سیاست

سلیمانی کا غارت گری کا ورثہ اب بھی تنازعات سے تھکے ہارے خطے کو داغدار کیے ہوئے ہے

از فارس العمران

ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کے ارکان جو شام میں لڑے اور مارے گئے، نومبر میں ایران کے شہر قم میں دفن کیے گئے۔ [محمد وحدتی/آئی آر آئی بی نیوز]

ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کے ارکان جو شام میں لڑے اور مارے گئے، نومبر میں ایران کے شہر قم میں دفن کیے گئے۔ [محمد وحدتی/آئی آر آئی بی نیوز]

بغداد میں ہونے والے امریکی حملے میں، سپاہ پاسدرانِ انقلابِ اسلامی قدس فورس (آئی آر جی سی- کیو ایف) کے کمانڈر قاسم سلیمانیکی ہلاکت کے تقریباً تین سال بعد بھی، ان کی چھوڑی ہوئی خونریزی اور قتل و غارت گری کی میراث اب بھی سامنے آ رہی ہے۔

سلیمانی، جنہوں نے نہ صرف پورے خطے میں بیرونی فوجی کارروائیوں کی کمان سنبھالی تھی بلکہ ایران کے اندر اختلاف رائے کو دبانے میں بھی ملوث رہے تھے، 3 جنوری 2020 کو مارے گئے تھے۔

ان کے بعد اسماعیل قانی آئے، جو سلیمانی جیسی قائدانہ خوبیوں کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

پھر بھی قانی کے ماتحت، کیو ایس کے پہلے سے بہت کمزور ہو جانے کے باوجود، ایرانی حکومت ایران کے لوگوں اور مشرق وسطیٰ کے وسیع علاقے، شام سے یمن تک، کی قیمت پر سلیمانی کی میراث کو برقرار رکھنے پر اصرار کرتی ہے۔

یمن کا ایک خاندان، طائز کے مغرب میں ایک ایسی غار کے باہر بیٹھا ہے جہاں انہوں نے غربت اور رہائش کی کمی سے پناہ لے رکھی ہے۔ [احمد الباشا/اے ایف پی]

یمن کا ایک خاندان، طائز کے مغرب میں ایک ایسی غار کے باہر بیٹھا ہے جہاں انہوں نے غربت اور رہائش کی کمی سے پناہ لے رکھی ہے۔ [احمد الباشا/اے ایف پی]

خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ سلیمانی، جسے ایران کے سب سے خطرناک آدمی کے طور پر جانا جاتا ہے، اپنے آخری سالوں میں مشرق وسطیٰ کے نقشے کو نئی شکل دینے کا منصوبہ بنا رہا تھا تاکہ علاقائی نیم فوجی گروہوں کو تباہی پھیلانے کے لیے استعمال کر کے، ایران کے مفادات کو پورا کیا جا سکے۔

اپنی موت سے پہلے، اس نے عراق اور شام میں 82 مسلح گروہ بنائے تھے جو آئی آر جی سی سے وابستہ ہیں اور اس سے سرمایہ اور امداد حاصل کرتے ہیں، ان اعداد و شمار کی تصدیق گزشتہ سال ایرانی رہنما علی خامنہ ای کے فوجی مشیر میجر جنرل یحییٰ رحیم صفوی نے کی تھی۔

سلیمانی نے خود ان پراکسی گروہوں کی سربراہی کی تھی اور ان کی تربیت اور انہیں ہتھیاروں اور پیسوں سے لیس کرنے کے عمل کی نگرانی بھی کی تھی تاکہ وہ خطے میں بڑھیں اور پھیل سکیں۔

رحیم صفوی کے مطابق، 2011 سے اب تک شام میں اپنے اتحادی، بشار الاسد کی حکومت کے دفاع میں لڑنے کے لیے، ایران کی طرف سے بھرتی کیے گئے عسکریت پسندوں کی تعداد 70,000 سے تجاوز کر گئی ہے --- جوعراق، لبنان ، شام، افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ آئی آر جی سی کی چھتری کے نیچے کام کرتے ہیں۔

