کوئٹہ – پاکستانی تجزیہ کاروں اور مبصرین کے مطابق، میجر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت سے علاقائی بالادستی کے لیے ایرانی حکومت کی پراکسی جنگوں اور منصوبوں پر زبردست زد پڑی ہے۔
اسلامی انقلابی محافظ دستے (آئی آر جی سی) کی قدس فورس کے کمانڈر، سلیمانی کو بغداد میں 3 جنوری کو ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیا گیا تھا۔
امریکی محکمۂ دفاع کے مطابق وہ ‘‘فعال انداز میں عراق اور پورے خطے میں امریکی سفارت کاروں اور خدمت گاروں پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا’’ اور یہ کہاسے ‘‘قاسم سلیمانی کو ہلاک کرکے بیرونِ ملک موجود امریکی عملے کے تحفظ کے لیے فیصلہ کن دفاعی اقدام اٹھانا پڑا۔’’
قدس فورس، جوکہ یروشلم کا عربی نام ہے، بین الاقوامی سطح پر مخصوص مقاصد کی سرگرمیوں میں خصوصی مہارت رکھتی ہے۔ یہ انتہا پسند گروہوں، بشمول لبنان کی حزب اللہ اور فلسطین کے حماس گروپ کو تربیت، مالی معاونت اور اسلحہ فراہم کرتی ہے۔
سلیمانی اور اس کی قدس فورس نے شام کی خانہ جنگی میں شامی فورسز کی معاونت میں بھی مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
اپنے علاقائی اثرورسوخ میں اضافے اور بالادستی کے قیام کے مشن میں، قدس فورس اپنے مفادات کی جنگ لڑنے کے لیے افغان، پاکستانی، عراقی اور یمنی نوجوانوں کو استعمال کرتی رہی ہے۔
قدس فورس کی جانب سے تشکیل کردہ ایک اہم گروپ زینبیون بریگیڈ ہے، جوکہ پاکستانی مہاجرین اور زائرین پر مشتمل ایک مسلح جتھہ ہے۔
کوئٹہ میں مقیم سیکیورٹی اور علاقائی تعلقاتِ عامہ کے تجزیہ کار، ندیم احمد کا کہنا تھا ‘‘سلیمانی خطے میں ایرانی انقلاب کی بین السرحد توسیع کے ایجنڈے کا ایک اہم مہرہ ... اور امنِ عامہ کی جاری کوششوں کے لیے ایک خطرہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ ‘‘گزشتہ چند برسوں میں، خطے میں فرقہ وارانہ فسادات میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ میرے یقین کے مطابق، قاسم سلیمانی کی ہلاکت اس فرقہ وارانہ اختلاف کو بڑے پیمانے پر کم کرے گی’’۔
انہوں نے مزید کہا کہ تہران اپنے منصوبے کے تحت پڑوسی ممالک میں دخل اندازی کر رہا ہےتاکہ اپنی شیعہ بالادستی کو مستحکم کیا جائے۔
احمد کے مطابق ‘‘سلیمانی بہت سے پراکسی مسلح جتھوں کا بانی تھا، اور اس کی موت سے ان گروہوں کی سرگرمیوں کو کمزور کرنے میں بے پناہ مدد ملے گی جن کی معاونت ایران اپنے دو طرفہ علاقائی مفادات کے لیے کر رہا ہے۔’’
انہوں نے مزید کہا کہ سلیمانی کی ہلاکت ‘‘افغانستان میں امن کی کوششوں پر بھی مثبت اثرات مرتب کرے گی’’۔
احمد کے مطابق ‘‘ایران طویل عرصے سے افغان امن مزاکرات کو سبوتاژ کر رہا ہے، اور افغان طالبان کے بعض دھڑے کھلے عام یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سلیمانی کے ذریعے، ایران انہیں افغانستان میں ہتھیار اور دیگر جنگی معاونت فراہم کرتا رہا ہے۔’’
اسلام آباد میں مقیم ایک سینئر دفاعی تجزیہ کار اور انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز اسلام آبادمیں پاکستان چائینہ سٹڈی سنٹر کے ڈائریکٹر، طلعت شبیر کے مطابق سلیمانی کی ہلاکت پاکستان پر خاطر خواہ اثرات رکھتی ہے۔
ان کا کہنا تھا ‘‘خطے میں انتہا پسندانہ اور فرقہ وارانہ فسادات کے خطرے کی زد پر پاکستان ہی سب سے زیادہ ہے’’۔
