سیاست

روس کا ویگنر گروہ سوڈان میں تنازع کو بھڑکا رہا ہے

مصطفیٰ عمر

17 اپریل کو خرطوم کے جنوب میں دار المصحف (افریقہ میں ناشرانِ قرآن) کے دفتر کے باہر سوڈان ریپڈ سپورٹ فورسز پیراملٹریز کا ایک بندوق بردار ٹرک تعینات ہے۔ ]اے ایف پی[

17 اپریل کو خرطوم کے جنوب میں دار المصحف (افریقہ میں ناشرانِ قرآن) کے دفتر کے باہر سوڈان ریپڈ سپورٹ فورسز پیراملٹریز کا ایک بندوق بردار ٹرک تعینات ہے۔ ]اے ایف پی[

تواکچوت، موریتانیہ – ویگنر گروہ کے زرپرست سوڈان میں تیزی سے بڑھتے ہوئے تنازع میں مداخلت کر رہے ہیں، جہاں متعدد سوڈانیوں کے مطابق، یہ افواہیں گردش میں ہیں کہ وہ طرفین میں سے ایک کی معاونت کر رہے ہیں۔

یہ تنازعہ رواں ماہ میں قبل ازاں دو سابقہ اتحادی جرنیلوں: پیراملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے سربراہ جنرل محمّد حمدان، یا حمیدتی؛ اور عسکری سربراہ جنرل عبد الفتح البرہان کے مابین شروع ہوا۔

دونوں نے 2021 میں ایک بغاوت کی جس کے نتیجہ میں حکومت گر گئی لیکن تب سے اقتدار کی ایک جنگ میں الجھے ہوئے ہیں، جس میں برہان موثر سربراہِ ریاست کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور حمیدتی اپنی فورسز کو فوج میں ضم کرنے کے خواہاں ہیں۔

اے ایف پی نے خبر دی کہ روسی زرپرست ویگنر گروہ کئی برسوں سے سوڈان میں موجود ہے تاہم اس نے سونے سے مالامال اس ملک میں اپنے مفادات کو بچائے رکھنے کے لیے حالیہ تصادم کے دوران کنارہ کش رہا۔

9 فروری کو سوڈان کے ایک سرکاری دورے پر روس کے وزیرِ خارجہ سرگی لاوروف خرطوم میں ایک نیوز کانفرنس کر رہے ہیں۔ ]اشرف شازلے/اے ایف پی[

9 فروری کو سوڈان کے ایک سرکاری دورے پر روس کے وزیرِ خارجہ سرگی لاوروف خرطوم میں ایک نیوز کانفرنس کر رہے ہیں۔ ]اشرف شازلے/اے ایف پی[

4 نومبر کو سینٹ پیٹرزبرگ، روس میں لوگ ویگنر گروہ کے بانی ییوگینی پریگوژِن سے منسوب آفس بلاک 'پی ایم سی ویگنر سنٹر' کے افتتاح کے دوران اس کے دفتر میں بیٹھے ہیں۔ ]اولگا مالتسیوا/اے ایف پی[

4 نومبر کو سینٹ پیٹرزبرگ، روس میں لوگ ویگنر گروہ کے بانی ییوگینی پریگوژِن سے منسوب آفس بلاک 'پی ایم سی ویگنر سنٹر' کے افتتاح کے دوران اس کے دفتر میں بیٹھے ہیں۔ ]اولگا مالتسیوا/اے ایف پی[

متعدد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ویگنر گروہ کے بانی ییوگینی پریگوژِن ممکنہ طور پر کسی فریق کے انتخاب سے قبل اس لڑائی کے نتائج کے منتظر ہیں۔

چند سکالر، جن میں مرکز برائے تضویری و بین الاقوامی علوم کی کترینہ ڈوکسی شامل ہیں، کہتے ہیں کہ ویگنر گروہ ”اس حالیہ تنازع میں ممکنہ طور پر موقع پرستانہ اصول اپنائے گا۔“

لیکن دیگر ان علامات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ ویگنر گروہ نے پہلے ہی ایک فریق منتخب کر لیا ہے، جبکہ چند خبریں دعویٰ کرتی ہیں کہ اس نے حمیدتی کی آر ایس ایف کو ہتھیار فراہم کیے ہیں۔

ایک سوڈانی صحافی، جنہوں نے اپنا نام نہ بتانے کا کہا، نے المشرق کو بتایا، "سوڈان میں عسکری امور سے واقف متعدد افراد عسکری دھڑوں کے مابین تنازع کو بھڑکانے اور طول دینے میں روس کے کردار سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔"

