ٹیکنالوجی

پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ ٹک ٹاک سے بیہودہ مواد کو ہٹانے کی کوشش کے باوجود یہ موجود ہے

از زرک خان

جولائی میں لاہور کے رہائشی حکومت سے ٹک ٹاک پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرنے کے لیے ایک احتجاج میں شریک ہیں۔ [سوہا فاؤنڈیشن]

جولائی میں لاہور کے رہائشی حکومت سے ٹک ٹاک پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرنے کے لیے ایک احتجاج میں شریک ہیں۔ [سوہا فاؤنڈیشن]

اسلام آباد -- پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ پلیٹ فارم کی جانب سے ساٹھ لاکھ سے زائد غیر قانونی اور بیہودہ ویڈیوز کو ہٹائے جانے کے باوجود پاکستان میں ٹک ٹاک پر غیر قانونی اور بیہودہ مواد موجود ہے۔

ٹک ٹاک، جو صارفین کو مختصر ویڈیوز کا تبادلہ کرنے کی اجازت دیتا ہے، بیجنگ میں قائم انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی کمپنی بائٹ ڈانس کی ملکیت ہے۔

پلیٹ فارم نے 14 فروری کو جاری ہونے والے اپنے سماجی رہنماء خطوط کے نفاذ کی رپورٹ میں کہا کہ اس نے سنہ 2021 کی جولائی تا ستمبر سہ ماہی میں پاکستان سے 6,019,754 ویڈیوز ہٹا دی ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان اعداد و شمار سے پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ ویڈیوز کو ہٹانے کے حوالے سے چوتھے نمبر پر رہا۔

کراچی کا ایک طالب علم 22 فروری کو اپنے موبائل فون پر چینی ویڈیو سٹریمنگ پلیٹ فارم ٹک ٹاک استعمال کرتے ہوئے۔ [زرق خان]

کراچی کا ایک طالب علم 22 فروری کو اپنے موبائل فون پر چینی ویڈیو سٹریمنگ پلیٹ فارم ٹک ٹاک استعمال کرتے ہوئے۔ [زرق خان]

رپورٹ میں کہا گیا کہ ہٹائے گئے مواد میں بالغوں کی عریانیت اور جنسی سرگرمیاں، ہراسانی اور غنڈہ گردی، نفرت انگیز رویہ، غیر قانونی سرگرمیاں اور ممنوعہ اشیاء، نابالغوں کی حفاظت، خودکشی، خود اذیتی اور خطرناک کارروائیاں، پرتشدد اور گرافک مواد اور پُرتشدد انتہا پسند شامل ہیں۔

کیا مواد واقعی صاف ہو گیا؟

پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی کوششیں کافی نہیں ہیں، اور کچھ میڈیا گروپس نے ٹک ٹاک پر الزام لگایا ہے کہ اس نے ڈاؤن لوڈ کی گئی ویڈیوز کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر بتایا ہے۔

ایک اردو اخبار، روزنامہ امت، نے گزشتہ جمعرات (17 فروری) کو خبر دی، "لوگوں کی تنقید اور حکومتی دباؤ کے جواب میں، ٹک ٹاک نے پاکستانی حکام سے 60 لاکھ سے زیادہ 'قابل اعتراض' ویڈیوز کو ایپلیکیشن سے ہٹانے کے بارے میں جھوٹ بولا"۔

اس کا کہنا تھا کہ ایپ پر ہزاروں غیر اخلاقی، پُرتشدد اور فحش ویڈیوز اب بھی مل سکتی ہیں۔

پاکستانی حکام نے ایک سال سے بھی کم عرصے میں ٹک ٹاک پر چار بار پابندی عائد کی ہے، تازہ ترین مثال گزشتہ جولائی میں مکینوں، فعالیت پسندوں اور اسلام پسند گروہوں کی اس شکایت کے بعد کہ ایپ نے فحش، گستاخانہ اور غیر اخلاقی مواد کی اجازت دی ہوئی ہے۔

نومبر میں، ملک کے ٹیلی کام ریگولیٹر، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی پی ٹی اے نے پلیٹ فارم کی طرف سے "غیر اخلاقی اور غیر قانونی" مواد پر قابو پانے کی یقین دہانی کے بعد تازہ ترین پابندی ہٹا دی تھی۔

کراچی میں مقیم ایک محقق شہزاد علی جو ڈیجیٹل نیٹ ورکس کی نگرانی میں مہارت رکھتے ہیں، نے کہا کہ ٹک ٹاک کا ساٹھ لاکھ قابل اعتراض ویڈیوز کو ہٹانے کا دعویٰ پاکستان میں ایپلیکیشن کو فعال رکھنے کی اس کی کوششوں کا جزو ہے۔

علی نے کہا، "اس طرح کی قابلِ اعتراض ویڈیوز اب بھی ٹک ٹاک پر پائی جاتی ہیں۔"

انہوں نے پی ٹی اے پر زور دیا کہ وہ ٹک ٹاک کے دعووں کو قبول کرنے کے بجائے چینی ویڈیو پلیٹ فارموں کے مواد کا جائزہ لینے کے لیے اپنا طریقۂ کار وضع کرے۔

انہوں نے کہا، "یہ اہم ہے کیونکہ چینی کمپنیاں مذہبی یا ثقافتی اقدار کا احترام نہیں کرتیں

ٹک ٹاک تنازعہ

ٹک ٹاک دنیا بھر میں خاص طور پر پاکستان میں سب سے زیادہ متنازعہ سوشل نیٹ ورکس میں سے ایک ہے۔

امریکہ، بھارت اور بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک نے ایک موقع پر ایپ کی رازداری، حفاظتی کنٹرولز اور طریقوں سے متعلق خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے ٹک ٹاک پر پابندی لگا دی تھی یا اس پر پابندی لگانے پر غور کیا تھا۔.

پاکستان میں، ٹک ٹاک کے لیے ویڈیوز بناتے ہوئے متعدد پاکستانی نوجوانوں کی موت کے بعد، کئی نوجوانوں اور حقوق کی تنظیموں نے مظاہروں کا اہتمام کیا ہے اور ٹک ٹاک کو کالعدم قرار دینے کے لیے عدالتی درخواستیں دائر کی ہیں

دسمبر کے آخر میں، کراچی کے علاقے ملیر میں دو نوعمر طلباء کو مبینہ طور پر ٹک ٹاک ویڈیو کے لیے ایک بزرگ شخص کو گولی مار کر قتل کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

ستمبر میں ضلع ہری پور میں ایک نوعمر لڑکا اس وقت ہلاک ہو گیا تھا جب اس کے کزن نے غلطی سے اسے ٹک ٹاک ویڈیو بناتے ہوئے گولی مار دی تھی۔

پشاور میں قائم ایک سول سوسائٹی گروپ، پاکستان شہری تنظیم، جس نے احتجاج کا اہتمام کیا تھا اور ٹک ٹاک کو غیر قانونی قرار دلوانے کے لیے سنہ 2020 میں پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی، کے ایک رہنماء عاصم عصمت کے مطابق، ٹک ٹاک پر استعمال کی جانے والی ناشائستہ اور بیہودہ زبان معاشرے پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔

عصمت نے کہا، "ہم حکومت سے ٹک ٹاک پر مستقل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ یہ ناصرف پاکستانی معاشرے پر منفی اثر ڈال رہی ہے بلکہ مذہب کا بھی مذاق اڑا رہی ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500