شبیر صاحب کے مطابق ‘‘ہم ملک میں مزید فرقہ وارانہ اختلاف کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور فرقہ وارانہ اختلاف ہماری بڑی بدقسمتیوں میں سے ایک ہے’’۔ آنے والے دنوں میں ایراناپنے پراکسی مسلح جتھوں کو استعمال کرسکتا ہےتاکہ اپنے دوطرفہ علاقائی مفادات حاصل کرسکے، لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ ہمیں اپنی دھرتی پر کی جانے والی ایسی کسی بھی کوشش کو خاک میں ملانے کے لیے مستعد رہنا ہوگا۔’’
انہوں نے کہا کہ ‘‘مستقبل میں ہمارے خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک میں مسلح پراکسی جتھوں کو وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاسکتا ہے’’۔
انہوں نے حکومت کے انسدادِ دہشت گردی منصوبے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘‘پراکسی جنگوں کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے، نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کی تمام تر 20 شقوں کے نفاذ کا وقت اب آچکا ہے۔
ایک محفوظ خطہ
اسلام آباد میں مقیم ایک سینئر سیکیورٹی تجزیہ کار، میجر (ریٹائرڈ) عمر فاروق نے کہا کہ سلیمانی کی ہلاکت سے امکان ہے کہ خطہ پہلے سے زیادہ محفوظ ہوجائے گا۔
ان کے مطابق ‘‘قاسم سلیمانی لاتعداد معصوم جانوں کے ضیاع کا ذمہ دار تھا اور اس نے دہائیوں تک بہت سے علاقائی ممالک کو غیرمستحکم رکھا۔ وہ تہران کے مفادات کے لیے خطے میں صورتحال کو مزید کشیدہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا’’۔
مثلاً، سلیمانی کی زیرِ قیادت ایرانی سیکیورٹی ایجنسیاں نہ صرف ایران بلکہپاکستان کے صوبہ بلوچستان کی سرحد سے جڑے علاقوں میں بھی سنی بلوچوں کے قتلِ عام میں ملوث تھیں’’۔
فاروق نے مزید کہا ‘‘پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے بیانات سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ بلوچستان میں انتہا پسندوں کی جانب سے کیے جانے والے بیشتر حملوں کی ڈور ایران سے ملتی ہے، اور تحقیقات سے یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ ان حملوں میں ملوث انتہا پسند ایران فرار ہوگئے تھے’’۔
ان کے مطابق ‘‘قاسم سلیمانی علاقائی امن کے لیے ایک خطرہ تھا اور وہ ایرانی انقلاب کو ہمسایہ ممالک میں وسیع کرنے کے لیے پراکسی مسلح جتھوں کو استعمال کر رہا تھا’’۔
ایرانی سرحد کے قریب واقع بلوچستان کے شہر تفتان کے ایک قبائلی سردار، برکت جمالدینی نے کہا کہ سرحد پار ہونے والے بے شمار حملوں میں ایرانی حکومت ملوث رہی ہے اور گزشتہ چند برسوں میں ان میں سے زیادہ تر حملے سلیمانی کی زیرِ قیادت ایرانی سرحدی فورسز نے کیے۔
ان کا کہنا تھا ‘‘ہمارے سرحدی علاقوں میں ایرانی سرحدی فورسز کی شیلنگ کے باعث ہماری بے پناہ معصوم انسانی جانوں کا ضیاع ہوچکا ہے۔ یقین کریں، ہمارے عوام ابھی تک سلیمانی کی ہلاکت کا جشن منا رہے ہیں، کیونکہ اس کی ہلاکت کے بعد ہمیں ایک حملے کی اطلاع بھی نہیں ملی اور اب ہمارے علاقے میں امن کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے’’۔
جمالدینی نے مزید کہا ‘‘ایران میں مقیم بلوچ اقلیتوں کو ایرانی پولیس اور خصوصاً سستان-بلوچستان، زاہدان اور پاکستانی سرحد کے قریب ایران کے دیگر علاقوں میں آئی آر جی سی کی جانب سے روا رکھے جانے والے ظلم و بربریت کا سب سے زیادہ سامنا ہے۔
