نوجوان

سابق فاطمیون جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ اس ملشیا نے شامی نوجوانوں کو فریب دیا اور وعدہ شکنی کی

ولید عبدالخیر

ایک پراپیگنڈا ویڈو سے ایک سکرین شاٹ میں 2021 میں فاطمیون ڈویژن کے عناصر یہاں پالمیئرا کے شہر کے قریب شام کے مشرقی صحرا (بادیہ) میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

ایک پراپیگنڈا ویڈو سے ایک سکرین شاٹ میں 2021 میں فاطمیون ڈویژن کے عناصر یہاں پالمیئرا کے شہر کے قریب شام کے مشرقی صحرا (بادیہ) میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

اپنے متعدد ساتھیوں کی طرح ایک 25 سالہ سابق فاطمیون ڈویژن جنگجو اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکا کیوں کہ شامی تنازع نے اس کے آبائی وطن دیئر ایزور کو کھنگال کر رکھ دیا اور بالآکر اسے اس علاقہ سے فرار ہونا پڑا۔

لیکن شامی حکومتی افواج اور متحدہ ملشیا کی جانب سے علاقہ کا انتظام سنبھال لیے جانے کے بعد، مصطفیٰ اللہیب کے فرضی نام کے حامل اس نوجوان نے سوچا کہ اس کے پاس ملازمت اور استحکام کا ایک موقع ہے۔

اس نے المشرق سے بات کرتے ہوئے کہا، ”حکومت نے دیئر ایزور اور البوکمال کے بے گھر باشندوں کی جائے سکونت کے علاقہ میں اپنے سفیر بھیجے تاکہ انہیں رضاکارانہ طور پر واپس آنے پر آمادہ کر سکیں۔“

اس نے کہا، ”انہوں نے وعدہ کیا کہ سیکیورٹی فورسز انہیں حراساں نہیں کریں گی اور نہ ہی زبردستی عسکری خدمات میں لائیں گے۔“

ایک پراپیگنڈا ویڈیو سے ایک سکرین شاٹ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ 2021 میں فاطمیون ڈویژن کے عناصر شام کے مشرقی صحرا (بادیہ) میں ایک عسکری جلوس میں شریک ہیں۔

ایک پراپیگنڈا ویڈیو سے ایک سکرین شاٹ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ 2021 میں فاطمیون ڈویژن کے عناصر شام کے مشرقی صحرا (بادیہ) میں ایک عسکری جلوس میں شریک ہیں۔

6 اگست کو فاطمیون ڈویژن کے ارکان ایک تقریب میں شریک ہیں۔ [فاطمیون ٹیلیگرام اکاؤنٹ]

6 اگست کو فاطمیون ڈویژن کے ارکان ایک تقریب میں شریک ہیں۔ [فاطمیون ٹیلیگرام اکاؤنٹ]

اس نے کہا کہ مندوبین نے نوجوان شامیوں کو ملازمتیں دینے کا وعدہ کیا، اس نے مزید کہا کہ یہ خالی وعدہ ہی ثابت ہوئے، کیوں کہ واپس آنے پر نوجوانوں کو تاحال حکومت کی سیکیورٹی فورسز فوج میں شمولیت کے لیے کہہ رہی تھیں۔

اللہیب نے کہا کہ قریباً اسی وقت سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی سے منسلک ملشیا نوجوانوں سے اچھی تنخواہوں اور حکومت سے عام معافی کے وعدے پر ان کے ساتھ شامل ہونے کا کہتے ہوئے ان کے پاس پہنچنا شروع کیا۔

ملشیا کے اندر پھوٹ

اس نے کہا، ”میں نے قریباً ڈیڑھ برس قبل شامل ہونے والے اکثر نوجوانوں کی طرح اس اتفاقِ رائے کے ساتھ فاطمیون ملشیا میں شمولیت اختیار کی کہ میں اپنے خاندان کے قریب رہتے ہوئے دیئر ایزور کے نواح میں کام کے اوقاتِ کار صرف کروں گا۔“

اللہیب نے کہا کہ اگرچہ فاطمیون ڈویژن نے ملشیا کے شامی عناصر کو ان کی رہائش کے علاقوں کے قریب تعینات کرنے کا وعدہ کیا تھا، ”ہمیں بادیہ (مشرقی صحرا) کے مختلف علاقوں میں بھیج دیا گیا۔“

