اطالوی حکومت کے دو وزراء نے حال ہی میں کیے جانے والے ایک تبصرے میں، کریملن سے وابستہ ویگنر گروپ کو، افریقہ سے اٹلی کی طرف ہجرت میں اضافے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اسے "دوغلی جنگ کی واضح حکمت عملی" قرار دیا۔
انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کے اتحادی، روسی تاجر یوگینی پریگوزین کی سربراہی میں کام کرنے والےکرائے کے گروہ پر الزام لگایا کہ وہ بحیرہ روم کو عبور کرنے کی کوشش کرنے والی تارکینِ وطن کی کشتیوں کی تعداد میں اضافے کے پیچھے ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ افریقی ممالک، جہاں ویگنر گروپ موجود ہے، سے یورپ کی طرف ہجرت کی کوششوں میں واضح اضافہ، یوکرین کی حمایت کرنے والے ممالک کے خلاف جوابی کارروائی کی روسی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔
ان کے یہ تبصرے، حالیہ ہفتوں میں اطالوی ساحلوں پر پہنچنے والے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد میں آمد کے بعد ہیں۔
خبر رساں ایجنسیوں نے 13 مارچ کو خبر دی کہ اس سال اب تک 20,000 سے زیادہ تارکینِ وطن اٹلی پہنچے ہیں، جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے دوران درج کی جانے والی تعداد سے تین گنا زیادہ ہے۔
ان میں سے زیادہ تر، تیونس اور لیبیا کے شمالی افریقی ساحلوں سے، کھچا کھچ بھری کشتیوں میں روانہ ہوئے اور کئی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
دوغلی جنگ
خبر رساں اداروں نے خبر دی کہ اطالوی وزیرِ دفاع گائیڈو کروسیٹو نے "افریقی ساحلوں سے نقل مکانی کے رجحان میں غیر معمولی اضافے" کی وجہ ویگنر گروپ کی طرف سے "کچھ افریقی ممالک میں اپنی قابلِ قدر طاقت کو استعمال کرتے ہوئے" "دوغلی جنگ کی واضح حکمت عملی" قرار دیا۔
اطالوی وزیر خارجہ انتونیو تاجانی نے بھی نقل مکانی میں اضافے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے تارکین وطن "وگنر گروپ کے دائرہ کار میں موجود" علاقوں سے اٹلی آ رہے ہیں۔
پریگوزین نے ٹیلیگرام پر غصے سے بھرے ایک پیغام میں جوابی ردعمل جاری کیا۔
انہوں نے کہا کہ "ہمیں نہیں معلوم کہ تارکین وطن کے بحران کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؛ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔"
ویگنر کے ایسے ہزاروں کرائے کے فوجی، بہت سے افریقی ممالک میں سرگرم ہیں، جو روس کے سیاسی اور کاروباری مفادات کی حمایت کرتے ہیں۔
ویگنر سے تعلق رکھنے والے کم از کم 1,200 کرائے کے فوجی، 2018 سے لیبیا میں روس کی حمایت یافتہ لیبیائی نیشنل آرمی کی حوصلہ افزائی کے لیے لڑ رہے ہیں، جن کی قیادت طاقتور جنرل خلیفہ حفتر کر رہے ہیں۔
وسطی افریقی جمہوریہ (سی اے آر) میں، 1,890 نام نہاد "روسی معلم" اس وقت جاری خانہ جنگی میں سرکاری فوجیوں کی مدد کر رہے ہیں۔
ویگنر کے جنگجوؤں پر، سی اے آر میں مسلح سرگرمیوں میں ملوث ہونے، ملک کے سونے اور ہیرے کے وسائل کا استحصال کرنے اور سی اے آر سے قیدیوں کو بھرتی کرنے اور ڈونباس، یوکرین میں لڑنے کے لیے بھیجنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
ویگنر کے کرائے کے فوجیوں پر اس ماہ کے شروع میں سی اے آر کے دارالحکومت بنگوئی میں ایک فرانسیسی شراب خانے پر آتش زنی کا حملہ کرنے کا الزام ہے۔ اس واقعہ سے واقف ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ حملہ سی اے آر میں روسی اثر و رسوخ پیدا کرنے کے لیے ایک بے رحم مہم کی علامت ہے۔
مالی میں، روس نواز جنتا بھی سینکڑوں ویگنر جنگجوؤں کو ملک میں لائی ہے۔
ویگنر کے جنگجوؤں پر جنگی جرائم، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور افریقہ بھر کے ممالک -- چاڈ، سوڈان اور موزمبیق -- اور ان کے ساتھ ساتھ شام، وینزویلا اور یوکرین کے تنازعات میں مداخلت کرنے کا الزام ہے۔
افریقہ سے آگے بھی اثرات
ایسے غریب افریقی ممالک، جن میں بے تحاشا قدرتی وسائل موجود ہیں، میں عدم استحکام کو ہوا دے کر، ویگنر گروپ روس کی بدعنوان حکومتوں کی حمایت کرنے سے حاصل ہونے والے فوائد اکٹھے کرنے میں مدد کر رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس مذموم سازش کے ایک حصے کے طور پر، یہ یورپی یونین (ای یو) میں معاشی مشکلات اور سیاسی کشمکش کا باعث بن رہا ہے۔
ایسے ہزاروں مایوس افریقی جو کھچا کھچ بھرے جہازوں کے ذریعے، بحیرہ روم کے مشکل راستے کو عبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اس کی ادائیگی اکثر اپنی جانوں سے کرتے ہیں اور یہ مسئلہ یورپی یونین کی سیاست میں ایک متنازعہ مسئلہ بن گیا ہے۔
موریطانیہ کے صحافی قرینی امینو نے کہا کہ کروسیٹو کے بیانات سے آشکار ہوتا ہے کہ افریقہ میں روس کی مداخلت اب صرف ان افریقی ممالک تک محدود نہیں رہی جن کے ساتھ کریملن کے تعلقات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "روسی حملے کے اثرات افریقی براعظم کی سرحدوں سے آگے بڑھ چکے ہیں۔"
موریطانیہ کے سیاسی تجزیہ کار بشیر اولد بابانا نے کہا کہ یورپی یونین کے خلاف روس کی حکمت عملی کو، مختلف طریقوں سے انجام دیا جاتا ہے، جس میں افریقہ میں اس کی موجودگی کے نتیجے میں غیر قانونی نقل مکانی کو آسان بنانا بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ روس ایسے ممالک جہاں اس کی فعال موجودگی ہے، سے تارکین وطن کے بہاؤ کو ایسے افریقی ساحلوں تک پہنچانے کے لیے سہولت کاری فراہم کر رہا ہے جہاں حفاظتی اقدامات کمزور ہیں، جیسا کہ لیبیا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ہی، کریملن اندرونِ ملک نقل مکانی اور نقل مکانی کو ہوا دینے کے لیے افریقہ کے کمزور علاقوں میں سلامتی کی صورتحال کو مزید کمزور کر رہا ہے۔