صحت

دنیا روس، چین کی جانب سے کووڈ-19 کی غلط معلومات پر زیادہ مشکوک ہو گئی ہے

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

محکمۂ صحت کا ایک اہلکار 4 اپریل کو تریپولی میں لیبیا کی وزارتِ صحت کے اندر ریفریجریٹڈ یونٹوں میں رکھنے کے لیے روسی سپتنک پنجم ویکسین کے ڈبے لے جاتے ہوئے۔ [محمود ترکیا / اے ایف پی]

محکمۂ صحت کا ایک اہلکار 4 اپریل کو تریپولی میں لیبیا کی وزارتِ صحت کے اندر ریفریجریٹڈ یونٹوں میں رکھنے کے لیے روسی سپتنک پنجم ویکسین کے ڈبے لے جاتے ہوئے۔ [محمود ترکیا / اے ایف پی]

برسلز -- تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس اور چین سب کی بھلائی کے لیے کورونا وائرس کی عالمی وباء کو قابو میں لانے کی بجائے غلط معلومات پھیلا کر سیاسی و جغرافیائی کھیل میں نمبر ٹانکنے کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھتے ہیں۔

بدھ (28 اپریل) کے روز یورپی یونین (ای یو) نے کہا کہ ماسکو اور بیجنگ نے کووڈ-19 کے خلاف مغربی ساختہ ویکسینز کو بدنام کرنے جبکہ خود اپنی ویکسینز کی تشہیر کرنے کے لیے "ریاستی سرپرستی میں غلط معلومات" کی مہمات چلانے پر کمر کس لی ہے۔

یورپی یونین کی خارجہ سروس، یورپین ایکسٹرنل ایکشن سروس (ای ای اے ایس) کی جانب سے ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے، "نام نہاد 'ویکسین سفارتکاری' کی منطق ایسے کھیل پر مبنی ہے جس کا حاصل جمع صفر ہے" جو "مغربی ساختہ ویکسینز، یورپی یونین کے اداروں اور مغربی/یورپی ویکسینیشن کی حکمتِ عملیوں پر اعتماد ختم کرنے" میں کوشاں ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دسمبر سے، روسی ذرائع ابلاغ، حکام اور ریاستی کمپنیاں سپتنک پنجم ویکسین کو آگے بڑھانے کے لیے متحد ہو گئی ہیں جبکہ یورپی یونین پر روسی ٹیکوں کو "سبوتاژ" کرنے کا الزام عائد کرنے کے لیے "مخالفانہ پیغام رسانی" کو استعمال کر رہے ہیں۔

طبی عملے کا ایک رکن، 28 اپریل کو ووہان چین میں ایک یونیورسٹی کے طالب علم کے لیے کووڈ-19 ویکسین کی خوراک تیار کرتے ہوئے۔ [ایس ٹی آر/اے ایف پی]

طبی عملے کا ایک رکن، 28 اپریل کو ووہان چین میں ایک یونیورسٹی کے طالب علم کے لیے کووڈ-19 ویکسین کی خوراک تیار کرتے ہوئے۔ [ایس ٹی آر/اے ایف پی]

چین کے صدر شی جن پنگ (بائیں) اور روس کے صدر ولادی میر پیوٹن 14 نومبر 2019 کو برازیلیا میں برکس سمٹ کے دوران ایک اجلاس میں شریک ہیں۔ [پاول گولووکن/پول/اے ایف پی]

چین کے صدر شی جن پنگ (بائیں) اور روس کے صدر ولادی میر پیوٹن 14 نومبر 2019 کو برازیلیا میں برکس سمٹ کے دوران ایک اجلاس میں شریک ہیں۔ [پاول گولووکن/پول/اے ایف پی]

"کریملن کے حامی ذرائع ابلاغ کے اداروں، بشمول سپتنک پنجم کا باضابطہ ٹویٹر اکاؤنٹ، نے یورپین میڈیسن ایجنسی (ای ایم اے) پر عوامی اعتماد کو برباد کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کے ضوابط اور سیاسی غیرجانبداری کو مشکوک بنا دیا ہے۔"

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاستی پشت پناہی کے حامل ذرائع ابلاغ نے اس بیانیئے کہ ادارے نے دانستہ طور پر منظوری دینے میں تاخیر کی ہے، کو ہوا دینے کی کوشش میں روسی سپتنک پنجم ویکسین کی جانب سے مارکیٹنگ کی منظوری کے لیے دی گئی ایک درخواست کے معاملے پر "تذبذب کا بیج بونے" کی کوشش کی ہے۔

اس میں مزید کہا گیا ہے، "کریملن کے حامی ذرائع ابلاغ نے ای ایم اے اور یورپی یونین پر روسی ساختہ ویکسین کے خلاف عمومی طور پر سیاسی جانبداری کا الزام بھی عائد کیا ہے۔"

روس عالمی وباء سے سیاسی و جغرافیائی ترقی کے لیے انحصار کر رہا ہے ، یہ بات ایسٹونیا کی فارن انٹیلیجنس سروس نے فروری کی ایک رپورٹ میں کہی تھی۔

