دہشتگردی

مذہبی رہنماء کی جانب سے کوئٹہ بم دھماکے میں تہران کے کردار کی طرف اشارہ

از عبدالغنی کاکڑ

اہلِ سنت والجماعت (اے ایس ڈبلیو جے) پاکستان کے سربراہ، مولانا محمد احمد لدھیانوی جمعرات (20 فروری) کو کوئٹہ میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جو 17 فروری کو کوئٹہ میں ہونے والے خودکش بم دھماکے کے سلسلے میں منعقد ہوا تھا۔ انہوں نے اشارہ کیا ہے کہ بم دھماکے کے پیچھے تہران ہو سکتا ہے۔ [عبدالغنی کاکڑ]

کوئٹہ -- کالعدم تنظیم اہلِ سنت والجماعت (اے ایس ڈبلیو جے) کے سربراہ، مولانا محمد احمد لدھیانوی نے جمعرات (20 فروری) کو کوئٹہ میں ایک عوامی اجتماع میں کہا کہ ایرانی حکومت ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش میں پاکستان میں عسکریت پسندی کی سرپرستی کر رہی ہے۔

ایران اور دیگر علاقائی ممالک پر "سازش" کی پشت پناہی کا الزام عائد کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ "17 فروری [سوموار] کے روز کوئٹہ میں ہونے والا خودکش بم دھماکہ بلوچستان میں فرقہ وارانہ بدامنی کو ہوا دینے کی سازش کا ایک جزو تھا"۔

اس روز کوئٹہ میں ایک خودکش بمبار نے دو پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم آٹھ پاکستانیوں کو شہید کر دیا۔ ابھی تک کسی نے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

اے ایس ڈبلیو جے کے کئی کارکنان دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں میں شامل تھے۔

مولانا محمد احمد لدھیانوی 20 فروری کو کوئٹہ میں اہلِ سنت والجماعت کے دیگر قائدین کے ساتھ مشاورت کرتے ہوئے۔ [عبدالغنی کاکڑ]

مولانا محمد احمد لدھیانوی 20 فروری کو کوئٹہ میں اہلِ سنت والجماعت کے دیگر قائدین کے ساتھ مشاورت کرتے ہوئے۔ [عبدالغنی کاکڑ]

20 فروری کو اہلِ سنت والجماعت کے رہنماء مولانا محمد احمد لدھیانوی 17 فروری کے خودکش بم دھماکے میں زخمی ہونے والے اپنی جماعت کے کارکنان کی عیادت کے لیے کوئٹہ میں سول ہسپتال کا دورہ کرتے ہوئے۔ [عبدالغنی کاکڑ]

20 فروری کو اہلِ سنت والجماعت کے رہنماء مولانا محمد احمد لدھیانوی 17 فروری کے خودکش بم دھماکے میں زخمی ہونے والے اپنی جماعت کے کارکنان کی عیادت کے لیے کوئٹہ میں سول ہسپتال کا دورہ کرتے ہوئے۔ [عبدالغنی کاکڑ]

نفرت پھیلانے میں کوشاں

انہوں نے کہا کہ دہشت گرد نفرت اور مذہبی عداوت پیدا کرنے کے لیے بیگناہ شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ "ہم امن کے شیدائی اور اسلام کے محافظ ہیں؛ لہٰذا، میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ روئے زمین کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کر سکتی۔"

ان کا کہنا تھا، "ہمارے داخلی امور میں سرحد پار سے آنے والے اثرورسوخ کا مقصد لاقانونیت کی صورتحال پیدا کرنا ہے ۔۔۔ دشمن ہمارے ملک میں امن کی کوششوں کو برباد کرنا چاہتا ہے۔"

لدھیانوی نے مزید کہا، "ہم نے ہمیشہ ایک مستحکم اور ترقی یافتہ پاکستان کے لیے اپنی آواز اٹھائی ہے، اور یہ ہماری سیاسی جدوجہد کا اولین مقصد ہے۔"

انہوں نے کہا، "ملک بھر میں بیگناہ شہریوں پر حملے دشمن کے فرقہ وارانہ تقسیم کو وسیع کرنے کے ایجنڈے کا بڑی حد تک پردہ فاش کرتے ہیں۔ حکومت پر لازم ہے کہ غیر ملکی اثرورسوخ کو ناکام کرنے کے لیے موزوں اقدامات کرے۔"

ان کا کہنا تھا، "مذہبی افراتفری پھیلانا دشمن کا اہم ترین ہتھیار ہے؛ اس لیے، ہمارے لیے یہ بہترین وقت ہے کہ مل کر کام کریں اور ملک میں مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیں۔"

