واشنگٹن -- تہران اور ایران کے اسلامی پاسدارانِ انقلاب دستوں (آئی آر جی سی) پر دباؤ ڈالنے کے مقصد سے امریکی وزارتِ خزانہ نے گزشتہ ہفتے شام میں لڑ رہےایرانی پشت پناہی سے چلنے والے فاطمیون ڈویژن اور زینبیون بریگیڈ ملیشیاؤںپر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
وزارتِ خزانہ کے غیر ملکی اثاثہ جات کنٹرول دفتر نے 24 جنوری کو دونوں ملیشیاؤں کو اپنی مالیاتی بلیک لسٹ میں شامل کیا تھا، جس کا مقصد بین الاقوامی مالیاتی نیٹ ورکس تک ان کی رسائی کو ختم کرنا اور ان کی کارروائیوں میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔
دونوں ملیشیا آئی آر جی سی کی جانب سے ایران کے اندر مقیم پناہ گزین اور تارکینِ وطن برادریوںسے بھرتی کی جاتی ہیں اور انہیں شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کی جانب سے لڑنے کے لیے شام بھیجا جاتا ہے۔
فاطمیون ڈویژن میں افغان شہری شامل ہیں، جبکہ زینبیون بریگیڈ پاکستانیوں پر مشتمل ہے۔
"امریکی وزارتِ خزانہ کے سیکریٹری سٹیون نوشن نے ایک بیان میں کہا، "ظالم ایرانی حکومت ایران میں پناہ گزین برادریوں کا استحصال کرتی ہے۔۔۔ اور انہیں شام کے تنازعہ کے لیے انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہے۔"
"وزارتِ خزانہ کی جانب سے ایران کی پشت پناہی رکھنے والی ملیشیاؤں اور دیگر غیر ملکی پراکسیز کو ہدف بنانا ان ممنوعہ نیٹ ورکس کو بند کرنے کے لیے ہماری دباؤ ڈالنے کی جاری و ساری مہم کا حصہ ہے جنہیں حکومت پوری دنیا میں دہشت گردی اور بدامنی پھیلانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔"
وزارتِ خزانہ نے قشم فارس ایئر پر بھی پابندیاں عائد کی ہیں، ایک ہوائی کمپنی جو ان کے مطابقپہلے ہی سے پابندیاں عائد کردہ ماہان ایئر، اور آرمینیا کی مقامی فلائٹ ٹریول ایل ایل سی، کی جانب سے کنٹرول کی جاتی ہے جو ماہان نے لیے مارکیٹنگ کرتی ہے۔
قشم فارس سنہ 2017 تک ایک بند ہوائی کمپنی تھی، جب ایران نے اسے آئی آر جی سی کی ایماء پر دو بوئنگ 747 ہوائی جہازوں کے ساتھ مسافروں اور سامان کو دمشق پہنچانے کے لیے بحال کیا۔
وزارتِ خزانہ نے کہا کہ ہوائی کمپنی میں عملہ ماہان ایئر کے ملازمین پر مشتمل ہے اور یہ ماہان کی جانب سے تکنیکی معاونت حاصل کرتی ہے۔
حساس نوجوانوں کا شکار کرنا
امریکی وزارتِ خزانہ کے مطابق، فاطمیون ڈویژن "لاکھوں کی تعداد میںایران میں غیرقانونی افغان مہاجرین اور پناہ گزینوںکو اپنا شکار بناتی ہے، اور گرفتاری یا ملک بدری کی دھمکیاں دے کر شام میں لڑنے کے لیے جبراً بھیجتی ہے۔"
بیان میں کہا کہا، "فاطمیون ڈویژن کے کئی سو جنگجو، بشمول 14 سال تک کی عمر کے بچے، شام میں ایران کی جنگ لڑتے ہوئے مارے جا چکے ہیں، اور مرنے والے افغان جنگجوؤں کی لاشیں شام سے ماہان ایئر پر لاد کر واپس ایران لائی جاتی رہی ہیں۔"
وزارتِ خزانہ کے نائب سیکریٹری برائے دہشت گردی اور مالیاتی انٹیلیجنس سیگال ماندیلکر نے ایک بیان میں کہا کہ ایرانی حکومت "وسیع طور پر مصیبتوں اور بے گھر کو دوام بخش رہی ہے۔"
انہوں نے کہا، "ایران اپنی افسوسناک مہم کو انجام دینے اور پورے خطے میں فرقہ وارانہ تنازعات کو بھڑکانے کے لیے درمیان افراد اور ہتھیاروں کی نقل و حمل کے لیے ماہان ایئر اور اس کے تجارتی ہوابازی شعبے سے مستفید ہونا جاری رکھے ہوئے ہے۔"
"ہم جارحانہ طور پر ان لوگوں کو ہدف بنا رہے ہیں جو ماہان ایئر اور دیگر نامزد کردہ ہوائی کمپنیوں کو تجارتی معاونت فراہم کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں، اور کوئی بھی جو ہمارے انتباہوں پر کان دھرنے میں ناکام ہوتا ہے وہ خود کو سنگین پابندیوں کے خطرے میں ڈالتا ہے۔"
فرقہ وارانہ تنازعات بھڑکانا
