تجزیہ

شامی حکومت کی تشدد، استحصال کی مہم ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں سے جڑی ہے

پاکستان فارورڈ

ایک شامی قیدی حکومتی جیل سے رہائی کے بعد، 19 جولائی 2018 کو حلب کے جنوب میں، العیس کراسنگ پوائنٹ پہنچنے کے بعد، حزبِ مخالف کے جنگجوؤں کو اپنے زخم دکھا رہا ہے۔ [عمر حج قادور/ اے ایف پی]

ایک شامی قیدی حکومتی جیل سے رہائی کے بعد، 19 جولائی 2018 کو حلب کے جنوب میں، العیس کراسنگ پوائنٹ پہنچنے کے بعد، حزبِ مخالف کے جنگجوؤں کو اپنے زخم دکھا رہا ہے۔ [عمر حج قادور/ اے ایف پی]

اپنے توسیع پسندانہ ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے ایران، صدر بشار الاسد کی حکومت کو سہارا دینے کے لیے شام میں ملیشیاؤں کو بھیج کر، حکومت کی طرف سے شامی شہریوں کے قتلِ عام میں شریکِ جرم رہا ہے۔

تنازعہ کے آغاز سے لے کر اب تک ایران، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس (آئی آر جی سی- کیو ایف) جس کی قیادت، امریکہ کی طرف سے 3 جنوری کو بغداد میں حملے میں ہلاک کیے جانے سے پہلے تک، قاسم سلیمانی کے پاس تھی کے ذریعہ شام میں سرگرم رہا ہے۔

یہ ہلاکت، تہران کی طرف سے کئی دیہائیوں سے جاری اس مہم کے ایک اہم لمحے کی نشاندہی کرتی ہے، جس کا مقصد علاقے بھر میں عسکریت پسندی اور اختلافات کے بیج بونا ہے۔

آئی آر جی سی - کیو ایف اب اسماعیل کیانی کی زیرِ قیادت ہے جن کے بارے میں بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان میں اپنے پیشرو کے مقابلے میں طلسماتی کشش اور علاقائی علم کی کمی ہے مگر انہوں نے سلیمانی کے نقشِ قدم پر چلنے کے عزم کا اشارہ دیا ہے۔

شمال مغربی صوبہ ادلیب میں حزبِ مخالف کے زیرِ انتظام شہر دینا میں ایک شامی شخص، آئی آر جی سی قدس فورس کے سپہ سالار قاسم سلیمانی کی 3 جنوری کو ہلاکت کے موقع پر بچوں میں مٹھائی تقسیم کر رہا ہے۔ [عارف وتاد/ اے ایف پی]

شمال مغربی صوبہ ادلیب میں حزبِ مخالف کے زیرِ انتظام شہر دینا میں ایک شامی شخص، آئی آر جی سی قدس فورس کے سپہ سالار قاسم سلیمانی کی 3 جنوری کو ہلاکت کے موقع پر بچوں میں مٹھائی تقسیم کر رہا ہے۔ [عارف وتاد/ اے ایف پی]

شامی مدعا علیہ ایاد الغریب (بائیں) 23 اپریل کو کوبلینز، مغربی جرمنی میں، دو شامی مدعا علیہان کے خلاف مقدمے سے پہلے اپنے کُلا میں خود کو چھپا رہا ہے، جن پر شام میں ریاستی سرپرستی میں تشدد کرنے کا الزام ہے۔ [تھامس لوہنیس/ اے ایف پی/ پول]

شامی مدعا علیہ ایاد الغریب (بائیں) 23 اپریل کو کوبلینز، مغربی جرمنی میں، دو شامی مدعا علیہان کے خلاف مقدمے سے پہلے اپنے کُلا میں خود کو چھپا رہا ہے، جن پر شام میں ریاستی سرپرستی میں تشدد کرنے کا الزام ہے۔ [تھامس لوہنیس/ اے ایف پی/ پول]

آئی آر جی سی - کیو ایف کی طرف سے بنائی جانے والی اور ہدایت کردہ ملیشیائیں -- جن میں افغان جنگجوؤں پر مبنی فاطمیون ڈویژن بھی شامل ہے -- نے شامی حکومت کو اقتدار میں رکھنے اور اس کے مخالفین کو دبانے کے لیے، پوشیدہ اور کھلے عام دونوں طرح ہی مداخلت کی ہے۔

