نواکچوٹ، موریطانیہ -- بہت سے افریقی ممالک کے یوکرین اور روس سے اناج کی درآمد پر انحصار پر، یوکرین کے اناج کی برآمد کے معاہدے سے ماسکو کی دستبرداری نے برِاعظم میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
روس نے حال ہی میں اس معاہدے میں توسیع کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس کی ثالثی گزشتہ سال اقوامِ متحدہ (یو این) اور ترکیہ نے کی تھی، جس نے بحیرۂ اسود کے راستے یوکرینی بندرگاہوں -- بشمول افریقہ – کی عالمی منڈیوں کے لیے اناج کو محفوظ راستہ دینے کی اجازت دی تھی۔
اس معاہدے نے یوکرین پر روس کے جاری حملے کے دوران خوراک کی عالمی قیمتوں کو مستحکم کرنے اور قلت کو دور کرنے میں مدد کی۔ لیکن ماسکو کے نکل جانے کے بعد، قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
24 جولائی کو کریملن کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے دستبرداری کے فیصلے کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ "بے معنی ہو گیا ہے"۔
پیوٹن کا مضمون، "روس اور افریقہ: امن، ترقی اور ایک کامیاب مستقبل کے لیے کوششوں میں شمولیت"، گزشتہ جمعرات اور جمعہ (27 اور 28 جولائی) کو سینٹ پیٹرزبرگ میں منعقد ہونے والی دوسری روس-افریقہ سربراہی کانفرنس سے تین دن پہلے شائع ہوا تھا۔
اس میں، پیوٹن نے افریقی ممالک کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ ان کی اناج کی ضروریات روس "تجارتی بنیادوں پر یا مفت میں" پوری کرے گا۔
انہوں نے اعلان کیا کہ روس آنے والے مہینوں میں چھ افریقی ممالک مالی، برکینا فاسو، زمبابوے، صومالیہ، اریٹیریا اور وسطی افریقی جمہوریہ (سی اے آر) کو 50,000 ٹن تک اناج کی امداد بھیجے گا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنی خبر میں کہا کہ، لیکن اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوترس نے گزشتہ جمعرات کو نشاندہی کی کہ ترقی پذیر ممالک کو اناج کا عطیہ ماسکو کی جانب سے یوکرین سے اناج کی برآمدات میں کٹوتی کے اثرات کی تلافی نہیں کر سکتا۔
انہوں نے کہا کہ لاکھوں ٹن یوکرینی اناج کو عالمی منڈی سے باہر لے جانے سے قیمتیں زیادہ ہو جائیں گی، جو "ہر جگہ، ہر کوئی ادا کرے گا"۔
افریقی ماہرینِ اقتصادیات اور تجزیہ کاروں نے بھی پیوٹن کے اعلان کی اہمیت اور افریقی ممالک کے معاشی مستقبل پر اس کے سیاسی اثرات کو کم کرتے ہوئے اسے مزید وقت حاصل کرنے کے لیے ایک سیاسی چال قرار دیا۔
'افریقہ کو ظالمانہ دھچکا'
موریطانیہ کے اقتصادی محقق حسین محمد عمر نے المشارق کو بتایا، "روس کا انخلاء افریقہ کے لیے ایک انتہائی ظالمانہ دھچکا ہے، جس کے ممالک یوکرینی اناج پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں"۔
افریقی ممالک کی گندم کی درآمدات میں ایک بڑا حصہ یوکرین کا ہے۔
انہوں نے کہا، "مثال کے طور پر صومالیہ اپنی گندم کی 70 فیصد فراہمی کے لیے یوکرین پر انحصار کرتا ہے، جبکہ تیونس اور لیبیا بالترتیب 50 فیصد اور 40 فیصد کے لیے اس پر انحصار کرتے ہیں"۔
عمر نے پیشین گوئی کی کہ یوکرینی اناج کی افریقہ کو برآمد پر پابندی "ان میں سے کچھ ممالک میں خوراک کے عدم تحفظ کے بحران کا باعث بنے گی، خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی کے بحران اور برآمدات اور ذخیرہ کرنے کی پابندیوں کے پیشِ نظر"۔
سینٹ پیٹرزبرگ میں افریقی-روسی سربراہی اجلاس کے ذریعے، روس نے افریقی ممالک کے رہنماؤں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ اسے ان کے مفادات کا خیال ہے۔
پیوٹن کے مضمون کی اشاعت سے چند روز قبل روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ورشینن نے بھی افریقی ممالک کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کی تھی۔
ایک نیوز کانفرنس کے دوران، انہوں نے کہا کہ ضرورت مند ممالک "ان کے ساتھ ہماری بات چیت کے ذریعے یا روس-افریقہ سربراہی اجلاس کے ذریعے اناج حاصل کریں گے"۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق افریقی ممالک کے لیے ماسکو کی اقتصادی اہمیت اتنی زیادہ نہیں ہے جتنی کہ اسے سمجھا جاتا ہے۔
مغرب کے معاصر تاریخ کے محقق کباد عبدالرحمن نے کہا، "کچھ ممالک غلط حسابات کی بنیاد پر روس کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، جبکہ انسانیت معاشی اور تجارتی لحاظ سے 'روسی ریچھ' کے بغیر رہ سکتی ہے"۔
کروڑوں قیمت چکائیں گے
عبدالرحمٰن نے المشارق کو بتایا، "افریقہ میں روس کی اقتصادی پالیسی بحرانوں میں ڈوبے ہوئے ملک کی ناکامی کی زندہ مثال ہے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ "افریقہ میں روسیوں کے خود کو فروغ دینے سے کچھ فرق نہیں پڑتا، کیونکہ پیوٹن کی داخلہ پالیسی حل کا تصور کرنے سے قاصر ہے۔ جب آپ خود ننگے ہیں تو آپ لوگوں کو کیسے لباس پہناتے ہیں؟!"
اناج کے معاہدے سے دستبردار ہونے کے روسی فیصلے نے شدید ردِعمل کو جنم دیا ہے، ان انتہائی مشکل انسانی حالات کے پیشِ نظر جو لاکھوں افریقیوں کے لیے اس کے نتیجے میں ہوں گے۔
برلن نے اسے "بری خبر" کے طور پر بیان کیا، اور واشنگٹن نے اسے "غیر سمجھدار" قرار دیا، جبکہ اقوامِ متحدہ نے کہا کہ لاکھوں لوگ اس کی "قیمت چکائیں گے"۔
اقتصادی محقق حسین محمد عمر نے کہا کہ ماسکو کا یہ اقدام ثابت کرتا ہے کہ پیوٹن افریقی عوام کے مفادات کی زیادہ پرواہ نہیں کرتا۔ اسے افریقیوں کے لیے لاپرواہ اور لاتعلق قرار دیا جا سکتا ہے"۔
انہوں نے مزید کہا، "پیوٹن کو غریب ممالک کے مفادات کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ وہ صرف یوکرین کے خلاف جنگ میں میدان جنگ میں کامیابیاں حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے، غریب اقوام کی صورت حال کو مدِنظر رکھے بغیر جن کا اس جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے"۔