نواکشوٹ، موریطانیہ -- تجزیہ کاروں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ یوکرین میں امن بحالی کی ثالثی کے لیے افریقی مشن سے کوئی ٹھوس نتائج یا مراعات حاصل نہیں ہوئے جس سے افریقی براعظم پر یوکرین کے خلاف روسی جنگ کے اثرات کو کم کیا جائے۔
انہوں نے یوکرین کے دارالحکومت کیو اور روسی شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں جون کے وسط میں ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کی وجہ تنازع کے خاتمے کے لیے تمام تجاویز سے متعلق روسی صدر ولادیمیر پوتن کی مسلسل ہٹ دھرمی کو قرار دیا۔
اعلیٰ سطحی وفد - جس میں جنوبی افریقہ، سینیگل، کوموروس اور زیمبیا کے صدور کے ساتھ ساتھ یوگنڈا، مصر اور کانگو-برازاویل کے اعلیٰ حکام بھی شامل تھے - انہوں نے 16 جون کو یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ملاقات کی۔
وہ 17 جون کو پوتن سے بات کرنے کے لیے روس چلے گئے تھے۔
افریقی ممالک اب بھی اناج اور کھاد کی اونچی قیمتوں کا شکار ہیں، کیونکہ وہ ان مواد کا بڑا حصہ روس اور یوکرین سے درآمد کرتے ہیں۔
ماسکو افریقی ممالک کو یہ باور کرا کر غذائی بحران کا الزام ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے کہ روس کے خلاف مغربی پابندیاں اناج اور کیمیائی کھاد کی برآمدات میں رکاوٹ ہیں۔
یہ مغربی سامراج کے خلاف اپنے آپ کو ایک محافظ کے طور پر پیش کرکے افریقی رہنماؤں کو گھیرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
نائجیریا کے صحافی موسیٰ میگا نے المشارق سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “یہ واضح ہے کہ روسی صدر کو اس غیر منصفانہ جنگ کے نتیجے میں گندم کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے افریقی ممالک کے مصائب کی کوئی پرواہ نہیں ہے”۔
انہوں نے کہا کہ پوتن "افریقہ کے ذخائر سے فائدہ اٹھانے کے خواہشمند ہیں، جن میں یورینیم، سونا اور ساتھ ہی ساتھ کچھ افریقی ممالک میں مبینہ سیکورٹی خدمات کے بدلے واگنر گروپ کو ملنے والی رقم کا کچھ حصہ بھی شامل ہے"۔
میگا نے کہا کہ ماسکو کے ساتھ معاملات کرنے والے افریقی ممالک یوکرینی جنگ کے نتیجے میں ان کی اپنی عوام کو پہنچنے والے نتائج کے لیے بڑی حد تک ذمہ دار ہیں۔
جب تک کہ بعض افریقی رہنما غیرجانبداری برقرار رکھنے کے بہانے یوکرین کے خلاف پوتن کی جنگ کی مذمت کرنے سے انکار کرتے رہیں گے اور جب تک وہ ویگنر گروپ کے ذریعے اس کی حمایت پر بھروسہ کرتے رہیں گے اور اس گروپ کو یورینیم اور سونے کی کانوں سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دیتے رہیں گے، تب تک ان کے ملک کے لوگ نقصان اٹھاتے رہیں گے۔ "
دریں اثنا، واگنر گروپ اور روسی حکومت کے درمیان حالیہ تعطل نے افریقی ممالک میں زرخرید گروپ کے ساتھ شراکت داری کے حوالے سے مستقبل کے تعلقات کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔
'افریقی رہنماؤں کے لیے باعث شرمندگی'
افریقی ثالثی کمیشن کی سربراہی کرنے والے جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے 18 جون کو پوتن کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا کہ افریقی ممالک جنگ سے منفی طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ: ہمارے مشترکہ مفاد میں ہہ ہے کہ یہ جنگ ختم ہو۔
اے ایف پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رامافوسا نے صدر پوٹن کو یوکرین میں تنازعہ ختم کرنے اور تعمیرِ نو کی بحالی کے لیے 10 نکاتی تجویز پیش کی۔
اس میں "دونوں طرف سے کشیدگی کو کم کرنے" پر زور دیا گیا؛ ممالک کی خودمختاری کو تسلیم کرنا؛ تمام فریقوں کو "سیکیورٹی گارنٹی" فراہم کرنا، بحیرہ اسود (بلیک سی) کے ذریعے اناج کی برآمد میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا؛ اور "جنگی قیدیوں کی رہائی"۔
افریقی وفد نے کہا کہ تعمیری بات چیت ہوئی، لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ثالثی کی کوشش بالآخر ناکام ہو گئی کیونکہ اس کے ٹھوس نتائج سامنے نہیں آئے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے ان ملاقاتوں کے بعد کہا: "افریقہ کے منصوبے پر عمل درآمد کرنا بہت مشکل ہے۔"
سینیگل کے محقق اور تجزیہ کار بکری جان نے کہا کہ افریقی ثالثی کی ناکامی کی توقع کی جا رہی تھی اور یہ کہ "افریقی ثالثی کی بنیاد پر پوٹن سے یوکرین کے خلاف اپنی جنگ روکنے کی توقع رکھنا مضحکہ خیز ہے۔"
جان نے کہا کہ وہ ثالثی کی قیادت کرنے والے ممالک کی کوششوں کو نظر انداز کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں، لیکن وہ اپنے تجزیے کو واقعات اور سیاق و سباق کے معروضی مطالعہ پر مبنی کر رہے ہیں۔
جہاں تک افریقی ممالک کے اثر و رسوخ کا تعلق ہے، انہوں نے کہا کہ، "اس بات کا سفارتی نقطۂ نظر سے مزید جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ آیا پوتن کو اب بھی دنیا میں روس کی شبیہ کی پرواہ اور فکر ہے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ "افریقی ثالثی کی ناکامی افریقی رہنماؤں کے لیے انتہائی شرمناک ہے، کیونکہ وہ اب بین الاقوامی برادری کے سامنے پوتن کے اقدامات کا جواز پیش کرنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔"
اس سے یقینی طور پر پوتن بین الاقوامی برادری سے الگ تھلگ ہوجائیں گے۔"