اس ذریعہ نے کہا، "اگر ویگنر عناصر کھلے بندوں ایک فریق کی حمایت میں ہتھیار نہ بھی استعمال کر رہے ہوں، پھر بھی یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ وہ دوسرے فریق کو لاجسٹک معاونت اور فیلڈ انفارمیشن فراہم کر رہے ہیں۔"

انہوں نے کہا، ”سوڈانی عوام میں دن بہ دن یہ خوف بڑھ رہا ہے کہ کہیں سوڈان میں ممکنہ طور پر لیبیا اور مالی کی صورتِ حال نہ دہرائی جائے۔“

ویگنر گروہ افریقہ میں استحصال کے لیے وسائل سے مالامال ممالک کو ہدف بناتا ہے۔

مالی میں ویگنر زرپرست ملک کی دولت لوٹتے ہوئے دہشتگردی کے خلاف لڑائی کے بھیس میں روسی مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔ ورلڈ اٹلس کے مطابق، مالی کے پاس "سونے، یورینیئم، ہیروں" اور دیگر مادّوں کے بیش بہا ذخائر ہیں۔

لیبیا میں یہ گروہ فوج کی طاقتور شخصیت خلیفہ ہفتار کی حمایت کرتے ہوئے اس تنازع کو برِّ اعظم افریقہ تک رسائی کو توسیع دینے کے لیے موقع کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ لیبیا کے پاس افریقہ میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر ہیں۔

ویگنر گروہ کے زرپرست وسط افریقی جمہوریہ (سی اے آر) کی افواج کے ہمراہ بھی لڑ رہے ہیں، جس کے پاس ہیرے ہیں۔

جبکہ سوڈان کے پاس سونا ہے۔

'پاتال کا کنارہ'

لڑائی میں کسی بھی اضافے کے پیشِ نظر، بین الاقوامی سفارتی مشنز کے انخلاء میں تیزی سے پیشرفت ہو رہی ہے، جبکہ عالمی رہنما سوڈان میں تشدد کے خاتمہ کا مطالبہ کر رہے ہیں اور دور رس نتائج کی تنبیہ کر رہے ہیں۔

امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے 24 اپریل کو سوڈان میں ویگنر گروہ کے زرپرستوں سے متعلق اپنے – اور "متعدد دیگر ممالک" کے – خدشات کا اظہار کیا۔

بلنکن میں واشنگٹن میں کینیا کے کیبنٹ سیکریٹری برائے امورِ خارجہ و تارکینِ وطن کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران کہا، ”ہمیں سوڈان میں پریگوژین گروہ، ویگنر گروہ کی سرگرمیوں سے متعلق گہرے خدشات ہیں۔“

انہوں نے کہا، "یہ افریقہ میں متعدد مختلف ممالک میں ہے – ایک ایسا عنصر ہے جو جب تک سرگرم رہتا ہے، مختصراً زیادہ موت اور تباہی لاتا ہے۔ اور یہ نہایت اہم ہے کہ ہم سوڈان میں اس کی مزید سرگرمی نہ دیکھیں۔"

موتوا نے یہ حوالہ دیتے ہوئے کہ غیرملکی کھلاڑی "سوڈان کو میدان کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں"، کہا کہا، ”اس خاص وقت پر، یہ کسی جنگ میں فریق بننے کا موقع نہیں۔“

انہوں نے کہا، "ہم بیرونی قوتوں کو سوڈان کو اپنے حال پر چھوڑ دینے کا کہہ رہے ہیں۔"

پیر کے روز اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرّیریس نے بھی تنبیہ کی کہ سوڈان میں تنازع پورے خطے اور اس سے بھی ماورا کو نرغے میں لے سکتا ہے۔

انہوں نے کہا، "صورتِ حال ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ 15 اپریل کو لڑائی کے آغاز سے اب تک سینکڑوں افراد قتل اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔"

گوتیرّیریس نے کہا، "ہم سب کو سوڈان کو پاتال کے کنارے سے واپس لانے کے لیے وہ سب کرنا ہو گا جو ہمارے اختیار میں ہے۔"

ویگنرز کی عمیق موجودگی

سوڈانی سیاسی تجزیہ کار ابوالنصر الحج نے کہا، "سوڈانی عوام آج عمر حسن البشیر کی حکومت کی غلطی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، جب انہوں نے 2004 میں ویگنر عناصر سے آر ایس ایف کو تربیت دینے کا کام سوںپا۔"

