سلامتی

ایران کی قدس فورس کے نئے کمانڈر کو کامیابی میں شدید مشکلات کا سامنا

فارس العمران

برگیڈیر جنرل اسماعیل کیانی (دائیں طرف فوجی یونیفارم میں) کو یہاں ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای، صدر حسن روحانی اور دیگر اعلی حکام کے ساتھ 6 فروری کو تہران میں قاسم سلیمانی کے تابوت کے سامنے دیکھا جا سکتا ہے جو کہ آئی آر جی سی کی قدس فورس کے سابقہ سربراہ تھے۔ [ایران کی وزارتِ دفاع]

برگیڈیر جنرل اسماعیل کیانی (دائیں طرف فوجی یونیفارم میں) کو یہاں ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای، صدر حسن روحانی اور دیگر اعلی حکام کے ساتھ 6 فروری کو تہران میں قاسم سلیمانی کے تابوت کے سامنے دیکھا جا سکتا ہے جو کہ آئی آر جی سی کی قدس فورس کے سابقہ سربراہ تھے۔ [ایران کی وزارتِ دفاع]

تہران -- تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایران کی پاسدارانِ انقلابِ اسلامی قدس فورس (آئی آر جی سی- کیو ایف) کے نئے متعین کردہ کمانڈر برگیڈیر جنرل اسماعیل کیانی اپنے پیشرو کے معیار پر پورا اترنے میں جدوجہد کا شکار ہوں گے۔

امریکی ڈرون کے ایک حملے نے میجر جنرل قاسم سلیمانیکو 3 جنوری کو بغداد میں ہلاک کر دیا تھا۔ آئی آر جی سی- کیو ایف کے راہنما کے طور پر، انہیں سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے بعد ایران کا طاقت ور ترین شخص تصور کیا جاتا تھا۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کیانی، جنہیں خامنہ ای نے سلیمانی کی ہلاکت کے بعد فوری طور پر تعینات کر دیا تھا، سے توقع ہے کہ وہ تبدیلی کی بجائے صرف تسلسل ہی مہیا کریں گے۔ مگر ان کے پاس، ایران کے اندر اور باہر نہ تو وہ مقام ہے اور نہ ہی وہ اسے حاصل کر سکیں گے، جو سلیمانی کو حاصل تھا۔

عسکری اور حکمتِ عملی کے تجزیہ نگار حاتم الفلاحی کا کہنا ہے کہ سلیمانی اس لحاظ سے ایک غیر معمولی شخصیت تھے کہ وہ سوائے خامنہ ای کے کسی کو جواب دہ نہیں تھا۔

کیانی (دائیں طرف) اس تصویر میں 9 فروری کو تہران میں خامنہ ای اور روحانی کے ساتھ دیکھے جا سکتے ہیں، وہ سب پریشان نظر آ رہے ہیں۔ [ایران کی وزارتِ دفاع]

کیانی (دائیں طرف) اس تصویر میں 9 فروری کو تہران میں خامنہ ای اور روحانی کے ساتھ دیکھے جا سکتے ہیں، وہ سب پریشان نظر آ رہے ہیں۔ [ایران کی وزارتِ دفاع]

انہوں نے کہا کہ انہیں سپریم لیڈر کے ساتھ اپنے قریبی اور قابلِ اعتماد تعلق کے باعث بہت طاقت ور تصور کیا جاتا تھا اور وہ اس اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے علاقے میں تہران کے حامی ایجنٹوں کا ایک ایسا نیٹ ورک قائم کرنے میں کامیاب رہے تھے جو ان کے احکامات پر عمل کرتا تھا۔

الفلاحی نے کہا کہ سلیمانی کی ہلاکت نے "بہت الجھن پیدا کی ہے خصوصی طور پر ایران سے تعلق رکھنے والی ملیشیاء سے تعلق اور اس کے انتظام کے سلسلے میں"۔