ایران کی مجلس (پارلیمنٹ) میں سلامتی کمیٹی کے سابق چیئرمین حشمت اللہ فلاحت پشیح نے مئی 2020 میں، ایرانی روزنامہ اعتماد کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ آئی آر جی سی نے شام کی جنگ پر تقریباً 30 بلین امریکی ڈالر خرچ کیے ہیں۔

سلیمانی کی زیرِ قیادت، ملیشیاؤں نے مشرقی شام کے قصبوں کے باشندوں کے خلاف دشمنیاں شروع کر دیں، اس سے پہلے کہ ان کی طاقت کم ہو جائے اور بین الاقوامی اتحاد کے فضائی حملوں کے نتیجے میں ان کی سرگرمیاں کم ہو جائیں۔

علاقائی بالادستی کا منصوبہ

شامی قبائل اور قبیلوں کی کونسل کے ترجمان مدر حماد الاسد نے کہا کہ "ان قصبوں [مشرقی شام میں] کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کرنے کا عمل سلیمانی کے تسلط کے منصوبے کا حصہ تھا جس کا مقصد اپنے ملک کے علاقائی مفادات کو مستحکم کرنا تھا۔"

ایران سے وابستہ ملیشیاؤں نے زبردستی یا مالی مراعات کے ذریعے سینکڑوں مکانات اور کھیتوں پر قبضہ کر لیا تاکہ ان میں غیر ملکی عناصر اور ان کے خاندانوں کو آباد کیا جا سکے۔

انہوں نے گھروں اور کھیتوں کو فوجی ہیڈکوارٹروں اور گوداموں کے طور پر بھی استعمال کیا تاکہ سرحد پار شام میں، اسمگل کیے گئے ایرانی ہتھیاروں کو ذخیرہ کیا جا سکے۔

الاسد نے کہا کہ املاک کی ضبطی کے نتیجے میں "المیادین، پالمیرا، البو کمال اور دیر الزور کے شہروں میں ہزاروں شامی شہریوں کو نقل مکانی کرنی پڑی"۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملیشیاؤں نے مساجد کو وکالت کے ایسے مراکز میں تبدیل کر دیا جو ایرانی حکومت کے اصولوں کی تعلیم دیتے ہیں اور وہ شامیوں کی قومی اور مذہبی شناخت کو مٹا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "سلیمانی کی میراث، ایرانی اثر و رسوخ کی مخالفت کرنے والے شامیوں کی بڑی تعداد کے قتل اور ان کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ کو خفیہ حراستی مراکز میں قید کرنے کی صورت میں پیش کی گئی تھی، جہاں ان میں سے بہت سے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔"

سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کی 7 نومبر کی ایک رپورٹ کے مطابق، ملیشیا نے رہائشیوں کو بھی دھمکیوں اور دھونس کے ذریعے اپنی صفوں میں شامل ہونے پر مجبور کیا ہے اور گزشتہ سال کے آغاز سے مقامی طور پر بھرتی ہونے والوں کی تعداد "تقریباً 3,000" تک پہنچ گئی ہے۔

عراق میں انسانیت کے خلاف جرائم کا سلسلہ جاری

سیاسی محقق عبدالقادر النیل نے المشارق کو بتایا کہ عراق میں، آئی آر جی سی سے منسلک گروہ، جن میں سب سے زیادہ سفاک کتائب حزب اللہ اور عصائب اہل الحق ہیں، ہولناک جرائم کے ذمہ دار ہیں، خاص طور پر موصل اور انبار میں۔

انہوں نے کہا کہ ایران کے حمایت یافتہ دھڑوں نے "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کے ساتھ لڑی جانے والی لڑائیوں میں اور 2019 کے آخر میں بدعنوانی اور ایرانی اثر و رسوخ کے پھیلاؤ کے خلاف عوامی مظاہروں کے دوران "ہزاروں بے گناہ عراقیوں کو زبردستی لاپتہ اور ہلاک کیا تھا"۔

