جو چینی- یا روسی ساختہ ویکسین لگوانے کی سندوں کے حامل ہیں۔

کراچی کے مقامی ایک ٹریول ایجنٹ، اشرف محمد نے کہا، "سعودی حکومت اپنی اس نئی ویکسین پالیسی کا اطلاق 20 مئی سے کرتی رہی ہے۔"

اشرف کے مطابق جو مسافر سوار ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن انہوں نے سعودی عرب کی جانب سے منظور شدہ ویکسینز میں سے کوئی ایک نہیں لگوائی ہوتی تو انہیں ان کی آمد پر سات دن کے لیے ہوٹلوں میں قیام کرنے کے لیے جدہ میں 700 ڈالر اور ریاض میں 1،300 ڈالر ادا کرنے ہوں گے۔

حسین نے کہا، "پاکستان میں، صرف چینی اور روسی ساختہ ویکسینز دستیاب ہیں اور سعودی عرب اور دیگر ترقی یافتہ ممالک انہیں قبول نہیں کر رہے کیونکہ وہ ان کی استعداد اور چینی ساختہ ویکسینز کے محفوظ ہونے کے بارے میں مشکوک ہیں۔"

لوئر دیر، خیبرپختونخوا کے ایک مکین، رشید حسین نے کہا کہ فضائی کمپنی کے حکام نے انہیں سعودی عرب جانے سے روک دیا کیونکہ انہوں نے غیر چینی ساختہ ویکسین نہیں لگوائی تھی۔

اگر وہ انہیں پرواز کرنے کی اجازت دے بھی دیتے، تو ہوٹل میں رہنے کا خرچہ ان کی استطاعت سے بہت زیادہ تھا۔

انہوں نے کہا، "میں [ریاض میں] ایک ہفتے کے 1،300 ڈالر ادا کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ میں ریاض میں ایک محنت کش مزدور ہوں اور میری مہینے کی تنخواہ 580 ڈالر کے قریب ہے"۔

محنت کشوں کی عالمی تنظیم کی جانب سے مرتب کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، کوئی 96 فیصد پاکستانی تارکینِ وطن محنت کش خلیجی ممالک میں کام کرتے ہیں، جس میں سے اکثریت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں مقیم ہے۔

دریں اثناء، بدھ کے روز ذرائع ابلاغ نے خبر دی کہ سعودی حکومت اصرار کر رہی ہے کہ غیر ملکی حاجیوں کے لیے سلطنت پہنچنے سے قبل کووڈ-19 کی ایک منظورشدہ ویکسین لگوانا لازمی ہے۔

سعودی عرب کی جانب سے چینی ساختہ ویکسینز کی منظوری دینے سے انکار نے ان پاکستانیوں کو پریشان کر دیا ہے جو جولائی میں حج ادا کرنے کے لیے پُرامید ہیں۔

پشاور کے مقامی ایک تاجر جو اس برس فریضۂ حج ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، شیخ ریاض نےکہا، "ایسا لگتا ہے کہ چین نے اپنی ویکسینز پاکستان میں جانچی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اور دیگر دوست ممالک اسے قبول نہیں کر رہے۔"

چینی ویکسین میں کمیاں

کووڈ-19 ویکسینز کی تیاری ان طریقوں میں سے ایک طریقہ رہی ہے جن سے بیجنگ نے اپنے کووڈ-19 کی وباء سے نمٹنے کے طریقے پر پیدا ہونے والے شکوک و شبہات اور اس کے بعد الزامات کا رخ موڑنے اور وباء کے ماخذوں کے بارے میں جھوٹ پھیلانے کے مقصد سے چلائی گئی غلط معلومات کی مہمات کی پردہ پوشی کرنے کرنے کی کوشش کی ہے.

لیکن چین کے بیماری پر قابو پانے والے محکمے کے ایک ممتاز اہلکار سرِعام چینی ساختہ ٹیکوں کی تاثیر پر تشویشوں کا اعتراف کر چکے ہیں جس پر ملک کی کورونا وائرس کی ویکسینوں کی استعداد میں اضافہ کرنے کا ممکنہ منصوبہ بنایا گیا تھا.

مقامی ذرائع ابلاغ نے خبر دی تھی کہ 10 اپریل کو چینگڈو میں ایک کانفرنس میں چینی مرکز برائے قابو و تدارک امراض کے ڈائریکٹر، گاؤ فُو نے بتایا تھا کہ محکمہ "غور کر رہا ہے کہ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے کہ موجودہ ویکسینز کی اثرانگیزی بہت زیادہ نہیں ہے".

بی بی سی کے مطابق، انہوں نے کہا کہ چین کی موجودہ ویکسینز، بشمول سائنوویک اور سائنوفارم کی خوراکیں، "حفاظت کی بہت بلند شرحوں کی حامل نہیں ہیں"۔

طبی اہلکار بہتر ویکسینز چاہتے ہیں

حکام اور نیم طبی پیشہ ور عملے کی ایسوسی ایشن نے کہا کہ پاکستان میں محکمۂ صحت کے اہلکار چین کی جانب سے عطیہ کردہ کورونا وائرس کی ویکسینز لگوانے میں جھجکتے رہے ہیں کیونکہ انہیں دوا کی استعداد پر شک تھا۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ملک میں سرکاری اور نجی شعبے میں 1.2 ملین اہلکار خدمات انجام دے رہے ہیں۔ تاہم، اپریل کے آخر تک، صرف 224،000 ڈاکٹروں، نرسوں اور نیم پیشہ ور طبی اہلکاروں نے چینی سائنوفارم ویکسین کی دونوں خوراکیں لگوائی تھیں۔

"پاکستان میں، عام طور پر، چینی مصنوعات کو کمتر معیار کی سمجھا جاتا ہے "یہ کہنا تھا، اپریل کے مہینے میں کراچی میں نرسوں کی ایسوسی ایشن کے ایک رہنماء جاوید حسین کا۔ "محکمۂ صحت کے اہلکار کووڈ-19 کے لیے چینی ویکسینز پر کیسے اعتماد کر سکتے ہیں؟"

انہوں نے تصدیق کی کہ محکمۂ صحت کے اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد نے ویکسین لگوانے کے لیے اندراج نہیں کروایا۔

حسین نے کہا، "محکمۂ صحت کے اہلکاروں میں کووڈ کی ویکسین لگوانے کے معاملے پر کوئی جھجھک نہیں ہے۔ کوئی بھی جھجھک چینی ساختہ ویکسین کی استعداد اور حفاظت کی وجہ سے ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ محکمۂ صحت کے بیشتر اہلکار ایسٹرازینیکا یا فائزر ویکسین کی آمد کے منتظر رہے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500