ٹیکنالوجی

پاکستان نے غیر اخلاقی مواد پر چینی ایپ ٹک ٹاک کو آخری انتباہ جاری کر دیا

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

13 اپریل کو لی گئی ایک فوٹو میں، ٹک ٹاک کا لوگو آرلنگٹن، ورجینیا، امریکہ میں ایک آئی فون پر دکھایا گیا ہے۔ [اولیویئر ڈولیری / اے ایف پی]

13 اپریل کو لی گئی ایک فوٹو میں، ٹک ٹاک کا لوگو آرلنگٹن، ورجینیا، امریکہ میں ایک آئی فون پر دکھایا گیا ہے۔ [اولیویئر ڈولیری / اے ایف پی]

اسلام آباد -- پاکستان نے چینی سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک کو اس بارے میں ایک حتمی انتباہ جاری کیا ہے کہ وہ ویڈیو کے اشتراک کے پلیٹ فارم پر "غیر اخلاقی، فحش اور نازیبا" مواد کے خلاف کارروائی کرے۔

ٹک ٹاک اپنے 15 سے 60 سیکنڈ کے ویڈیو کلپس کے ساتھ عالمی سطح پر ایک سنسنی خیز ایپ بن چکی ہے اور یہ نوجوان پاکستانیوں میں انتہائی مقبول ہے، جہاں کچھ صارفین نے لاکھوں کی تعداد میں اپنے مداح بنا لیے ہیں۔

مگر اس ایپ کو اس وقت ایک دھچکا لگا ہے، جب ناقدین اسے عریانی اور فحاشی پھیلانے کے لیے موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے اعلان کیا ہے کہ اسے ٹک ٹاک کے متعلق اس کے "معاشرے اور بالخصوص نوجوانوں پر انتہائی منفی اثرات" پر بہت سی شکایات موصول ہوئی ہیں۔

سوموار (20 جولائی) کی شام کو جاری ہونے والے ایک بیان میں، محکمے کا کہنا تھا کہ اس نے کمپنی کو پہلے بھی نوٹسز جاری کیے ہیں جن میں اسے مواد پر نظرِثانی کرنے کے لیے کہا ہے، جس کے بعد ایک حتمی انتباہ جاری کیا گیا ہے جس میں "فحاشی، ناشائستگی اور غیر اخلاقی کاموں" کو روکنے کے لیے فلٹر لگانے کا حکم دیا گیا ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان کے مشیر برائے ڈیجیٹل میڈیا، ارسلان خالد نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ انہوں نے ٹویٹ میں کہا کہ "ٹک ٹاک پر نوجوان لڑکیوں کا استحصال، قابلِ اعتراض بننا اور جنسیت" والدین کے لیے تکلیف کا باعث بن رہے تھے۔

ٹک ٹاک نے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا ہے۔

ٹک ٹاک جو کہ چین کی بائیٹ ڈانس کمپنی کی ملکیت ہے، کو اس بارے میں بڑھتے ہوئے تنازعے کا سامنا ہے کہ یہ ڈیٹا کو کیسے جمع اور استعمال کرتا ہے، تاہم اس نے چینی حکام کے ساتھ صارفین کی معلومات کے تبادلے کی بارہا تردید کی ہے۔

ہمسایہ ملک بھارت نے قومی سلامتی اور رازداری کی تشویشوں پر، دیگر چینی موبائل پلیٹ فارموں کے ہمراہ اس ایپ پر پابندی عائد کر دی تھی، جبکہ امریکہ بھی ایسے ہی ایک اقدام پر غور کر رہا ہے۔

چین اور سوشل میڈیا

جبکہ چین میں ٹوئیٹر، یوٹیوب، گوگل اور فیس بُک پر پابندی عائد ہے، جو خبروں اور معلومات تک رسائی کو پابند کرنے کے لیے "گریٹ فائروال" استعمال کرتا ہے، چینی سفارتکار اور ریاستی ذرائع ابلاغ منافقت سے کام لیتے ہوئے بیرونِ ملک کے کھلے پن کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور انہوں نے بیجنگ کے بیانیئے کو دھکیلنے کے لیے حالیہ برسوں میں ایسی پلیٹ فارموں کا ڈھیر لگا دیا ہے۔

چین کی جانب سے کیا گیا اور سوشل میڈیا پر پھیلایا گیا ایک اشتعال انگیز دعویٰ یہ سازشی نظریہ تھا کہ امریکی فوج کورونا وائرس ووہان لے کر آئی تھی .

کورونا وائرس پر روسی اور چینی صحافیوں کی جانب سے پھیلائی گئی غلط معلومات کو سوشل میڈیا پر اس سے زیادہ سامعین میسر آ رہے ہیںجتنے دنیا بھر کے معتبر خبری اداروں کی جانب سے تخلیق کردہ مواد کو میسر ہیں۔ یہ بات 29 جون کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں آکسفورڈ انٹرنیٹ انسٹیٹیوٹ نے کہی.

12 جون کو ٹوئیٹر نے کہا تھا کہ اس نے چینی حکومت کی غلط معلومات کی مہمات کے ساتھ منسلک 170،000 سے زائد اکاؤنٹ ختم کیے تھے.

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ٹک ٹاک پسند کرتا ہے

جواب