قاہرہ – جبکہ شامی حکام پیر (15 مئی) کو عرب لیگ اجلاس کی تیاریوں میں شامل ہوئے، جس سے اس بلاک سے علیحدگی کی ایک دہائی سے زائد عرصہ کا اختتام ہوا، متعدد کا ماننا ہے کہ ابھی ایک طویل سفر ہے، قبل اس کے کہ ممالک اس تنہا ریاست کے ساتھ تعلقات مکمل طور پر بحال کر لیں۔
بشار الاسد کی جانب سے حکومت مخالف احتجاج کو بربریت کے ساتھ دبائے جانے پر، جس کی وجہ سے ایک ایسی جنگ کا آغاز ہوا جس میں تقریباً نصف ملین افراد لقمۂ اجل بن گئے ، 11 سالہ عدم موجودگی کے بعد، رواں ماہ کے اوائل میں عرب لیگ کے وزرائے خارجہ نے مصر کی دوبارہ شمولیت پر اتفاق کر لیا۔
اس فیصلہ نے خطہ کے اندر اور باہر سے شدید تنقید کو بھڑکا دیا – بطور خاص، مرکزی اتحادِ حزبِ اختلاف، ترکیئے اساسی شامی قومی اتحاد کی جانب سے۔
اس اتحاد نے کہا، تعلقات معمول پر لانے کا مطلب ہے "شامی عوام کی خواہشات" کو "چھوڑ دینا" اور انہیں نظرانداز کرتے ہوئے، انہیں "باقاعدہ عرب حمایت کے بغیر" چھوڑ دینا۔
اس نے مزید کہا، "(الاسد کو) شامیوں کے خلاف اس کے جنگی جرائم کی سزا سے بچ نکلنے کی اجازت دینا ناقابلِ قبول ہے۔"
اے ایف پی نے خبر دی کہ دو امریکی قانون سازوں نے اس اقدام کو "ایک شدید تضویری غلطی کے طور پر بیان کیا جو الاسد، روس اور ایران کو شہہ دے گی کہ وہ عام شہریوں کو ذبح کرتے رہیں اور مشرقِ وسطیٰ کو عدم استحکام سے دوچار کرتے رہیں۔"
ہاؤس فارن افیئرز کمیٹی کے نمائندگان مائیک میکاؤل اور گریگوری میکس نے ایک مشترکہ بیان میں کہا، "الاسد نہیں بدلے،"
"وہ ایسی سف٘اکیاں جاری رکھتے ہوئے ایک عالمی مثال قائم کر دیں گے کہ بے رحم ڈکٹیٹر اپنے جرائم کے احتساب سے بچ سکتے ہیں۔"
ماہرین نے المشرق سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب تک حکومتِ شام شکایات سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کرتی، عرب لیگ میں اس کی دوبارہ شمولیت بے معنی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ حقیقی احتساب اور اصلاحات کے بغیر، وہ مسئلہ غیر حل شدہ رہے گا جس کی وجہ سے عرب ریاستوں نے 12 برس قبل اس حکومت کا بائیکاٹ کیا تھا۔
یہ تو آغاز ہے
عرب لیگ کے سربراہ احمد ابوالغیئت نے کہا کہ اس مجلس میں شام کی واپسی "مسئلہ کا آغاز ہے۔۔۔ نہ کہ اختتام"، انہوں نے مزید کہا کہ دمشق کے ساتھ تعلقات بحال کرنا یا نہ کرنا ممالک کا انفرادی فیصلہ تھا۔
قطر اور کویت نے کہا کہ وہ شام کے ساتھ تعلقات کو معمول پر نہیں لائیں گے۔
قطری وزارتِ خارجہ کے ترجمان ماجد بن محمّد الانصاری نے 7 مئی کو ریاستی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شام کو "اس بحران کی جڑ سے نمٹنا ہو گا جو اس کے بائیکاٹ کا باعث بنی، اور اسے شامی عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لیے مثبت اقدامات کرنے ہوں گے۔"
الشرق مرکز برائے علاقائی و تضویری علوم کے محقق سامی غیئت نے المشرق کو بتایا، ”شام کی عرب لیگ میں واپسی اور عرب اور خلیجی ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات معمول پر آنے کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ شامی بحران کا خاتمہ ہو گیا ہے اور چیزیں واپس معمول پر آ جائیں گی،“۔
انہوں نے شام میں ایران اور روس سے منسلک ملشیا کی بھاری موجودگی، منشیات کی غیرقانونی تجارت، جس میں شامی حکومت بری طرح سے الجھی ہوئی ہے، شامی پناہ گزینوں کا جاری بحران اور مسلسل منظرِ عام پر آنے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب اشارہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر ان سے نہیں نمٹا جاتا تو تعلقات معمول پر لانے کی کوئی بھی کوشش بے کار ہو گی۔
غیئت نے کہا، ”امریکہ اور مغرب کی منظوری، مرضی اور شرکت کے بغیر شام میں چیزیں معمول پر آنا ناممکن ہے۔“
تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی کہ شام تاحال پابندیوں کے تحت ہے جس سے حالات معمول پر لانے کی کوششیں پیچیدہ ہو جائیں گی اور سرمایہ کاری میں رکاوٹ ہو گی، اور یہ کہ حالیہ علاقائی اور بین الاقوامی خدشات سے نمٹنے کے لیے حکومت کی آمادگی نہایت قابلِ اعتراض ہے۔
منشیات کی تجارت کا گڑھ
سعودی عسکری ماہر منصور الشہری نے المشرق کو بتایا کہ عرب حکومتیں منشیات سمگلنگ، بطورِ خاص کیپٹاگان پر کریک ڈاؤن کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہیں، جو کہ ”حالات معمول پر لانے کے لیے دشوار ترین آزمائش ہے۔“
سعودی حکام نے 10 مئی کو کہا کہ انہوں نے کافی کریمر کی ایک کھیپ میں چھپائی گئی آٹھ ملین سے زائد کیپٹاگان گولیاں ضبط کی ہیں، اور اس غیر قانونی آپریشن کے حوالے سے تین شامیوں اور دو پاکستانیوں کو گرفتار کر لیا ہے۔
الشہری نے کہا کہ کیپٹاگان کی تجارت حکومتِ شام کے لیے آمدنی کا ایک ناگزیر دھارا فراہم کرتی ہے، انہوں نے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کے خاتمہ سے شام کے اندر حلقہ ہائے رسوخ کے لیے شدید نتائج ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ منشیات کی غیر قانونی تجارت ”ملک میں تعینات متعدد ملشیا کے لیے ذریعۂ مالیات ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ الاسد کے بھائی مہر کی قیادت میں ان کے لیے بھی پیسے کا ایک ذریعہ ہے جو شام میں گہرے رسوخ کے حامل ہیں۔“
الشہری نے کہا کہ منشیات کی تجارت کے بغیر، مہرالاسد، جو منشیات کی تجارت میں ملوث روسی پشت پناہی کی حامل چوتھی ڈویژن کی قیادت کرتے ہیں، اپنی طاقت اور رسوخ کو کمزور ہوتے دیکھیں گے، اور ان کے ساتھ ساتھ حکومت کے متعدد اندر کے لوگوں کے ساتھ بھی یہی ہو گا۔
قاہرہ اساسی شامی قانوندان طاہر المصری نے المشرق کو بتایا کہ شامی صدر یقینی طور پر کیپٹاگان کی پیداوار اور ٹریفکنگ نیٹ ورک سے آگاہ ہیں۔
انہوں نے یہ حوالہ دیتے ہوئے کہ، منشیات کی تجارت کا خاتمہ کا مطلب ”ان کے اقتدار کا مکمل خاتمہ ہے“، کہا کہ الاسد اسے روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کر رہے ”کیوںکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ اسے اقتدار میں رکھے ہوئے ہے“۔
پناہ گزینوں کا مسئلہ
المصری نے کہا کہ شامی پناہ گزینوں کی واپسی صورتِ حال معمول پر آنے کی راہ میں ایک اور رکاوٹ ہے، متعدد دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر وہ وطن واپس لوٹنے پر مجبور کیے جاتے ہیں تو ان کی زندگیوں کو ممکنہ خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق، شامی 130 سے زائد ممالک کو فرار ہوئے ہیں، جن میں سے نمایاں ترین ترکیئے ہے، جس نے 3.6 ملین سے زائد کو پناہ دی ہے۔
یو این ایچ سی آر کی جانب سے مصر، لبنان، اردن اور عراق میں مقیم شامی پنا گزینوں کے 2022 میں کی جانے والی ایک رائے شماری کے مطابق، صرف 1.7 فیصد نے کہا کہ وہ آئندہ برس شام واپس لوٹ جائیں گے۔ تقریباً 93 فیصد نے کہا کہ وہ نہیں لوٹیں گے، اور 5.6 فیصد نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم۔
المصری نے کہا کہ تعلقات معمول پر لائے جانے اور امداد اور سرمایہ کاری کی فراہمی تب ہی حقیقی طور پر عمل میں لائی جا سکتی ہے جب پناہ گزینوں کا مسئلہ حل ہو جائے۔
انہوں نے کہا، ”یہ معاملہ آزادی، انسانی حقوق اور آزادیٔ اظہار کے ساتھ بھی بنیادی طور پر منسلک ہے، تاہم حکومتِ شام نے تاحال ایسی کوئی ضمانت فراہم نہیں کی۔“
انہوں نے مزید کہا، ”یہ ان وجوہات میں شامل تھیں جو سرے سے انقلابِ شام کے پھوٹ پڑنے کا باعث بنیں۔“
شمال مغربی شام کے صوبے ادلیب میں، جو بڑے پیمانے پر شدت پسند اتحاد کے زیرِ انتظام ہے، تحریر الشام پر بے گھر شامیوں نے اظہارِ مایوسی کیا۔
54 سالہ غس٘ان یوسف نے اے ایف پی کو بتایا، ”ہم گھروں سے نکلنے پر مجبور کر دیے گئے تھے۔“
”میں عرب حکمرانوں سے کہوں گا: آپ ہمیں کہاں لے جا رہے ہیں؟“