اس نے مزید کہا، ”ہماری چوکیاں خطرناک سڑکوں کے قریب تھیں، جنہں ایندھن جیسا مال لے جانے والے کانوائے استعمال کرتے تھے، جن پر کبھی کبھار دہشتگرد حملہ آور ہو جاتے، اس سے ہم خطرے سے دوچار تھے اور زخمی ہونے یا موت تک کے واقعات ہو جاتے۔“

اسے جلد ہی احساس ہو گیا کہ فاطمیون ڈویژن کے اندر شامیوں کو تیسرے درجے کے عناصر سمجھا جاتا تھا، جبکہ ملشیا کے اندر لبنانیوں اور افغانیوں کے ساتھ بالترتیب پہلے اور دوسرے درجے کے عناصر کا سا سلوک ہوتا۔

مزید برآں اسے معلوم ہوا کہ شامی ملشیا کے عناصر کو شامی ملشیا کے عناصر پر فاطمیوں ڈویژن کے مقبوضہ اور زیرِ انتظام علاقوں میں داخلہ کی ممانعت تھی، جہاں صرف لبنانی اور افغان عناصر کو اجازت تھی۔

اس نے افغان عناصر کی جانب سے منعقدہ مذہبی تقاریب کے شامی عناصر کی حدود سے باہر ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس معمول اور دیگر معمولات نے ملشیا کے اندر پھوٹ ڈال دی۔

اللہیب نے کہا کہ ملشیا میں داخلہ کے لیے مقبول ہونے کے شرط کے طور پر اسے اور اس کے خاندان کو لازماً ثقافتی اور مذہبی کورس کرنا تھے جن کی طرز جابرانہ اور فرقہ ورانہ تھی۔

اس نے کہا کہ اس کے بچوں کو جبراً سکاوٹنگ اور مذہبی کورس کرائے گئے، اس نے حوالہ دیا کہ اس قسم کی مذہبی اور ثقافتی دماغ شوئی کے ذریعے، ”دیئر ایزور کی عوام کو زبردستی فرقہ تبدیل کرائے جانے کا سامنا تھا۔“

اس نے کہا کہ بطورِ خاص نابالغوں اور نوجوان بالغوں کو جبراً فاطمیون طرزِ فکر ذہن نشین کرائی جاتی ہے، اور ولایت الفقیہ ( قاضی کی سرپرستی ) کا عقیدہ، جو ایرانی رہنما علی خامنہ ای کی اطاعت کا متقاضی ہے۔

دیئر ایزور میں آئی آر جی سی کا رسوخ

اللہیب نے کہا کہ شامی پرچم اور شامی صدر بشار الاسد کی تصاویر، جو متعدد چوکیوں پر دیکھی جا سکتی ہیں، کی نمائش کے باوجود دیئر ایزور کے علاقہ بالکل بھی شامی حکومت کے زیرِ انتظام نہیں۔

اس نے کہا کہ اس کے بجائے یہ آئی آر جی سی کے زیرِ انتظام ہے، اور شامی حکومت کی چند چوکیوں کی موجودگی ”ان ملشیا کی موجودگی کے لیے ایک ڈھال کے سوا کچھ نہیں۔“

اس نے کہا کہ اس کی بھرتی کے وقت فاطمیون ڈویژن نے اسے بتایا کہ وہ 150 ڈالر ماہانہ کمائے گا اور اسے خوراک اور طبی نگہداشت فراہم کی جائے گی۔ لیکن، اس نے کہا کہ اسے صرف 40 ڈالر ملے اور ادائگیاں بعض اوقات تین ماہ تک طوالت کا شکار ہو جاتیں۔

اس نے مزید کہا کہ خوراک صرف تین ماہ بعد تقسیم کی جاتی یا پھر مذہبی مواقع پر اور اس ملشیا کی مذہبی تقاریب میں شرکت پر مشروط ہوتی۔

اللہیب نے کہا کہ جب وہ فاطمیون ڈویژن کے وعدوں کی کذب بیانی سے مکمل طور پر آگاہ ہو گیا، تو اس نے ایک مقامی قبیلہ کے ایک بااثر رکن کی مدد طلب کی، جس نے اس کے استعفیٰ اور بالآخر ملشیا سے روانگی سے متعلق ثالثی کا کردار ادا کیا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500