دہشتگردی

کوئٹہ میں مہلک خودکش بم حملے کے بعد سیکیورٹی فورسز کی جانب سے گرفتاریاں

عبدالغنی کاکڑ

17 فروری کو کوئٹہ میں ایک خودکش دھماکہ کے بعد ایک زخمی شخص کو ایک سٹریچر پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ [بنارس خان/اے ایف پی]

17 فروری کو کوئٹہ میں ایک خودکش دھماکہ کے بعد ایک زخمی شخص کو ایک سٹریچر پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ [بنارس خان/اے ایف پی]

کوئٹہ – کوئٹہ میں ایک مذہبی ریلی کو ہدف بناتے ہوئےدو پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم آٹھ افراد کی موت کا باعث بننے والے ایک خود کش حملے کے ایک روز بعد منگل (18 فروری) کو سیکیورٹی فورسز نے کم از کم 17 ملزمان کو گرفتار کر لیا۔

حکام نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز شہر کے مختلف علاقوں میں سرچ آپریشنز کر رہے ہیں۔ حکام نے ملزمان سے تفتیش کرنے کی غرض سے نفاذِ قانون کی مختلف ایجنسیوں پر مشتمل ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی ہے۔

سیکیورٹی فورسز نے خودکش حملہ آور کی باقیات جمع کی ہیں، جنہیں وہ لاہور میں ایک فارینزک لیب میں بھیجیں گے۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر پولیس عہدیدار محمد جاوید نے کہا کہ یہ خودکش حملہ آور کوئٹہ عدالت روڈ پر پریس کلب کے قریب ایک مذہبی ریلی میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ جب پولیس اہلکاروں نے تلاشی لینے اور شناخت طلب کرنے کے لیے اسے روکا، تو اس نے دھماکہ خیز مواد اڑا دیا۔

17 فروری کو کوئٹہ میں ایک خودکش حملہ آور کی جانب سے آٹھ افراد کے قتل کے بعد سیکیورٹی اہلکار علاقہ کو گھیرے میں لیے ہوئے ہیں۔ [عبدالغنی کاکڑ]

17 فروری کو کوئٹہ میں ایک خودکش حملہ آور کی جانب سے آٹھ افراد کے قتل کے بعد سیکیورٹی اہلکار علاقہ کو گھیرے میں لیے ہوئے ہیں۔ [عبدالغنی کاکڑ]

17 فروری کو خود کش دھماکے میں یہاں دکھائی گئی کار سمیت قریبی املاک کو نقصان پہنچا۔ [عبدالغنی کاکڑ]

17 فروری کو خود کش دھماکے میں یہاں دکھائی گئی کار سمیت قریبی املاک کو نقصان پہنچا۔ [عبدالغنی کاکڑ]

انہوں نے کہا، "اس حملے میں 24 دیگر افراد زخمی ہوئے، جنہیں فوری طبی امداد کے لیے سول ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ ابھی تک آٹھ مریضوں کی حالت نازک ہے۔"

جاوید نے کہا کہ نفاذِ قانون کے حکام نے جائے وقوعہ سے تمام دستیاب شواہد اکٹھے کیے ہیں اور چند عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں۔

انہوں نے کہا، "دیگر صوبائی صدرمقام میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے، اور شہر کے تمام حساس علاقوں میں پولیس اور دیگر نفاذِ قانون کی ایجنسیوں کے اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں۔"

’شیطانی ارادے‘

کوئٹہ پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل عبدالرّزاق چیمہ نے کہا، "عدالت روڈ کے داخلی راستے پر تعینات پولیس اہلکاروں نے اپنی جانیں قربان کر کے خودکش حملہ آور کو [داخل ہونے سے] روکا۔ اگر حملہ آور اپنے ہدف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہو جاتا تو نقصانات بہت زیادہ ہوتے۔"

انہوں نے کہا، "تحقیقات جاری ہیں، اور ہم امن میں خلل ڈالنے کے لیے دشمن کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔"

چیمہ نے کہا، "یہاںامن مخالف عناصر فرقہ ورانہ تشدد پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں؛ لہٰذا وہ مذہبی جماعتوں کے خلاف منصوبے بنا رہے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ مذہبی ریلی عسکریت پسندوں کے لیے ایک آسان ہدف تھا۔

انہوں نے کہا، "ہماری صورتِ حال پر قریبی نگاہ ہے، اور نفاذِ قانون کی تمام ایجنسیاں ہائی الرٹ پر ہیں۔"

بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ جام کمال نے اس حملے کی سخت مذمّت کی اور وزارتِ امورِ داخلہ و قبائل کو ایک تفصیلی رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت کی۔

انہوں نے کوئٹہ سے جاری ایک بیان میں کہا، "معصوم شہریوں کی جانوں سے کھیلنے والے دہشتگرد کبھی اپنے شیطانی ارادوں میں کامیاب نہیں ہوں گے۔"

بیان میں مزید کہا گیا، "صوبے میں دیرپا امن کا قیامہماری اولین ترجیح ہے، اور حکومت اپنے امن کے مقصد پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔"

اس بم حملے کے خلاف احتجاج کے لیے منگل (18 فروری) کو بلوچستان کی سیاسی جماعتوں اور انجمن ہائے تاجران نے مشترکہ طور پر مکمل ہڑتال کا اعلان کیا۔

کوئٹہ اساسی مرکزی انمنِ تاجرانِ پاکستان کے ایک رہنما اللہ داد ترین نے کہا، "دہشتگرد بلوچستان میں امن کی کوششوں کو سبوتاژ کر رہے ہیں۔ صوبائی حکومت کو ہماری جانوں اور املاک کے تحفظ کے لیے مزید ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔"

انہوں نے کہا، "ہم نے صوبے میں امنِ عامہ کی ابتر صورتِ حال کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔"

کسی گروہ نے فوری طور پر ذمہ داری قبول نہیں کی، تاہم، "دولتِ اسلامیہٴ عراق و شام"(داعش) نے ماضی میں اس خطے میں متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

Daish , ttp, lashkar jgangvi dayshat gard tanzeemin hain, in ko khatam karna bahut zarori hy

جواب