البشیر حکومت نے دارفر میں جنگ لڑنے کے لیے فوج کی استعداد میں بہتری کے لیے اس تربیت کا کہا۔

الحج نے المشرق سے بات کرتے ہوئے کہا، "آج ہم ان غلطیوں کی قیمت چکا رہے ہیں، جنہیں کم از کم تنگ نظری یا ہلکے فوائد حاصل کرنے کے نتیجہ کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔"

تنازعہ کے فریقین میں سے ایک ساتھ منسلک ایک اخبار کے ایک نامور صحافی نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھی جانے کی شرط پر سوڈان میں حالیہ تنازع میں روس کے ملوث ہونے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ”آج صورتِ حال نہایت پیچیدہ ہے۔“

انہوں نے کہا، ”سطحی طور پر ہم فوج اور آر ایس ایف کے مابین مسلح ٹکراؤ دیکھ رہے ہیں، لیکن گہرائی میں یہ ایک جانب اسلام پسند گروہ اور دوسری جانب حمیدتی اور ویگنر عناصر کے مابین ایک لڑائی ہے۔“

سابقہ خبروں میں حوالہ دیا گیا ہے کہ افریقہ میں سوڈان سے مغرب کی جانب ساحل کے علاقوں میں روسی تسلط قائم کرنے کے کریملین کے منصوبوں کے جزُ کے طور پر سوڈان میں ویگنر گروہ کے زرپرستوں کی قوی موجودگی ہے۔

سیاسی تجزیہ کار بشیر اؤلد احمداؤ نے المشرق سے بات کرتے ہوئے کہا، ”آج مالی میں روسی مداخلت اور برکینافاسو سے اس کے مستحکم تعلقات کئی برس قبل مرتب کی گئی روسی حکمتِ عملی کا جزُ ہیں۔“

انہوں نے کہا، ”روسی موقع بنیادی طور پر قانونی حیثیت کے فقدان کی حامل عسکری قیادت کی جانب سے فوجی بغاوتوں یا سیکیورٹی کی ابتری پر منحصر ہوتا ہے، جس میں ماسکو اپنے آپ کو مغربی ممالک کے ایک متبادل کے طور پر پیش کرتا ہے۔“

اس نے مالی میں ایسا کیا ہے، جہاں اس نے مغرب پر عوام کو اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے سے روکنے کا الزام لگایا، اور یہ ساحل کے خطے میں ایک سے زائد ممالک میں اسے دہرانا چاہتا ہے۔

سوڈانی سونا

تجزیہ کار عبدالمنیم ابو ادریس علی نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ روس تضوویری محلِ وقوع کے حامل سوڈان سے اپنے تعلقات مستحکم کر رہا ہے اور اس کے قدرتی وسائل، بطورِ خاص سونے کی کانوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

انہوں نے کہا، یہ اس وقت ہو رہا ہے ”جب روس یوکرین پر حملے کے بعد خود کو مزید تنہا پا رہا ہے، جبکہ خرطوم 2019 میں عمر البشیر کی حکومت کو گرانے کے بعد مغربی حمایت کھو رہا تھا۔“

روس نے البشیر کی تین دہائی پر مشتمل حکمرانی کے دوران بطورِ خاص اقوامِ متحدہ کی جانب سے 2005 کے دارفر تنازعہ پر اس ملک پر پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد سوڈان کو اسلحہ فراہم کیا۔

کئی ماہ کے احتجاج کے بعد 2019 میں فوج کی جانب سے البشیر کی حکومت گرائے جانے کے بعد، خرطوم اور ماسکو کے مابین تعلقات بظاہر خراب ہو گئے۔

سوڈانی محقق احمد آدم حسین نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب روس وسطی اور مغربی افریقہ میں راستہ پانے کے لیے بحیرۂ اسود پر ایک چھاؤنی قائم کرنے کا متلاشی ہے۔

حالیہ برسوں میں اس تضویری آبی گزرگاہ نے اپنی جغرافیائی سیاسی اور عسکری اہمیت کی وجہ سے بین الاقوامی توجہ حاصل کی ہے، جبکہ ایران اور چین جیسی علاقائی اور عالمی طاقتیں اس راہداری میں اپنی موجودگی اور سرگرمیاں وسیع کرنے پر کام کر رہی ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500