اس میں کہا گیا ہے، "کریملن کا ماننا ہے کہ عالمی وباء دو رجحانات میں تیزی لائے گی جن کو فروغ دینے کے لیے روس خود بھی کام کر رہا ہے: بین الاقوامی تعلقات میں کثیر قطبی تغیر اور عالمی سٹیج پر مغربی اثر و رسوخ میں کمی۔"

روسی صدر ولادی میر پیوٹن کو توقع ہے کہ "عالمی وباء مغرب کو داخلی پالیسی اور معاشی مسائل پر توجہ دینے پر مجبور کر دے گی، عوامیت پسند اور انتہاپسند تحریکوں کے ظہور کا سبب بنے گی، اور انجامِ کار مغربی معاشروں کے اقدار پر مبنی اور ادارہ جاتی اتحاد کو پارہ پارہ کر دے گی"۔

اس میں مزید کہا گیا ہے، "روس ان رجحانات کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے جلتی پر تیل چھڑکنے کے لیے تیار ہے۔"

معیار کو یقینی بنانے کے مسائل

کریملن کی گمراہ کرنے کی رضامندی کووڈ-19 کے خلاف ایک مؤثر ویکسین تلاش کرنے کی عالمی دوڑ میں دیکھی جا چکی ہے۔

مغربی ساختہ ویکسینز کو بدنام کرنے کے مہمات کے ساتھ ساتھ، روسی حکومت نے اپنی سپتنک پنجم ویکسین کی تشہیر کرنے کے لیے ای بھاری بھرکم پراپیگنڈہ مہم شروع کر دی ہے.

صحت کے عالمی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے، لیکن "اول" آنے کی دوڑ معیار کو یقینی بنانے کی قیمت پر لگی ہے۔

اس ہفتے کے آغاز میں، برازیل کے ڈرگ ریگولیٹر انویسا نے اس بنیاد پر سپتنک پنجم کی درآمد روکنے کا فیصلہ کیا تھا کہ جانچ کردہ بیچز میں نزلے کا سبب بننے والے ایک عام وائرس کے زندہ ورژن موجود تھے۔

سوموار کے روز اس نے ملک کے شمال مشرق میں کئی ریاستوں کی جانب سے سپتنک پنجم ویکسین کی 30 ملین سے زائد خوراکوں کے حصول کی ایک درخواست مسترد کر دی تھی۔

مسئلے کا مرکز ایک "ایڈینووائرس ویکٹر" -- ہے، ایک وائرس جو عام طور پر سانس کی معمولی بیماری کا سبب بنتا ہے لیکن ویکسینز میں جینیاتی طور پر تبدیل کردہ ہوتا ہے تاکہ یہ اپنے آپ کو دوہرا نہ سکے اور انسانی خلیوں کے لیے ڈی این اے ہدایات لینے کے لیے ترمیم شدہ ہوتا ہے کہ وہ کورونا وائرس کا سپائک پروٹین تیار کریں۔

جواب میں یہ عمل انسانی نظام کو تربیت دیتا ہے کہ وہ ایسی صورتحال کے لیے تیار رہے جب اس کا سامنا اصلی کورونا وائرس سے ہو۔

آن لائن اپ لوڈ کیے گئے ایک سلائیڈ شو کے مطابق، انویسا کے سائنسدانوں نے کہا کہ انہوں نے بوسٹر شاٹ کے نمونوں کا جانچا اور پتہ چلا کہ یہ "نقل تیار کرنے والا جزو" تھا -- مطلب یہ کہ جب ایک بار یہ جسم کے اندر چلا گیا، ایڈینووائرس ضرب کھانا جاری رکھ سکتا ہے۔

کینیڈا کی ویکسین اور عفونتی بیماریوں کی تنظیم کی ایک محقق سائنسدان، چوٹی کی ماہرِ وبائیات ڈاکٹر اینجلا راسموسن نے اے ایف پی کو بتایا کہ نتائج "تیاری کے عمل کی سالمیت کے متعلق سوال کھڑے کرتے ہیں" اور کمزور مدافعتی نظام کے حامل ویکسین لگوانے والوں کے لیے سلامتی کا ایک مسئلہ بن سکتا اے۔

ایک اور نامعلوم امر یہ ہے آیا کہ تیاری میں آنے والا مسئلہ جو ایڈینووائرس ویکٹر کے اپنی نقل تیار کرنے کے قابل ہونے پر منتج ہوا ہے سپائک پروٹین کے لیے ڈی این اے کوڈ کو بھی مغلوب کر دیتا ہے -- جس سے ٹیکہ کورونا وائرس ویکسین کے طور پر غیر مؤثر ہو جاتا ہے۔

روس کے گامالیا انسٹیٹیوٹ، جس نے ویکسین تیار کی ہے، نے رپورٹیں مسترد کر دی ہیں۔

لیکن یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ایسا مسئلہ پیدا ہوا ہے۔