النیل نے کہا کہ "ایسی ملیشیاء جنہیں سلیمانی نے قائم کیا تھا، کا دشمنانہ رویہ، ان کے قتل کے بعد بھی جاری رہا"۔

انہوں نے کہا کہ "ملیشیاء کے رہنماؤں پر سلیمانی کے قتل کے واضح اثرات، فیصلہ سازوں کی کثرتیت اور اثر و رسوخ کے لیے جدوجہد کے باوجود، ان کی سرگرمیاں بند نہیں ہوئیں"۔

انہوں نے کہا کہ خودمختار اور بین الاقوامی تنصیبات پر انتقامی راکٹ حملے جاری رہے، جس سے شہریوں کی حفاظت کو خطرہ لاحق ہو گیا اور اسی طرح کارکنوں کے قتل اور ہتھیاروں اور منشیات کی اسمگلنگ بھی جاری رہی جس نے عراقی معیشت کو تھکا دیا۔

متحدہ عرب امارات (یو اے ای) پر فروری میں ہونے والے ناکام ڈرون حملے کے پیچھے کتائب حزب اللہ کا ہاتھ تھا، جو کہ خلیجی خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والے متعدد حملوں میں سے ایک تھا اور گزشتہ سال سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پر بھی ایسا ہی حملہ کیا تھا۔

اختیار اور علاقائی توسیع کے لیے سلیمانی کے عزائم، صرف شام اور عراق تک محدود نہیں تھے بلکہ وہ لبنان تک بھی پھیلے ہوئے تھے، جو اس وقت معاشی بحران سے دوچار ہے۔

سیاست دان اور شہری حزب اللہ کی بدعنوانی کو، جو کہ لبنان کے اندر اور بیرون ملک اس کے لین دین کے معاملات، دونوں میں ہی موجود ہے ، ملک کی اقتصادی تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پارٹی کی اپنے سب سے اہم حامی، ایران، کی تابعداری نے اس بات کو دعوت دی ہے کہ ان کے رہنماؤں پر امریکی پابندیاں عائد کی جائیں -- اور لبنانی عوام اس کی قیمت چکا رہے ہیں۔

یمن میں حوثیوں کی جنگ کو طول دینا

سلیمانی کے علاقائی عزائم یمن تک پہنچ چکے ہیں، جہاں آئی آر جی سی بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز سے خلیجی ممالک کی سیکورٹی کو نشانہ بنانے کے لیے ہتھیاروں، رقم اور تکنیکی مہارت کے ساتھ حوثیوں کی مدد کرتی ہے۔

مرکز برائے عرب ترقی کے ایک محقق اسد کانجو نے 25 اکتوبر کی ایک رپورٹ میں یمن میں "حوثیوں کو مضبوطی سے قائم رہنے کے قابل بنانے اور ریاست اور اس کے اداروں کا تختہ الٹنے" میں سلیمانی کے اہم کردار پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا کہ آئی آر جی سی - کیو ایف کے سابق کمانڈر نے سعودی عرب کے زیرِ قیادت عرب اتحاد اور حوثیوں کے درمیان، ملیشیا کی حمایت کے لیے جنگ شروع ہونے کے بعد بڑھتی ہوئی کشیدگی کا فائدہ اٹھایا، اس طرح اس تنازعے کو طول دیا، جو مارچ میں اپنے ساتویں سال میں داخل ہوا۔

ایران کی پراکسی جنگوں کے لیے، یمن کو ایک نئے لانچنگ پیڈ میں تبدیل کرنے کے سلیمانی کے منصوبے کے یمن کے شہریوں کے حالات زندگی پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے، جو اقوام متحدہ کے مطابق "دنیا کے سب سے بڑے انسانی بحران" سے دوچار ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500