صحت

چین کی جانب سے کووڈ-19 ویکسین کے لیے آخری لمحات میں ساکھ بچانے کی کوششیں

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

24 ستمبر کو بیجنگ میں کووڈ-19 کی تیاری کے لیے تعمیر کردہ ایک نئی فیکٹری کے میڈیا کے دورے کے دوران سائنوویک کے عملے کا ایک رکن ویکسین کی پڑتال کرتے ہوئے۔ دنیا بھر میں کورونا وائرس کی ویکسین کے سامنے آنے پر، چین غریب ممالک سے اپنے تیار کردہ ویکسین کے ٹیکوں تک ترجیحی رسائی دینے کے وعدے کرتے ہوئے، خود کو ایک اہم کردار کی پوزیشن میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ [وینگ ژو / اے ایف پی]

24 ستمبر کو بیجنگ میں کووڈ-19 کی تیاری کے لیے تعمیر کردہ ایک نئی فیکٹری کے میڈیا کے دورے کے دوران سائنوویک کے عملے کا ایک رکن ویکسین کی پڑتال کرتے ہوئے۔ دنیا بھر میں کورونا وائرس کی ویکسین کے سامنے آنے پر، چین غریب ممالک سے اپنے تیار کردہ ویکسین کے ٹیکوں تک ترجیحی رسائی دینے کے وعدے کرتے ہوئے، خود کو ایک اہم کردار کی پوزیشن میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ [وینگ ژو / اے ایف پی]

بیجنگ -- جبکہ امیر ممالک بڑے ناموں والی کمپنیوں سے کورونا وائرس کی ویکسین کی محدود مقدار خریدنے کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں، چین اپنے ملک میں تیار کردہ ٹیکوں کی غریب تر ممالک کو پیشکش کرنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔

مگر یہ فیاضی مکمل طور پر ایثار نہیں ہے، بلکہ بدلے میں چین طویل مدتی سفارتی تعلقات کے لیے پُرامید ہے۔

اس حکمتِ عملی کے کثیر ممکنہ فوائد ہیں: عالمی وباء کے شروع میں چین کی جانب سے جس طریقے سے وباء سے نمٹا گیا اس پر تنقید اور ناراضگی کو کم کرنا، اس کی بائیوٹیک کمپنیوں کے تشخص کو بہتر بنانا، اور ایشیاء اور اس سے آگے تک اثرورسوخ کو مضبوط بھی کرنا اور وسیع بھی۔

واشنگٹن میں کونسل برائے غیر ملکی تعلقات (سی ایف آر) میں عالمی صحت کے لیے ایک سینیئر فیلو، ہوانگ یانژونگ نے اے ایف پی کو بتایا، "کوئی شک نہیں ہے کہ چین اپنے مسخ شدہ تشخص کو بحال کرنے کی کوشش میں ویکسین سفارتکاری سے کام لے رہا ہے۔"

9 دسمبر کو لیما، پیرو میں آزمائش کے دوران محکمۂ صحت کا ایک اہلکار چینی کمپنی سائنوفارما کی جانب سے تیار کردہ کووڈ-19 ویکسین ایک رضاکار کو لگانے کی تیاری کرتے ہوئے۔ [ارنسٹو بیناویدس/ اے ایف پی]

9 دسمبر کو لیما، پیرو میں آزمائش کے دوران محکمۂ صحت کا ایک اہلکار چینی کمپنی سائنوفارما کی جانب سے تیار کردہ کووڈ-19 ویکسین ایک رضاکار کو لگانے کی تیاری کرتے ہوئے۔ [ارنسٹو بیناویدس/ اے ایف پی]

15 اگست کو لی گئی اس تصویر میں ناظرین ایک پیشکاری دیکھتے ہوئے جبکہ وہ ووہان، چین میں تیراکی کے ایک تالاب میں ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔ ووہان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو غلط طریقے سے سنبھالنے پر تنقید کی زد میں آئے چین نے اپنی زیادہ تر قابلیت کو وباء پر قابو پانے میں لگایا ہے۔ [ایس ٹی آر/ اے ایف پی]