تنازعہ کو طول دینے اور گھمبیر بنانے کے علاوہ، اس نے شامی حکومت کو اپنے لوگوں کے ایسے استحصال کو جاری رکھنے کے قابل بنایا ہے جس کے ٹھیک ٹھاک دستاویزی ثبوت موجود ہیں، جس میں عام شہریوں پر کیمیائی حملے اور اپنی جیلوں میں تشدد شامل ہے۔

ان جرائم و دیگر پر شامی حکومت کو جوابدہ ٹھرانے اور غیر ملکی مداخلت، خصوصی طور پر ایران اور روس کی طرف سے، کو روکنے کے لیے، امریکی حکومت نے سیزَر سیرین سویلین پروٹیکشن ایکٹ آف 2019، جو کہ جون میں نافذ کیا گیا، منظور کیا۔

اس قانون کا نام شامی فوج کے ایک سابقہ فوٹو گرافر کے نام پر رکھا گیا ہے جو کہ "سیزَر" کی عرفیت سے جانا جاتا تھا۔ وہ 2013 میں شامی جیلوں میں ہونے والے مظالم کی 55,000 تصاویر کے ساتھ شام سے فرار ہو گیا تھا اور اس نے کانگرس کے سامنے گواہی بھی دی تھی۔

ان میں الاسد کی جیلوں کے اندر لی جانے والی تصاویر بھی شامل تھیں جن میں قیدیوں کی مسخ شدہ لاشیں دکھائی گئی تھیں جن کی پیشانیوں پر نمبر لکھے ہوئے تھے۔

اس سال مارچ میں دوبارہ گواہی دیتے ہوئے، سیزَر نے امریکہ اور عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ الاسد کی حکومت کی اس کے کاموں پر جوابدہی کرے۔

الاسد کے اتحادیوں کو نشانہ بنانے والی پابندیاں

سیزَر ایکٹ کے نفاذ کے بعد سے اب تک، امریکہ کے ٹریژری ڈپارٹمنٹ نے حکومت کی قریبی شخصیات جن میں الاسد کی اہلیہ اور ان کا نوعمر بیٹا بھی شامل ہے، کے خلاف بہت سی پابندیاں عائد کی ہیں۔

ان پابندیوں میں شام کے تیل کے شعبہ، قانون سازوں اور انٹیلیجنس کے افسران کو نشانہ بنایا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی نومبر میں لگائی جانے والی پابندیوں کا ایک سلسلہ بھی شامل ہے، جو اکتوبر 2015 کو دوما کے ایک بازار پر ہونے والے بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے 70 شہریوں کی یاد میں لگائی گئی تھیں۔

حکومت کے غیر ملکی سہولت کاروں کو بھی پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

الاسد کو جوابدہ قرار دیے جانے کے علاوہ یہ قانون، ایران اور روس کی طرف سے مداخلت کو روکنے اور انہیں منافع بخش تعمیراتی معاہدوں کے ذریعے شامی شہریوں کے استبداد، سے فائدہ اٹھانے سے روکنے، کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

اس نے خصوصی طور پر آئی آر جی سی کی حمایت یافتہ فاطمیون ڈویژن، آئی آر جی سی سے وابستہ دیگر دھڑوں اور اس کے ساتھ ساتھ روس کی طرف سے مالی طور پر اعانت کردہ ایسی ملیشیاؤں کو، جو شامی حکومت کی فورسز، خصوصی طور پر ملک کے جنوبی حصے میں، کی مدد کرتی ہیں، نشانہ بنایا ہے۔

ایرانی امور کے ماہر شیئر ترکو نے کہا کہ سیزَر ایکٹ کے تحت فاطمیون ڈویژن کو دیا جانے والا تقرر "آئی آر جی سی اور اس کی ملیشیاؤں کے لیے ایک شدید دھچکا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ امریکی ٹریژری نے آئی آر جی سی سے اس کے تعلقات اور دہشت گردانہ حملے کرنے پر، پہلے ہی جنوری 2019 میں ملیشیا کا تقرر کیا تھا۔

نئی پابندیاں آئی آر جی سی کی طرف سے "اپنے تویسع پسندانہ منصوبوں کو نافذ کرنے" کے لیے غیر ملکی پراکسیوں کے استعمال کو چیلنج کریں گی اور فاطمیون جیسی ملیشیاؤں کے لیے نئے رکاوٹیں پیدا کریں گی۔

