میڈیا

ڈیٹا کی رازداری اور فحش مواد پر پاکستانیوں کا ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ

ضیاءالرّحمٰن

3 اگست 2020 کو ایک آئی فون کی سکرین پر ٹک ٹاک لوگو کا ایک تصویری خاکہ۔ [اولیور ڈاؤلیئری/اے ایف پی]

3 اگست 2020 کو ایک آئی فون کی سکرین پر ٹک ٹاک لوگو کا ایک تصویری خاکہ۔ [اولیور ڈاؤلیئری/اے ایف پی]

اسلام آباد – پاکستانی مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکام اس ایپلیکیشن میں موجود "فحش" مواد اور ڈیٹا کی رازداری سے متعلق خدشات کی بنا پر اسچینی ویڈیو سٹریمنگ پلیٹ فارم، ٹک ٹاک پر پابندی عائد کر دیں۔

صارفین کو مختصر ویڈیوز شیئر کرنے کی سہولت دینے والا ٹک ٹاک ایک بیجنگ اساسی انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کمپنی ByteDance کی ملکیت ہے۔ اس ایپ کو دنیا بھر میں ڈیٹا کو جمع کرنے اور اسے استعمال کرنے کے طریقے پر بڑھتے ہوئے قضیہ کا سامنا ہے۔

امریکہ بھارت اور بنگلہ دیش سمیت متعدد ممالک نےاس ایپ کی رازداری، سیکیورٹی کنٹرول اور عوامل سے متعلق خدشاتکا حوالہ دیتے ہوئے ٹک ٹاک کا استعمال ممنوع قرار دے دیا ہے۔

5 اگست کو امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے ایک صدارتی حکم نامہ جاری کیا جو قومی سلامتی کے خدشات کی بنا پر ٹک ٹاک اور ایک اور چینی ایپ وی چیٹ پر مؤثر طور پر پابندی عائد کرے گا۔

12 اگست کو کراچی سے تعلق رکھنے والا ایک طالبِ علم اپنے موبائل فون پر ایک چینی ویڈیو سٹریمنگ پلیٹ فارم، ٹک ٹاک کھول رہا ہے۔ [ضیاءالرّحمٰن]

12 اگست کو کراچی سے تعلق رکھنے والا ایک طالبِ علم اپنے موبائل فون پر ایک چینی ویڈیو سٹریمنگ پلیٹ فارم، ٹک ٹاک کھول رہا ہے۔ [ضیاءالرّحمٰن]

اسی طرح سے بھارت نے 23 جولائی کو ٹک ٹاک اور دیگر 52 چینی ایپس کو یہ دلیل دیتے ہوئے غیر قانونی قرار دے دیا کہ یہ خفیہ طور پر ان ایپس کو ڈاؤن لوڈ کرنے والوں کے فونز سے معلومات اکٹھی کر رہی ہیں۔

آسٹریلیا میں ٹک ٹاک کو شدید تر جانچ پڑتال کا سامنا ہے، اور انٹیلی جنس ایجنسیاں تفتیش کر رہی ہیں کہ آیا یہ ایپ ایک سیکیورٹی خدشہ کا باعث ہے یا نہیں، جبکہ چند ارکانِ پارلیمنٹ مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت اس پلیٹ فارم پر پابندی عائد کر دے۔

ڈیجیٹل سیکیورٹی کے امور پر کام کرنے والے کراچی کے ایک سافٹ ویئر انجنیئر سلیم چودھری نے کہا، "پاکستان کو بھی دیگر ممالک کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پی ای سی اے) جیسے مقامی قوانین کو استعمال کرتے ہوئے اس ایپ پر فوری پابندی عائد کر دینی چاہیئے، کیوںکہ اس سے لوگوں کی رازداری اور ملک کی سلامتی کو شدید خطرہ لاحق ہے۔"

2016 میں پاکستان کی پارلیمان نے دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ پر موجود مواد کو ریگولیٹ کرنے کے لیے پی ای سی اے کی منظوری دی۔ اس قانون نے حکومت کے ٹیلی کام ریگولیٹر، پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو "اسلام کے تقدس یا سالمیت، پاکستان کے دفاع یا سلامتی یا ۔۔۔ امنِ عامہ" کے خلاف تصور کیے جانے والے مواد کو بلاک کرنے کے وسیع اختیارات دے دیے۔

چودھری نے کہا، "ٹک ٹاک کے صارفین کے آلات سے ڈیٹا چرا کر اسے چین بھیجنے کی خبروں کی بنیاد پر متعدد ممالک نے اس ایپ پر پابندی عائد کر دی ہے۔"

پی ٹی اے نے ہزاروں ویبب سائیٹس اور پلیٹ فارمز کو ملک میں رسائی سے بلاک کر دیا ہے۔ ان میں ایسی ویب سائیٹس شامل ہیں جو ملک کی سلامتی اور خارجہ پالیسیوں کی بیخ کنی کرتی ہیں یا شدت پسندی اور فحش نگاری کی ویب سائیٹس کو فروغ دیتی ہیں۔

