صحت

بھروسے اور حفاظتی تشویشوں کی وجہ سے محکمۂ صحت کے اہلکاروں کا چینی ساختہ ویکسینز سے اجتناب

از زرک خان

اسلام آباد میں 3 فروری کو نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی) میں ایک ڈاکٹر چینی ساختہ سائنوفارم کووڈ-19 ویکسین کی شیشی اٹھائے ہوئے۔ [عامر قریشی / اے ایف پی]

اسلام آباد میں 3 فروری کو نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی) میں ایک ڈاکٹر چینی ساختہ سائنوفارم کووڈ-19 ویکسین کی شیشی اٹھائے ہوئے۔ [عامر قریشی / اے ایف پی]

کراچی -- حکام اور ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں محکمۂ صحت کے اہلکار چین کی جانب سے عطیہ کردہ کورونا وائرس کی ویکسینز کی اثرانگیزی اور محفوظ ہونے کے متعلق شبہات کی وجہ سے انہیں لینے میں جھجھک رہے ہیں۔

فروری میں، بیجنگ سے آنے والی چینی ساختہ سائنوفارم ویکسین کی 500،000 سے زائد خوراکوں کی آمد کے بعد حکومت نے ملک بھر میں محکمۂ صحت کے اگلی صفوں میں کام کرنے والے سینکڑوں ہزاروں اہلکاروں کی ویکسینیشن کا آغاز کیا تھا۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ملک میں سرکاری اور نجی شعبوں میں 1.2 ملین صحت اہلکار خدمات انجام دے رہے ہیں۔

تاہم، صرف 224،000 ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر طبی عملے نے ابھی تک سائنوفارم ٹیکوں کی مطلوبہ دو خوراکیں حاصل کی ہیں۔

نیم پیشہ ور طبی عملے کا ایک اہلکار 20 اپریل کو کراچی میں ایک ویکسینیشن مرکز پر چینی ساختہ سائنوفارم ویکسین کا ایک ڈبہ اٹھائے ہوئے۔ [زرک خان/پاکستان فارورڈ]

نیم پیشہ ور طبی عملے کا ایک اہلکار 20 اپریل کو کراچی میں ایک ویکسینیشن مرکز پر چینی ساختہ سائنوفارم ویکسین کا ایک ڈبہ اٹھائے ہوئے۔ [زرک خان/پاکستان فارورڈ]

کراچی میں محکمۂ صحت کا ایک اہلکار 20 اپریل کو ایک باشندے کو سائنوفارم کورونا وائرس ویکسین کا ٹیکہ لگاتے ہوئے۔ رائے عامہ کے جائزے ظاہر کرتے ہیں کہ بہت سے پاکستانی صحت اہلکار خود چینی ساختہ ویکسین لگوانے کے لیے راضی نہیں ہیں۔ [زرک خان/پاکستان فارورڈ]

کراچی میں محکمۂ صحت کا ایک اہلکار 20 اپریل کو ایک باشندے کو سائنوفارم کورونا وائرس ویکسین کا ٹیکہ لگاتے ہوئے۔ رائے عامہ کے جائزے ظاہر کرتے ہیں کہ بہت سے پاکستانی صحت اہلکار خود چینی ساختہ ویکسین لگوانے کے لیے راضی نہیں ہیں۔ [زرک خان/پاکستان فارورڈ]

اندراج کروانے والوں کی تعداد میں کمی کا حوالہ دیتے ہوئے، حکومتِ پاکستان نے خاموشی سے اس مہم کو 30 اپریل تک وسیع کرنے سے قبل معطل کر دیا۔

وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت، ڈاکٹر فیصل سلطان نے 21 اپریل کو ٹویٹ کیا، "محکمۂ صحت کے تمام باقی ماندہ اہلکاروں کو ویکسین لگوانے کا موقع دینے کے لیے، رجسٹریشن پورٹل (http://Covid.gov.pk/vaccine) کو 30 اپریل تک دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔"