راولپنڈی کے مقامی دفاعی تجزیہ کار، سعد ملک نے کہا، "یہ ناقابلِ تردید بات ہے کہ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے شیعہ جنگجو ایرانی کفالت سے شام میں بشار الاسد کی حکومت کی حمایت میں لڑ رہے ہیں، اور ان میں سے زیادہ تر پراکسیز انتہائی فرقہ وارانہ ہیں۔"
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "[شامی] فوج ۔۔۔ کو افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے، اور ہمارے خطے سے بھرتی کیے گئے شیعہ جنگجو ان کی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔"
انہوں نے کہا، "ہم خطے میں عسکریت پسندی سے پہلے ہی بری طرح متاثر ہیں، اور ایرانی اثرورسوخ مزید عدم تحفظ پر تیل چھڑک رہا ہے۔"
کوئٹہ کے مقامی افغان امور کے تجزیہ کار، حبیب اللہ خلیلی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ایران ذاتی مفادات کے لیے وسیع طور پر ہماری سرزمین کو استعمال کر رہا ہے، اور افغان شیعہ جنگجوؤں کی فاطمیون ملیشیا افغانستان کے شورش زدہ شمالی حصوں میں ایک بڑا سیکیورٹی رسک ہے۔"
انہوں نے کہا، "افغان حکام کو ملک میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثرورسوخ کے متعلق بہت تشویش ہے۔ موجودہ منظرنامے میں، ایرانی اثرورسوخ کو ختم کیے بغیر، افغانستان کا دیرپا امن کا ہدف حاصل نہیں ہو سکتا۔"
لاہور میں یونیورسٹی آف پنجاب میں ایک پولیٹیکل سائنٹسٹ، عسکری تجزیہ کار اور اعزازی پروفیسر، حسن عسکری رضوی نے کہا، "زینبیون بریگیڈ اور فاطمیون ڈویژن کی وجہ سے ہمارے خطے میں جیوپولیٹیکل اور فرقہ وارانہ تناؤ کے بدترین ہونے کا خطرہ ہے۔"
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ایرانی پراکسی ملیشیاؤںکے خلاف امریکی وزارتِ خزانہ کی حالیہ کارروائی سے عسکریت پسندی کے خطرے کو ختم کرنے کے عمل کو تقویت ملے گی۔ اب فاطمیون اور زینبیون کے جنگجو کارروائی کرنے اور آزادانہ طور پر نقل و حرکت کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔"
رضوی نے متعلقہ حکام سے "ایسے گروہوں کو غیرملکی اثرورسوخ کے تحت مصروفِ عمل ہیں، کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک بصیرت افروز پالیسی اختیار کرنے" کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا، "ہمیں اپنے نوجوانوں پر ثابت کرنا ہو گا کہ شام اور عراق میں جنگ کوئی مقدس جنگ نہیں ہے؛ بلکہ، یہ بیرونی طاقتوں کے جیوپولیٹیکل اہداف کی جنگ ہے۔"
[کوئٹہ سے عبدالغنی کاکڑ نے اس رپورٹ میں حصہ لیا]
اگر امریکہ شام، یمن میں اسرائیل اور سعودی پشت پناہی کے ساتھ لڑنے والے دیگر جنگجوؤں پر پابندی عائد کرے تو اچھا ہو گا، بصورتِ دیگر یہ بے کار ہے۔
جوابتبصرے 5
De reha Bekwas ha USA dar k Mary ese beya
جوابتبصرے 5
صرف ایران ہی اکیلا امریکہ، اس کے اتحادیوں اور خطے میں ان کے مفادات کے خلاف لڑ رہا ہے۔ ہم من حیث القوم، ہم سب امریکہ کو ایک دشمن سمجھتے ہیں، لیکن ہم نے اب تک اپنے دشمن کے خلاف کیا کیا ہے؟ محض لفظی جنگیں؟ اب تک ہم نے امریکہ سے گرانٹس ہی لی ہیں۔
جوابتبصرے 5
یہ سلسلہ پاکستان امریکہ سعودیہ کا پیدا کردہ ہے جو روس کے خلاف کے بعد شعیوں کے خلاف استعمال کیا اسکے جواب میں پھول تو پیش نہیں ہونا تھا لہذاہر شعیہ میں حریت پسندی پیدا ہو ئی وہ ایران کیش کریں یا خود شعیہ امادہ رہے اس میں کوئی فرق نہیں ۔اب امریکہ کی پالے دہشت گردوں کو شکت ہونے پر واویلا کررہا ہے۔القاعدہ داعش طالبان لشکر جھنگوی یہ کس کھیت کے مولی ہے۔
جوابتبصرے 5
ایران اور سعودی کبھی بھی پاکستان کے ہمدرد نہیں ہوسکتے ۔ یہ صرف اپنی فرقیورانہ جنگ میں پاکستان کے ناسمجھ لوگوں کو اکساتے ہیں ۔ ایران کے اسراٸیل کے ساتھ خفیہ معاھدے اور سعودی کے امریکا سے گہرے تعلقات اس بات کے ثبوت ہیں یہ دونوں ممالک ایران اور سعودی ہی امت مسلمہ کے سب سے بڑے دشمن ہیں
جوابتبصرے 5