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ مذہبی ہم آہنگی میں اضافہ کرنے کے لیے قانون سازی پر کام کر رہی ہے۔ "ہمیں اپنے مذہب کے خلاف سازشوں کو ناکام بنانا ہے۔"

انہوں نے کہا، "دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات نے ملک میں عدم استحکام کی فضاء بنا دی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اہلکار ملکی امن کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے دشمن یہ فرض کرنے میں غلطی پر ہیں "کہ ایسے دہشت گرد حملوں سے وہ ہمیں ہمارے نظریئے سے بھٹکا سکتے ہیں۔ جب تک یہ دنیا باقی ہے، پیغمبرِ اسلام کے صحابہ اور ان کے چاہنے والوں کے نام زندہ رہیں گے۔"

انہوں نے کہا، "ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت ملک میں بیرونی اثرورسوخ کو روکنے کے لیے سنجیدہ اور نتائج دینے والے اقدامات اٹھائے۔"

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ لدھیانوی نے ایرانی حکومت کے خلاف بات کی ہے۔

جنوری 2019 میں انہوں نے ٹویٹ کیا تھا، "ایران نے انقلاب کے بعد سے ہمیشہ مسلمان دنیا میں مداخلت کی ہے اور مسلمان ممالک میں فساد پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ شام، لبنان، عراق اور بہت سے دیگر ممالک، بشمول پاکستان، میں شیعہ سنی فساد اس کی تصدیق کرتا ہے۔"

انہوں نے میجر جنرل قاسم سلیمانی، ایران کے اسلامی پاسدارانِ انقلاب دستوں (آئی آر جی سی) کی قدس فورسکے رہبر، کو گزشتہ ماہ ایک ٹویٹ میں "دنیا بھر کے بہت سے دہشت گرد گروہوں کا سرپرست" بھی قرار دیا تھا۔

سلیمانی جنوری میں بغداد میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا، اور زینبیون بریگیڈکی پشت پناہی کرتا تھا، جو کہ صدر بشار الاسد کی حکومت کی حمایت میں لڑنے کے لیے شام بھیجے گے پاکستانیوں کی ایک ملیشیا پر مشتمل ہے۔

تہران پر شبہات

پاکستانی دفاعی اہلکار اور دیگر باخبر مبصرین کو تہران پر پاکستان میں عسکریت پسندی کی کفالت کرنے کا شبہ ہے۔

وہ دلیل دیتے ہیں کہایرانی حکومت خود پاکستان کا اتحادی ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہے مگر عسکری گروہوں کی پشت پناہی کر کے اس کی سلامتی کو برباد کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔

خضدار کے ایک دینی عالم قاری اللہ بخش نے کہا، "ایرانی اثرورسوخ ملک میں بہت زیادہ فرقہ وارانہ تقسیم کے لیے ذمہ دار ہے۔ ایران کے ساتھ سرحد کو محفوظ بنائے بغیر یہاں امن قائم نہیں ہو سکتا۔"

ناموں کا انکشاف کیے بغیر انہوں نے کہا، "ہماری دینی برادری میں، ہم بہت سے ایسے شیعہ اور سنی دینی علماء کو جانتے ہیں جو ایران کے وظیفہ خوار ہیں۔ حال ہی میں ان پراکسی عناصر نے ایران کا حامی بیانیہ بنانے کے لیے کوئٹہ سمیت ملک بھر میں کئی مجالسِ مذاکرہ، عوامی اجتماعات اور احتجاجی مظاہرے منعقد کروائے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ ایران کا مقصد اپنا انقلاب پاکستان اور افغانستان کو برآمد کرنا ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کوئٹہ کے مقامی ایک سینیئر انٹیلیجنس اہلکار نے کہا کہ حکام 17 فروری کے بم دھماکے کے پیچھے فرقہ وارانہ نیت کو خارج از امکان نہیں کر سکتے۔

انہوں نے کہا، "ہمارے پاس اطلاعات ہیں کہ ریاست دشمن عناصر اپنی کوششوں کو ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کے لیے متحرک کر رہے ہیں۔"

گزشتہ برس، اسلام آباد کے مقامی پاکستان ادارہ برائے مطالعہ تنازعات و سلامتی (پی آئی سی ایس ایس) کے انتظامی ڈائریکٹر، عبداللہ خان نے کہا تھا کہبڑھتا ہوا ثبوت ظاہر کرتا ہے کہ تہران صوبہ بلوچستان میں باغی فساد کی کفالت کر رہا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500