قدس فورس غیر ملکی مہمات میں مہارت رکھتی ہے اور انتہاپسند گروہوں کو تربیت، سرمایہ اور ہتھیار مہیا کرتی ہے۔

قدس فورس اپنے علاقائی اثر و رسوخ کو بڑھانے اور غلبہ قائم کرنے کے لیے،افغان، پاکستانی، عراقی اور یمنی نوجوانوں کو شام میں اپنے مفادات کے لیے لڑنے کے لیے بھرتی کر رہے ہیں۔

الفلاحی نے کہا کہ کیانی کو "اپنے پیشرو کی طرف سے چھوڑے جانے والے خلا کو پُر کرنے اور اس بات کا حل تلاش کرنے میں کہ حکومت کو اس کے عراق، لبنان اور شام میں اثر و رسوخ کے خلاف مخالفت کے سامنے اکٹھا رکھا جائے"۔

الفلاحی نے کہا کہ انہیں اس بات کا پتہ بھی چلانا ہے کہ عسکریت پسندوں پر سخت گرفت کیسے رکھی جا سکے۔ انہوں نے کیانی کی طرف سے عسکریت پسندوں کو متحد کرنے کی صلاحیت کو مشتبہ قرار دیا۔

حکومت کو عوامی غصے کا سامنا

جیسے جیسے ایران کے اندر معاشی حالات بدتر ہو رہے ہیںاور جو ناقص حکمرانی اور پابندیوں کا نتیجہ ہے، ایران کے لوگوں کو تیزی سے خراب ہوتے ہوئے حالات کا سامنا ہے۔

الفلاحی نے کہا کہ مگر ان حالات کے خلاف مظاہروں کو انتہائی سفاکی سے دبا دیا گیا ہے جس سے حکومت کے خلاف ناراضگی میں صرف اضافہہی ہوا ہے۔

عصام الفائیلی جو کہ بغداد کی المستنصیریا یونیورسٹی میں سیاسیات پڑھاتے ہیں، نے کہا کہعوام کی طرف سے بڑھتے ہوئے غصےکا سامنا کرتے ہوئے، حکومت کے راہنما -- جن میں کیانی بھی شامل ہیں -- مغرب کی طرف ایک معاندانہ لہجہ قائم رکھے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ ایسا اس امید پر کرتے ہیں کہ سلیمانی کی ہلاکت کا مسلسل حوالہ دیتے رہنے سے ایرانی عوام کی اپنے مسائل کی طرف سے توجہ ہٹ جائے گی اور اس سے حکومت کو "پستی کی طرف لے جانے والے چکر" سے بچانے کے لیے انہیں وقت مل جائے گا۔

الفائیلی نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہایرانی راہنما اس مشکل وقت پر بین الاقوامی برادری کے ساتھ لڑائی سے بچنے کو ترجیح دیں مگر تہران کا اپنے بیرونی ایجنٹوں کے ساتھ تعلق اسی راستے پر ہے جس پر سلیمانی چلتے تھے۔

الفائیلی نے کہا کہ کیانی جو کہ حکومت کے نظریات کو کئی دیہائیوں سے ماننے کے لیے مشہور ہیں، اب سلیمانی کے مشن کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ملیشیاء پر وفاداری کا دباؤ

کیانی اور عراقی ملیشیاء میں مقتدہ الصدر جو مولوی بن گئے ہیں، 13جنوری کو قم میں ایرانی پشت پناہی رکھنے والے عراقی ملیشیاء کے سینئر ترین راہنماؤں سے ملے اور اس ملاقات کا مقصد علاقے میں بیرونی دباؤ کے خلاف "مزاحمتی کونسل" بنانا تھا۔