شکوک کی کثرت

محکمۂ صحت کے اہلکاروں کی ایک نمایاں تعداد کا کہنا ہے کہ انہیں اس بارے میں شکوک کا شکار ہیں کہ چینی ساختہ ویکسین مؤثر اور محفوظ ہے۔

کراچی میں نرسوں کی انجمن کے ایک رہنماء، جاوید حسین نے کہا، "پاکستان میں، عام طور پر، یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ چینی مصنوعات ناقص معیار کی ہوتی ہیں۔ محکمۂ صحت کے اہلکار کووڈ-19 کے لیے چینی ویکسینز پر کیسے بھروسہ کر سکتے ہیں؟"

انہوں نے تصدیق کی کہ محکمۂ صحت کے اہلکاروں کی ایک نمایاں تعداد نے ویکسین لگوانے کے لیے اندراج نہیں کروایا ہے۔

حسین نے کہا، "کووڈ کی ویکسین لگوانے کے لیے محکمۂ صحت کے اہلکاروں میں کوئی تامل نہیں ہے۔ کوئی بھی تذبذب چینی ساختہ ویکسین کی اثرانگیزی اور محفوظ نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔"

انہوں نے کہا کہ محکمۂ صحت کے بیشتر اہلکار ایسٹرازینیکا یا فائزر ویکسین کی آمد کے منتظر ہیں۔

فائزر ایک امریکی کمپنی ہے، جبکہ ایسٹرازینیکا برطانوی-سویڈش کمپنی ہے۔

گزشتہ ماہ گیلپ پاکستان اور ڈاکٹروں کے حقوق کی ایک تنظیم، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے کروائے گئے رائے عامہ کے ایک جائزے نے تصدیق کی کہ ملک بھر میں محکمۂ صحت کے اہلکاروں کی نصف تعداد کو سائنوفارم ویکسین پر تشویشیں تھیں اور اس کی بجائے وہ چاہتے ہیں کہ انہیں ایسٹرازینیکا یا فائزر کے ٹیکوں کی پیشکش کی جائے۔

رائے عامہ کے جائزے نے یہ بھی ظاہر کیا کہ محکمۂ صحت کے اکیاسی فیصد اہلکار ویکسین لگوانے کے لیے راضی ہیں۔

پشاور میں ایک نرس، سلمان آفریدی، نے کہا کہ وہ اور ان کے رفقائے کار چینی ساختہ ویکسین کے ممکنہ مضر اثرات یا عدِعمل کے متعلق فکرمند ہیں۔

ان کا کہنا تھا، "پاکستان کے محکمۂ صحت کے اہلکاروں میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ چین حکومتِ پاکستان کو عطیہ کرنے کے بعد ناقص معیار کی کووڈ ویکسینز کی جانچ ان پر کر رہا ہے۔"

اسلام آباد کے ایک مقامی ڈاکٹر، راجہ خالد شبیر کے مطابق، پاکستان کا ویکسین پروگرام وسیع طور پر پھیلے عدم اعتماد کی وجہ سے متاثر ہے۔

گزشتہ ماہ انہوں نے ایکسپریس ٹریبیون میں لکھا تھا، "چینی ویکسین جو ہم استعمال کر رہے ہیں اسے اسی سطح کے عدم اعتماد کا سامنا ہے، جتنا یہ چین جہاں مہلک کورونا وائرس پہلی بار ظاہر ہوا تھا پر تھا اور یہ چین ہی تھا جہاں سے وائرس اچانک غائب ہو گیا جبکہ باقی ماندہ دنیا میں زندگیاں ختم ہو رہی ہیں۔"

انہوں نے کہا، "بالکل حال ہی میں ایک نیا نظریہ سامنے آیا ہے، خصوصاً ڈاکٹر برادری میں، کہ چینی ویکسین ابھی تک آزمائش کے مراحل میں ہے اور جو لگائی جا رہی ہے وہ ایک بڑے مطالعاتی تجربے کا ایک جزو ہے۔"