ان کا کہنا تھا ‘‘ہم امید کرتے ہیں کہ قاسم سلیمانی کی ہلاکت سے ہمارے سرحدی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ہمارا پاکستانی حکومت سے بھی مطالبہ ہے کہ وہ ہمارے سرحدی علاقوں پر ایرانی شیلنگ سے چھٹکارا پانے کے لیے مزید ٹھوس اقدامات کرے’’۔
نرل سلیمانی ایک اسلامی ہیرو ہے کہ ان کی تمام تر شاندار زندگی اسلام کے دفاع اور صیہونیوں، امریکہ اور تکفیریوں کے خلاف لڑنے میں گزری۔ زینبیون برگیڈ کی تشکیل شعیہ آئمہ کے مزارات کے دفاع کے لیے ہے، نہ کہ فرقہ ورانہ جنگ کے لیے۔ طلابان، لشکرِ جھنگوی، القاعدہ اور تمام شدت پسند ان ممالک سے ہیں جن سے اس مکالہ کے مصنف کو پیسے ملتے ہیں۔
جوابتبصرے 12
یہ رپورٹ متعصبانہ اور ایران دشمنی پر مبنی ہے یہ سعودی آقاؤں اور ان کے پاکستانی غلاموں کو خوش کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ لگتا ہے کہ غنی کاکڑ ابھی بدلا نہیں ہے اور صحافت کو استعمال کرتے ہوئے اپنی جیبیں بھر رہا ہے
جوابتبصرے 12
مصنف کے اندرونی بنیاد پرست احساسات نظر آ رہے ہیں، سلیمانی سے قبل 1963 میں صوبہ سندھ میں پاکستان میں کون ذیلی جنگ لڑ رہا تھا۔ اگر یہی وہ شخص ہے جو شعیہ نوجوانوں کو جنگ کے لیے بھرتی کرتا تھا تو وہ کہاں ہیں اور انہوں نے طالبان کی جانب سے کیے جانے والے بم دھماکوں کے واقعات میں سے کسی ایک پر بھی کیوں انتقامی کاروائی نہ کی جن میں سے ہر ایک میں 100 سے زائد اموات ہوئیں۔ یہ امریکہ کے ویزا آفیسر کو اپنے مکالات دکھا کر اپنے تئیں چند ڈالروں کے عوض فروخت کر رہے ہیں کہ وہ بھی اسی طرح سے سوچتے ہیں جیسا امریکہ ایک بے رحم طاقت ور ملک ہونے کے ناطے کر رہا ہے۔ برما میں مسلمانوں کے کے حالیہ قتلِ عام کے بارے میں کیا؟ چین مسلمان اقلیت سے نمٹ رہا ہے؟ وغیرہ یہ وہ ہیں جو کچھ دیکھنے، سننے اور سمجھنے کے قابل نہیں، سوائے اس کے کہ جو شیطان امریکہ کر رہا ہے وہ درست ہے۔
جوابتبصرے 12
نہایت معلوماتی!
جوابتبصرے 12
آپ لغو بات کر رہے ہیں۔ ڈرپوک کہیں کے! آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔
جوابتبصرے 12
پاکستان میں سپاہِ صحابہ اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کی سعودی حمایت کے بارے میں کیا خیال ہے۔۔۔ میرا خیال ہے کہ آپ کا علم بہت محدود ہے۔۔۔ آپ کا مکالہ مکمل طور پر فرقہ واریت پر مبنی ہے اور جو الزامات آپ نے زیرِ بحث جرنیل پر لگائے ہیں، وہ بیکار اور بے بنیاد ہیں۔
جوابتبصرے 12
بلکل ٹھیک
جوابتبصرے 12
صحافت کا حق ادا کردیا آج آپ نے
جوابتبصرے 12
Agar wo Pakistan men shion ko tarbiat dy Raha tha to kia shuru se sipah sahaba waly shion ko sar e aam qatl karty aa rahy hen Balochistan men to I'd card dekh k qatl kia jata Hy us waqt ye kaakar sahb Kahan Mary hoty hen kia wo dehshatgardi nhi hoti
جوابتبصرے 12
ویسے آج تک سمجھ نہیں آئی سلیمانی پاکستان کو دھمکیاں کیوں دیتا تھا حالانکہ پاکستان نے کبھی ایران میں کسی بھی حکومت مخالف گروہ کی حمایت نہیں کی، امریکہ اس کا دشمن تھا تو افغانستان اور عراق میں کیوں اتحاد تھا.
جوابتبصرے 12
تعصب اور ایران دشمنی پر مبنی یہ رپورٹ سعودی آقاووں اور ان کے پاکستانی غلاموں کو خوش کرنے کی ایک ناکام کوشش ھے۔ لگتا ھے غنی کاکڑ ابھی تک بدلا نہیں ھے اور صحافت کو اب بھی ایک طوائف کی طرح استعمال کر کے اپنا جیب بھرنے کی کوشش کر رہا ھے
جواببالکل
جوابتبصرے 12