الفائیلی نے کہا کہ ایران کے راہنما اور خصوصی طور پر کیانی، کا اس "صلح آمیز" میٹنگ سے مقصد یہ اشارہ دینا تھا کہ ایرانی حکومت ابھی بھی "با رسوخ" ہے اور وہ وفادار عسکری دھڑوں پر ابھی بھی کنٹرول رکھتی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ ان تمام دھڑوں نے جنہیں حال ہی میں علاقائی تنازعات کے بڑھ جانے کی وجہ سے مماثل دباؤ کا سامنا ہے، کیانی کو فوری طور پر ردعمل دیا جو کہ ان کی صلاحیتوں کا پہلا امتحان تھا کہ آیا وہ اس مشن کو پورا کر سکیں گے کہ نہیں جس کا آغاز سلیمانی نے کیا تھا۔

عراق کے سیاسی تجزیہ نگار خطاب الازعوی نے کہا کہ یہ وہ ایجنٹ ہیں جنہیں ایران اپنے نظریاتی اور سیاسی منشور کے مطابق اپنی موجودگی کا دفاع کرنے کے لیے جنگ میں استعمال کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ ان دھڑوں نے اس ذمہ داری کو اپنے کندھوں پر اٹھایا ہے اور ایران کی راہنمائی تلے رہنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ کسی بھی ایک فریق کی تباہی کا مطلب تمام فریقین کی تباہی ہو گا۔

الازعوی نے کہا کہ "اپنے پیش رو کی طرح، کیانی ایک قدامت پسند ہے جو ہتھیار ڈالنے اور مفادات کی قربانی دینے یا رعایت دینے کے خیالات کو مسترد کرتا ہے"۔

افغانستان میں زیرِ تفتیش

ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق، کیانی نے افغانستان اور پاکستان میں قدس فورس کی مہمات کی واضح طور پر نگرانی کی جبکہ سلیمانی گروہ کو مجموعی طور پر راہنما تھا۔

مگر ان کا افغانستان میں کردار خصوصی طور پر زیرِ تفتیش ہے۔

افغانستان کی وزارتِ خارجہ نے جنوری کے آغاز میں کہا تھا کہ وہ کیانی کے ایک ہسپتال کے دورے کی تفتیش کر رہا ہے جسے ایرانی سرمایے سے 2018 میں بامیان کے صوبہ میں تعمیر کیا گیا تھا۔

بامیان کے گورنر محمد طاہر ظاہر نے 7 جنوری کو کہا کہ ایرانی وفد جون 2018 میں کابل سے ہسپتال کا دورہ کرنے آیا اور کیانی نے اپنا تعارف کابل میں ایران کے نائب سفیر کے طور پر کرایا۔

قائم مقام وزیرِ خارجہ ادریس زمان نے 9 جنوری کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ 2018 کے دورے کے دوران کیانی کے کام زیرِ تفتیش ہیں۔

زمان نے کہا کہ "اسماعیل کیانی کبھی بھی کابل میں ایران کا نائب سفیر نہیں رہا اور ہم اس واقعہ کی تفتیش کر رہے ہیں تاکہ اس بات کا پتہ چلایا جا سکے کہ یہ دورہ کب، کیسے اور کس مقصد سے ہوا تھا"۔

کابل میں سیاسی معاملات کے ایک تجزیہ نگار اکبر جان پولاد نے کہا کہ "جو کوئی بھی جعلی کاغذات پر کسی ملک کا دورہ کرتا ہے، تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس کے ارادے شیطانی اور تباہ کن ہیں اور ایک عسکری کمانڈر کا تعارف ایک نائب سفیر یا سفارت کار کے طور پر کروانا، ایران کے تخریبی ارادوں کو ظاہر کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "کیانی اس وقت فاطیمیون ڈویژن کے معمار اور راہنما تھے۔ ان کا بامیان کا دورہ ہو سکتا ہے کہ فاطمیون جنگجوؤں کو بھرتی کرنے اور ان سے تعلقات قائم کرنے کے لیے ہو"۔

فاطمیون ڈویژن افغان شہریت رکھنے والوں سے بنا عسکریت پسند گروہ ہے جنہیں پہلے آئی آر جی سی نے شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے لیے لڑنے کے لیے بھرتی کیا تھا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500