ان کا کہنا تھا، "اس کی روشنی میں، ویکسین کا لیبل 'چین میں تیار کردہ' نے ہم سب کو بہت زیادہ پریشان کرنا شروع کر دیا ہے۔"

شبیر نے لکھا کہ بہت سے چینی اشیاء سازوں نے، اس بدنامی کو تسلیم کرتے ہوئے، اپنے لیبلوں کو تبدیل کر کے "پی آر سی میں تیار کردہ" لکھ دیا ہے، بیشتر خریدار بے خبر ہیں کہ پی آر سی کا مطلب پیپلز ریپبلک آف چائنہ ہے۔

بڑھتی ہوئی تشویشیں

کووڈ-19 ویکسینز کی تیاری ان طریقوں میں سے ایک طریقہ رہی ہے جس سے بیجنگ نے کووڈ-19 کی وباء کو غیر ذمہ دارانہ طور پر سنبھالنے کی پردہ پوشی کی ہے اور اس کے بعد غلط معلومات کی مہمات جن کا مقصد عالمی وباء کے ماخذوں کے متعلق الزامات کا رخ موڑنا اور جھوٹ پھیلانا تھا۔

لیکن چین کے بیماریوں پر قابو پانے کے ممتاز اہلکار، گاؤ فو، نے 10 اپریل کو حکومت کی چینی ساختہ ٹیکوں کی اثرانگیزی پر تشویشوں کو یہ اعتراف کرتے ہوئے سرِعام تسلیم کیا تھا، "موجودہ ویکسینز کی اثرانگیزی زیادہ نہیں ہے۔"

بی بی سی نے خبر دی کہ انہوں نے کہا موجودہ ویکسینز، بشمول سائنوویک اور سائنوفارم کی خوراکیں، "تحفظ کی بہت زیادہ بلند شرحوں کی حامل نہیں ہیں۔"

ان تشویشوں کے باوجود، چین اپنی بڑے پیمانے پر ویکسینیشن کی مہم میں اور حکومت کی "ویکسین سفارتکاری" حکمتِ عملی جزو کے طور پر دنیا بھر میں ٹیکوں کی اپنی برآمد کو دھکا لگانے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے.

بیجنگ کی خراب کووڈ-19 ٹیسٹ کٹس، گھٹیا وینٹی لیٹرز اور "جعلی" ماسک اور دیگر ذاتی حفاظت کے آلات کی برآمدات اک اور انتباہ کا کام دیتی ہیں۔

گزشتہ برس عالمی وباء کے عروج پر، کووڈ-19 کے مریضوں کا علاج کرنے والے محکمۂ صحت کے اہلکاروں میں انفیکشنز کے سلسلے اور اموات کے بعد پاکستانی ہسپتالوں میں چینی کی بنی ہوئی پی پی ای مسترد کر دی تھیں.

گزشتہ برس اپریل میں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری، ڈاکٹر عمر جواد نے کہا تھا، "کووڈ-19 کو سنبھالنے میں مشغول 1،000 سے زائد ڈاکٹروں، نیم طبی عملے اور نرسوں میں چین سے درآمد شدہ ناقص پی پی ای کی وجہ سے وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا۔"

اس وقت، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی خیبرپختونخوا (کے پی) شاخ کے سیکریٹری، ڈاکٹر جواد خان نے کہا تھا، "ہم سب جانتے ہیں کہ چین ناقص معیار کی مصنوعات کی سمگلنگ اور تجارت کرنے کے لیے بدنام ہے، اور اب یہ عوامی حفاظت کے نام پر غیر معیاری ماسک، گاؤن اور جوتے فراہم کر کے پیسہ کما رہا ہے"۔

"لیکن یہ ثابت ہو گیا تھا کہ ان اشیاء نے محکمۂ صحت کے اہلکاروں کو کووڈ-19 سے تحفظ نہیں دیا تھا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500