چند ویب سائیٹس کو "دولتِ اسلامیہ" (داعش) جیسے کثیر القومی عسکریت پسند گروہ چلا رہے تھے، جنہوں نے پراپیگنڈا ویڈیو پوسٹ کرنے کے لیے ٹک ٹاک کا استعمال کیا۔

21 اکتوبر کو وال سٹریٹ جرنل کی ایک خبر کے مطابق، ان ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ گلیوں میں لاشیں گھسیٹی جا رہی ہیں اور داعش جنگجو بندوقوں کے ساتھ ہیں۔

بیجنگ نے اپنے تئیں مغرب اساسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم بلاک کر دیے ہیں۔

حکومتِ چین نے ٹویٹر، یوٹیوب، گوگل اور فیس بک کا استعمال ممنوع قرار دے دیا ہے اور چین میں خبروں اور معلومات تک رسائی کو محدود کرنے کے لیے ایک "گریٹ فائروال" کا استعمال کر رہی ہے۔

چینی سفارتکاروں اور ریاستی میڈیا نے منافقانہ طور پر بیرونِ ملک کھلے ذہن کا فائدہ اٹھایا ہے اور بیجنگ کے بیانیہ کو پھیلانے کے لیے حالیہ برسوں میں ایسے پلیٹ فارمز کی جانب جوق در جوق آئے ہیں۔

فحاشی اور نقصان دہ مواد کا فروغ

سیکیورٹی خدشات کے ساتھ ساتھ،پاکستانی حکام نے حال ہی میں ٹک ٹاک کو ان کے ایسے مواد کو بند کرنے کے لیے تنبیہات جاری کی ہیںجسے اس نے "غیر اخلاقی، فحش اور بازاری" کے طور پر لیبل کیا ہوا ہے۔

پی ٹی اے نے جولائی میں بارہا ٹک ٹاک کو تنبیہ کی ہے کہ اگر اس نے ایسے مواد کے خلاف کریک ڈاؤن نہ کیا تو پاکستان اس پر پابندی عائد کر دے گا۔

پی ٹی اے نے 21 جولائی کو کہا، "غیر اخلاقی، فحش اور بازاری مواد کی شکایات پر سٹریمنگ ایپ بیگو کو پاکستان میں بلاک کر دیا گیا ہے۔ ٹک ٹاک کو بھی انہی وجوہات کی بنا پر ایک حتمی تنبیہ جاری کر دی گئی ہے۔"

جولائی میں پنجاب اسمبلی کی ایک رکن رابعہ نصرت نے صوبائی قانون ساز اسمبلی میں پاکستان میں ٹک ٹاک کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے لیے ایک قرارداد جمع کرائی۔

نصرت نے کہا، "ٹک ٹاک پر استعمال کی جانے والی فحش اور بازاری زبان کا معاشرے پر منفی اثر ہو گا۔ یہ ایپ نہ صرف لوگوں کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہے بلکہ مذہب کا تمسخر بھی اڑایا جاتا ہے۔"

لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل ندیم سرور نے متعلقہ شہری کی جانب سے لاہور کی عدالتِ عالیہ میں ایک درخواست دائر کی۔ ان کے مؤکل ٹک ٹاک کی فوری ممانعت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ ٹک ٹاک نوجوانوں کے لیے نقصان دہ ہے اور پاکستان کی معاشرتی ساخت کے لیے ضرر رساں ہے۔

سرور نے کہا، "اسی ایپلیکیشن پر بنگلہ دیش اور ملائشیا میں اپنی فحش نگاری اور نامناسب مواد اور لوگوں کا تمسخر اڑانے کی وجہ سے پہلے ہیں پابندی لگائی جا چکی ہے۔"

نوجوانوں کے گروہوں نے اس ایپ کے لیے ویڈیوز فلم کرتے ہوئے متعدد نوجوان پاکستانیوں کی موت کے بعد ٹک ٹاک کو خلافِ قانون قرار دیے جانے کا مطالبہ کیا۔

جون میں 19 سالہ تنویر علی نے کراچی کے علاقہ سکندر گوٹھ میں ٹک ٹاک کے لیے ایک کلپ بناتے ہوئے خود کو قتل کر لیا۔

اپریل میں کراچی میں جمعہ گوٹھ ریلوے سٹیشن پر ایک ویڈیو بناتے ہوئے ریل کی زد میں آنے پر ایک 22 سالہ شخص جاںبحق ہو گیا۔

21 جولائی کو اسلام آباد میں پولیس نے ایک شخص کو آتشیں اسلحہ اور گولہ بارود کے ساتھ ویڈیو بناتے ہوئے گرفتار کیا۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے ایک فعالیت پسند ارسلان احمد اعوان، جنہوں نے پاکستان میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے کے لیے ایک آن لائن مہم کا آغاز کیا، نے کہا کہ اس پلیٹ فارم پر متعدد ویڈیوز نسل پرستی، بچوں کی جانب جنسی رجحان اور خواتین کے لیے عدم احترم کو فروغ دیتی ہیں۔

اعوان نے کہا، "آج کی دنیا میں جنسی امتیاز اور نسلی امتیاز عروج پر ہیں، اور ان تمام ہولناک چیزوں کی معاون ایپ کا وجود 2020 میں نہیں ہونا چاہیئے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500