15 اگست کو لی گئی اس تصویر میں ناظرین ایک پیشکاری دیکھتے ہوئے جبکہ وہ ووہان، چین میں تیراکی کے ایک تالاب میں ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔ ووہان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو غلط طریقے سے سنبھالنے پر تنقید کی زد میں آئے چین نے اپنی زیادہ تر قابلیت کو وباء پر قابو پانے میں لگایا ہے۔ [ایس ٹی آر/ اے ایف پی]

"یہ چین کے عالمی اثرورسوخ میں اضافہ کرنے اور ۔۔۔ جغرافیائی و سیاسی تنازعات ۔۔۔ کو باہمی طور پر حل کرنے کا ایک ہتھیار بھی بن چکا ہے۔"

اس کی جانب سے ووہان میں کورونا وائرس کی وباء پھوٹنے کو سنبھالنے پر ہدفِ تنقید بننے پر، چین نے اپنی قابلیت کو زیادہ تر وباء پر قابو پانے میں لگایا ہے، جس میں ریاستی ذرائع ابلاغ پول پارٹیوں پر زندگی کو معمول پر دکھانے کی تصاویر اور کھیلوں کے مقابلوں کی تصاویر دکھائی جاتی رہی ہیں۔

عالمی وباء کے ابتدائی مہینوں میں، بیجنگ نے ذاتی حفاظتی آلات (پی پی ای) کی پیداوار میں اضافہ کر دیااور کروڑوں ماسک، دستانے، وینٹی لیٹر، کورونا وائرس کی ٹیسٹنگ کٹس اور دیگر طبی آلات برآمد کرنے میں عجلت دکھائی۔

مگر زیادہ تر پی پی ای اور طبی آلات جو چین سے آیا تھا ناقص اور غیر مؤثر ثابت ہو چکا ہےاور ان رپورٹوں سے داغدار ہو چکا ہے کہ بیشتر سامان سنکیانگ میں مسلمان 'غلام مزدوروں'کا تیار کردہ تھا۔

کئی ممالک نے چین کی جانب سے بھیجی گئی غیر معیاری یا خراب طبی مصنوعات کے بارے میں شکایت کی ہے۔ چند واقعات میں، خریداروں نے خراب سامان کی وجہ سے معاہدے منسوخ کر دیئے۔

اپریل میں فن لینڈ حکومت نے کہا تھا کہ فن لینڈ کی جانب سے خریدے گئے دو ملین حفاظتی ماسک ہسپتالوں میں استعمال کے لیے غیرمناسب نکلے، اسی مہینے امریکی محکمۂ انصاف نے ڈاکٹروں کے لیے خریدے گئے نصف ملین نقلی اور گھٹیا این95 ماسک فروخت کرنے پر ایک چینی کمپنی کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کیا تھا.

اس سے قبل، ڈچ حکومت نے 1.3 ملین ماسک کی ایک چینی کھیپ میں سے 600،000 ماسک واپس کر دیئے تھے جو معیار پر پورے نہیں اترتے تھے۔

سپین نے ایک غیر مجاز چینی کمپنی کی جانب سے بھیجی گئی ہزاروں کی تعداد فوری ٹیسٹنگ کٹس اپریل میں یہ پتے چلنے پر مسترد کر دی تھیں کہ وہ ناقابلِ بھروسہ ہیں۔

ویکسین سفارتکاری -- شرائط کے ساتھ

اب، جب مغربی ممالک کی بڑی دواساز کمپنیوں نے اپنی ویکسین مارکیٹ میں لانی شروع کر دی ہے، چین بھی اپنے ورژن لانے لگا ہے -- کروڑوں ٹیکے فراہم کرنے کے معاہدوں پر دستخط کرتے ہوئے، بشمول ان ممالک کے ساتھ جن کے کبھی بیجنگ کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں تھے۔

چینی سفارتکاروں نے ملائشیا اور فلپائن کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، اور دونوں ہی ماضی میں جنوبی چینی سمندر میں بیجنگ کے توسیعی عزائم پر شکوہ کناں رہے ہیں.