ترکو نے کہا کہ ملیشیاء آج تک، شام کے کلیدی علاقوں -- جیسے کہ دمشق، دیرالزور، حلب اور پاممیرا --- میں اپنی تعیناتی سے حکومت کی بقاء کو یقینی بنانے کے لیے اہم کردار کرتی رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ فاطمیون کو اس کے سپہ سالاروں اور جنگجوؤں پر پابندیاں لگانے سے کمزور کرنا، آئی آر جی سی کے ایجنڈا کو کمزورکر دے گا اور یقینی طور پر حکومت کو فراہم کی جانے والی حمایت کا خاتمہ کر دے گا۔

الشرق سینٹر فار ریجنل اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز میں ایرانی امور کے ایک محقق فتحی ال سید نے کہا کہ آئی آر جی سی کی مالی اعانت کردہ ملیشیاؤں نے شامی تنازعہ کو بھڑکانے اور الاسد کی حکومت کو اقتدار میں رکھنے کے لیے، اسے ایک فرقہ وارنہ کشمکش میں بدل دینے میں، مرکزی کردار ادا کیا ہے۔

انہوں نے ملیشیاؤں کو حکومت کے جرائم میں شراکت دار کے طور پر بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس دخل اندازی کے بغیر، شامی حکومت آج اقتدار میں نہ ہوتی۔

حکومت کے جرائم کے نئے ثبوت

سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے تخمینہ لگایا ہے کہ کم از کم 100,000 افراد تشدد یا حکومت کی جیلوں میں موجود لرزہ انگیز حالات کے نتیجہ میں ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 2011 سے اب تک تقریبا پانچ لاکھ افراد شامی جیلوں میں رہ چکے ہیں۔

شامی حکومت کے جرائم کے تازہ ترین شواہد مسلسل سامنے آ رہے ہیں۔

پیر (21 دسمبر) کو جرمنی کے مستغیثین نے اعلان کیا کہ جرمنی میں رہنے والے ایک شامی ڈاکٹر، جسے جون میں شام میں انسانیت کے خلاف جرائم کرنے کے شبہ میں گرفتار کیا گیا تھا، کو اضافی الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اے ایف پی نے خبر دی ہے کہ "علاء ایم" پر پہلے حمص کے شہر میں شامی انٹیلیجنس سروسز کی طرف سے چلائی جانے والی ایک جیل میں 2011 میں قیدیوں پر تشدد کرنے کے دو واقعات کے سلسلے میں مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔

مگر مستغیثین کا کہنا ہے کہ اب اس پر زیادہ خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا ہے جس میں مبینہ طور پر ایک شخص کو ہلاک کرنا اور تشدد کے دیگر 18 واقعات شامل ہیں۔

علاء ایم، حمص میں ایک فوجی جیل میں ڈاکٹر تھا، جب اس نے مبینہ طور پر بھیانک ظلم کیے جن میں نوعمر افراد کے اعضائے تناسل کو آگ لگانا شامل ہے۔

اس نے 2012 میں ایک ایسا قیدی ڈھونڈا جس کے زخم خراب ہو چکے تھے اور جسے فوجی ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ دیگر دو افسران کے ساتھ اس نے مبینہ طور پر قیدی کو مارا پیٹا اور اس کو آگ لگانے سے پہلے اس کے زخموں پر آتش گیر مواد ڈالا۔ اس کے بعد قیدی ہوش و حواس کھو بیٹھا۔

علاء ایم پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ کچھ دنوں کے بعد، قیدی کے قید خانہ میں گیا جہاں اس نے دیگر 20 قیدیوں کو مارا پیٹا۔

ان میں سے ایک نے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی۔

مستغیثین کا کہنا ہے کہ "کچھ دیر بعد ہی، مدعا علیہ نے اس کے بازو میں زہر سے بھرا ٹیکہ لگا دیا جس سے وہ کچھ لمحوں کے بعد ہی وفات پا گیا"۔

اپریل میں، جرمنی میں الاسد کی حکومت کی طرف سے ریاستی سرپرستی میں کیے جانے والے تشدد کے بارے میں، دنیا بھر میں پہلے مقدمے کا آغاز اس وقت کیا گیا جب ملزمان کی طرف، ان کے متاثرین نے حکام کی توجہ دلائی۔

دو مدعا علیہان، شام کے سابقہ انٹیلیجنس افسران انور رسلان اور عیاد ال غریب کے خلاف عالمی دائرہ اختیار کے اصول پر مقدمہ چلایا گیا، جو انسانیت کے خلاف جرائم پر ایک غیر ملک کو مقدمہ چلانے کی اجازت دیتا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500