اس مہینے کے شروع میں، سلواکیہ نے بھی کہا تھا کہ اسے سپتنک پنجم کی ویکسینز جو اس نے درآمد کی ہیں، کی ترکیب پر تشویشیں ہیں، ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے نمونوں کو ان سے نہیں ملایا تھا جو کلینیکل مطالعات میں استعمال کیے گئے تھے۔

امریکی دواساز ڈیریک لووی نے سائنس میگزین کے لیے ایک بلاگ پوسٹ میں لکھا، "اس قسم کی چیز تیاری اور معیار کو یقینی بنانے کے پورے عمل پر سوال اٹھا دیتی ہے، اور میں سمجھ سکتا ہوں کہ برازیلی ریگولیٹرز کو کیوں تشویش ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ سپتنک پنجم بنانے والوں کی جانب سے جواب غیر ذمہ دارانہ تھا۔

تشویشوں پر شفافیت کے ساتھ توجہ دینے اور حل تلاش کرنے کے لیے کام کرنے کی بجائے، کریملن کا مؤقف الزام کو رد کرنا اور گمراہ کرنا ہے۔

چین 'ترقی پذیر ممالک' کو ہدف بنا رہا ہے

یورپی یونین کی رپورٹ میں کہا گیا ہے، دریں اثناء بیجنگ اپنی ویکسینز کو "ترقی پذیر ممالک کے لیے زیادہ موزوں" کے طور پر فروغ دے رہا ہے، جبکہ مغربی ویکسینز کے محفوظ ہونے اور یہاں تک کہ کورونا وائرس کے ماخذ کے متعلق بھی "گمراہ کن بیانیئے" اپنا رہا ہے۔

فروری کے آخر میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان وینگ وین بن نے کہا تھا کہ چین اپنی کووڈ-19 کی ویکسینز 27 ممالک کو برآمد کر رہا ہے اور 53 ضرورت مند ممالک کو مفت "ویکسین امداد" فراہم کر رہا ہے۔

لیکن چین کی چاروں مشروط طور پر منظور شدہ ویکسینز نے حریف ٹیکوں فائزر کی بائیو این ٹیک، موڈرنا اور حتیٰ کہ سپتنک پنجم سے بھی بہت کم شرح اثرانگیزی شائع کی ہے۔

اس مہینے کے اوائل میں، چینی مرکز برائے قابو و تدارک امراض کے ڈائریکٹر گاؤ فو نے تسلیم کیا تھا کہ محکمہ "غور کر رہا تھا کہ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے کہ موجودہ ویکسینز کی اثرانگیزی زیادہ نہیں ہے" ، یہ خبر مقامی ذرائع ابلاغ سے آئی تھی۔

بی بی سی نے بتایا کہ ان کا کہنا تھا موجودہ ویکسینز، بشمول سائنوویک اور سائنوفارم کی خوراکیں، "حفاظت کی بہت بلند شرح کی حامل نہیں ہیں"۔

کووڈ-19 کی ویکسینز کی تیاری ان طریقوں میں سے ایک طریقہ رہی ہے جس سے بیجنگ نے کووڈ-19 کی وباء کو غیر ذمہ دارانہ طور پر سنبھالنے اور بعد میں غلط معلومات فراہم کرنے کی مہمات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

بیجنگ کی خراب کووڈ-19 ٹیسٹ کٹس, کی برآمدات۔ بیجنگ کی خراب کووڈ-19 ٹیسٹ کٹس گھٹیا وینٹی لیٹرز اور جعلی ماسک اور دیگر ذاتی حفاظتی آلات کی برآمدت ایک اور انتباہ کا کام کرتی ہیں۔

پاکستان میں، محکمۂ صحت کے بہت سے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ انہیں چینی ساختہ ویکسینز کے مؤثر اور محفوظ ہونے پر شک ہے.

گزشتہ ماہ گیلپ پاکستان اور ڈاکٹروں کے حقوق کی ایک تنظیم، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے کروائے گئے رائے عامہ کے ایک جائزے نے تصدیق کی کہ ملک بھر میں محکمۂ صحت کے اہلکاروں کی نصف تعداد کو سائنوفارم ویکسین پر تشویشیں تھیں اور اس کی بجائے وہ چاہتے ہیں کہ انہیں ایسٹرازینیکا یا فائزر کے ٹیکوں کی پیشکش کی جائے۔

کراچی میں نرسوں کی انجمن کے ایک رہنماء، جاوید حسین نے کہا، "کووڈ کی ویکسین لگوانے کے لیے محکمۂ صحت کے اہلکاروں میں کوئی تامل نہیں ہے، کوئی بھی تذبذب چینی ساختہ ویکسین کی اثرانگیزی اور محفوظ نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔"

پشاور میں ایک نرس، سلمان آفریدی، نے کہا، "پاکستان کے محکمۂ صحت کے اہلکاروں میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ چین حکومتِ پاکستان کو عطیہ کرنے کے بعد ناقص معیار کی کووڈ ویکسینز کی جانچ ان پر کر رہا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500