اگست میں، صدر لی کیکونگ نے میکانگ دریا کے ساتھ ممالک کو ویکسین تک ترجیحی رسائی دینے کا وعدہ کیا تھا، جہاں چینی کی جانب سے ڈیموں کی تعمیر سے تباہ کن خشک سالی کا سامنا ہے۔

"چین کی 'ویکسین سفارتکاری' غیر مشروط نہیں ہے،" یہ بات سنگاپور کے مقامی یوسف اسحاق انسٹیٹیوٹ کی جانب سے اس ماہ شائع کردہ ایک تحقیقی مقالے میں اردھتیا ادوارد یرمیاہ اور کلاؤس ہنرچ رادیتو کی جانب سے کہی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا، "بیجنگ ویکسین کے عطیات کو اپنے علاقائی ایجنڈے، خصوصاً حساس امور جیسے کہ جنوبی چینی سمندر میں اس کے دعووں میں پیش قدمی کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔"

سی ایف آر کے ہوانگ کا کہنا تھا کہ صدر شی جنگ پنگ کی جانب سے دنیا بھر میں چینی ویکسین کی بطور "عوامی شئے" پیشکش کی چلی گئی چال بیجنگ کو عالمی صحت میں ایک رہنماء بنا کر پیش کرنے کے قابل بناتی ہے.

اب چینی حکومت آئندہ برس کورونا وائرس کی ویکسین کے ایک ارب ٹیکے بنانے کے لیے پیداواری اداروں کو بہتر بنا رہی ہے -- اور، اپنے ہی ملک میں وباء کو بڑے پیمانے پر سنبھال لینے کے بعد، اس کے پاس بیچنے کے لیے اضافی ٹیکے ہوں گے۔

عالمی وباء سے منافع خوری

جبکہ دنیا کی بیشتر معیشتیں مشکلات کا شکار ہیں کیونکہ کووڈ-19 کی عالمی وباء نے کاروبار تباہ کر دیئے ہیں اور ان گنت ملازمتیں ختم کر دی ہیں، چین -- جو کہ نئے کورونا وائرس کا ماخذ ہے -- نے ریکارڈ ترقی بتائی ہے.

ہانگ کانگ کی مقامی دلالی فرم، ایسنس سیکیورٹیز کی جانب سے لگائے گئے ایک تخمینے کے مطابق، اگر چین درمیانی اور کم آمدنی والے صرف 15 فیصد ممالک کو پکڑ سکتا ہے، تو اس کی خالص فروخت تقریباً 2.8 بلین ڈالر ہو گی۔

ای کامرس کے دیو، علی بابا نے پہلے ہی ایتھوپیا اور دبئی میں ویئر ہاؤس تعمیر کر لیے ہیں جو افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے لیے ویکسین کی تقسیم کاری کے مراکز کے طور پر کام کریں گے۔

بیجنگ برازیل، مراکش اور انڈونیشیا جیسے ممالک میں ویکسین کی پیداوار کے کارخانے تعمیر کر رہا ہے جنہوں نے چینی دواسازوں کی جانب سے عالمی آزمائشوں میں حصہ لیا ہے۔

چینی فرمیں اس بنیادی ڈھانچے کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانے کے قابل ہوں گی -- جو اس کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو کا حصہ ہیں۔

لینکاسٹر نے کہا، "یہ تمام کوششیں، جنہیں 'صحت کی شاہراہِ ریشم' کے طور پر نام دیا گیا ہے، اپنی قومی ساکھ بنانے میں چین کی مدد کر رہی ہیں جبکہ اس کی کمپنیوں کے لیے نئی منڈیاں کھل رہی ہیں۔"

ویکسین کی آزمائشیں چین کی بڑی دواساز کمپنیوں کی جیبیں بھر رہی ہیں۔

ازبک وزارتِ اختراعی ترقی نے جمعرات (10 دسمبر) کو ایک بیان میں کہا کہ ویکسین ساز انہوئی زہیفی لانگکوم بائیوفارموسوٹیکل نے اپنی ویکسین کے 3،000 ٹیکے اور 3،000 پلیسیبو مرحلہ 3 کی ٹیسٹنگ کے لیے ازبکستان کو پہنچائی ہیں۔

آزمائشیں جمعہ (11 دسمبر) سے شروع ہونا طے ہیں۔

اکتوبر میں شائع ہونے والی چین کے امیر ترین شہریوں کی سالانہ فہرست کے مطابق، زہیفی کے بانی جیانگ رینشنگ نے اس سال اپنی ذاتی دولت تین گنا ہو کر 19.9 بلین ڈالر بتائی ہے۔

اعتماد کا فقدان

تاہم، دودھ میں مکھی گر گئی ہے۔

چین کی چار ویکسینیں تیاری کے حتمی مراحل میں ہیں اور وہ کئی ممالک، بشمول برازیل، متحدہ عرب امارات اور ترکی میں بڑے پیمانے پر انسانوں پر آزمائشوں میں کافی پیش قدمی کر چکا ہے۔

چین نے جانچ کاری کے روایتی عمل سے باہر جا کر دسیوں ہزاروں چینیوں کو کووڈ-19 کی غیر مصدقہ آزمائشی ویکسین لگائی ہے، جس سے عوامی صحت اور ایک آخری مصدقہ ویکسین کی تاثیر ممکنہ طور پر خطرے میں پڑ گئی ہے۔

چین میں کروڑوں افراد پہلے ہی ٹیکہ لگوا چکے ہیں۔

لیکن فائزر، ماڈرنا، ایسٹرازینیکا اور جانسن اینڈ جانسن کی جانب سے تیار کی جا رہی ویکسین کے معاملات کے برعکس، چینی ویکسینوں کی حفاظت اور اثر کے متعلق بہت کم معلومات سامنے آئی ہیں۔

ملک کے کمیونسٹ حکام کو عوامی جانچ پڑتال سے الرجی ہے۔

سڈنی، آسٹریلیا میں لووی انسٹیٹیوٹ پر چین کی پالیسی کی ایک تجزیہ کار، نتاشہ کسام نے کہا، "چینی نظام میں شفافیت کی کمی کا مطلب ہے کہ [ملک میں] ہزاروں لوگوں کو پہلے ہی جانچ کے متعلقہ کوائف کی اشاعت کے بغیر ہی چینی ویکسین لگائی جا چکی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ کوائف کی عدم دستیابی عالمی سطح پر فروخت کے دوران "خطرے کا باعث" بنے گی۔

ملک کے اندر اور باہر بڑے سکینڈلوں جن میں زائد المعیاد یا ناقص معیار کی مصنوعات شامل ہیں، کے بعد چینی ویکسین سازوں کی ساکھ بھی ملی جلی سی ہے۔

اس سال کے شروع میں مغربی خفیہ ایجنسیوں نے متنبہ کیا تھا کہ کووڈ-19 کی ایک مؤثر ویکسین تلاش کرنے کی عالمی دوڑ میں، چینی ہیکروں نے ویکسین کی تیاری کا ڈیٹا چرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی یونیورسٹیوں سے، تحقیقاتی اداروں سے اور کئی ممالک کی دواساز کمپنیوں سے۔

ان تمام پیچیدگیوں کا مطلب ہے کہ بیرونِ ملک خریدار چوکس ہیں۔

لندن کی ایک مشاورتی فرم ایئرفینیٹی کے مطابق، چینی ویکسین بنانے والے دو بڑی کمپنیوں سائینوویک اور سائینوفارما کے پاس وسط نومبر تک 500 ملین سے کم کے پیشگی آرڈر موجود تھے -- زیادہ تر ان ممالک کی جانب سے جنہوں نے آزمائشوں میں حصہ لیا تھا۔

دریں اثناء، ایسٹرازینیکا کے پاس 2.4 بلین ٹیکوں کے پیشگی آرڈرز ہیں، اور فائزر کے پاس تقریباً نصف بلین آرڈرز ہیں۔

بیجنگ پر اعتماد میں بہت زیادہ مدوجذر رہا ہے، جس میں واشنگٹن کے پیو ریسرچ سنٹر کی جانب سے 14 ممالک پر کی گئی تحقیق میں ملک کے بارے قیاس میں بہت تیزی کے ساتھ بگاڑ آیا ہے۔

کسام نے کہا، "[وہ معاشرے] جن کا چین پر عدم اعتماد تیزی سے بڑھ رہا ہے، ان کا چین کی سربراہی میں بننے والی ویکسین پر غالباً کم اعتماد ہو گا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500