حقوقِ انسانی

روسی کرائے کے جنگجوگروہ کو مالیات فراہم کرنے والا سزا سے نہ بچ سکا

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

مئی میں یوکرین میں ایک ویگنر کرائے کا جنگجو [فائل]

مئی میں یوکرین میں ایک ویگنر کرائے کا جنگجو [فائل]

لیگسمبرگ – دنیا بھر میں سفاکیوں میں روس کے زرخرید جنگجوؤں کے ملوث ہونے کے بڑھتے ہوئے شواہد کے ساتھ، ویگنر گروپ کے مالیات فراہم کنندہ نے خود کو الزامات سے الگ رکھنے کی ایک آخری ناکام کوشش کی۔

ییوگینی پریگوژن روسی صدر ویلادیمیر پیوٹن کے ایک قریبی اتحادی ہیں، جنہوں نے لیبیا میں ویگنر جنگجو تعینات کرنے پر یورپی یونیئن میں اپنے اثاثے منجمد کیے جانے اور ویزا بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کے 2020 کے ایک فیصلے کو چیلنج کیا۔

تاہم گزشتہ بدھ (یکم جون) کو یورپی یونیئن کی ایک اعلیٰ عدالت نے پریگوژن کی درخواست کو مسترد کر دیا۔

پیسے کا تعاقب

ویگنر گروہ کے زرخرید جنگجو2018 سے اب تک لیبیا میں جنرل خلیفہ ہفتار کی قیادت میں روس کی پشت پناہی کی حامل لیبین نیشنل آرمی کی معاونت کے لیے لڑ رہے ہیں۔

2 اپریل کو لی گئی اس تصویر میں کییو کے شمال مغرب میں بُچا سے روسی فوج کے انخلاء کے بعد یوکرینی شہریوں کی میتیں پڑی ہیں۔ جرمن انٹیلی جنس کی جانب سے انٹرسیپٹ کی گئی ریڈیو ٹریفک سے پتہ چلتا ہے کہ متعدد ویگنر گروہوں نے ان سفاکیوں میں کردار ادا کیا۔ [رونالڈو شمیدس/اے ایف پی]

2 اپریل کو لی گئی اس تصویر میں کییو کے شمال مغرب میں بُچا سے روسی فوج کے انخلاء کے بعد یوکرینی شہریوں کی میتیں پڑی ہیں۔ جرمن انٹیلی جنس کی جانب سے انٹرسیپٹ کی گئی ریڈیو ٹریفک سے پتہ چلتا ہے کہ متعدد ویگنر گروہوں نے ان سفاکیوں میں کردار ادا کیا۔ [رونالڈو شمیدس/اے ایف پی]

کریملن کا بارسوخ ایجنٹ ییوگینی پریگوژن پیسے لے کر جنگجوآنہ سرگرمیاں کرنے کی وجہ سے خود پر عائد بین الاقوامی پابندیاں ہٹوانے کی کوشش میں ناکام ہو گیا۔ [فائل]

کریملن کا بارسوخ ایجنٹ ییوگینی پریگوژن پیسے لے کر جنگجوآنہ سرگرمیاں کرنے کی وجہ سے خود پر عائد بین الاقوامی پابندیاں ہٹوانے کی کوشش میں ناکام ہو گیا۔ [فائل]

لیبیا کے تیل کے وسیع ذخائر اور بحیرۂ روم میں اس کا تذویری محلِ وقوع ماسکو کے لیے پرکشش ہے، جو کہ مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں ایک مضبوط گرفت کا خواہاں ہے۔

شبہ ہے کہ ویگنر لیبیا میں سب سے بڑی غیرملکی موجودگی کا حامل ہے، جبکہ اقوامِ متحدہ (یو این) کے مطابق، دیگر روسی نجی عسکری کمپنیاں (پی ایم سیز) بھی تنازع میں ملوث ہیں۔

گزشتہ ہفتے یورپی یونیئن کی عمومی عدالت میں پریگوژن نے دعویٰ کیا کہ انہیں ”ویگنر گروپ نامی کسی گروہ سے متعلق کچھ علم نہیں“، باوجودیکہ بلاک نے 'پریگوژن صاحب اور ویگنر گروپ کے درمیان متعدد قریبی روابط ظاہر کرنے والے مخصوص، درست اور مستقل شواہد فراہم کر دیے تھے“۔

”امریکہ سے دھوکہ کرنے کی ایک سازش میں مبینہ طور پر ملوث ہونے“ کی وجہ سے پریگوژن امریکی فیڈرل بیورو آف انوسٹیگیشن (ایف بی آئی) کی مطلوبین کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔

امریکی وزارتِ خزانہ نے روسی کمپنی ایورو پولِس پر 2018 میں یہ کہ کر پابندیاں عائد کی تھیں کہ پریگوژن کے ”زیرِ ملکیت یا زیرِ انتظام“ شامی تیل کے کںوں کے ”تحفظ“ کے لیے اسے ٹھیکہ دیا گیا تھا۔

اسی کمپنی کے خلاف لیبیا میں کاروائیوں پر مقدمہ بھی چل رہا ہے۔

یہی کمپنی یوکرین پر روسی حملے پر لیبیا میں کاروائیوں میں بھی ملوث ہے۔

ایک یورپی عہدیدار نے اپریل میں کہا کہ ویگنر گروپ کے ساتھ ساتھ شام اور لیبیا سے 20,000 زرخرید جنگجو یوکرین میں ماسکو کی افواج کے ہمراہ لڑ رہے تھے۔

اپریل میں بی این ڈی کے نام سے معروف جرمنی کی غیر ملکی انٹیلی جنس نے کہا کہ اس نے ریڈیو مواصلات پکڑی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ویگنر گروہ کے ارکان نے بُچہ کے شہر سے روسی افواج کے انخلاء کے دوران یوکرینی شہریوں کے قتل میں کردار ادا کیا۔

”مہلک میراث“

ویگنر پہلی مرتبہ 2014 میں یوکرین میں سامنے آیا۔ تب سے اس کے زرخرید جنگجو شام، موزمبیک، سوڈان، وینیزویلا، لیبیا، وسط ایشیائی جمہوریہ (سی اے آر)، مالی اور چاڈ سمیت دنیا بھر میں تنازعات میں ملوث رہے ہیں۔

ان کرائے کے فوجیوں پر بشمول – یوکرین، مالی، لیبیا اور شام— تقریباً ہر اس علاقۂ جنگ میں جنگی جرائم کا الزام ہے جہاں یہ تعینات رہے۔

ہیومن رائیٹس واچ نے 31 مئی کو ایک بیان میں کہا، ”لیبیا کی ایجنسیوں اور بارودی سرنگیں ناکارہ بنانے والے گروہوں کی جانب سے نئی معلومات ویگنر گروہ کو 2019-2020 میں شام میں کالعدم بارودی سرنگوں اور پھندوں سے جوڑتی ہیں۔“

ایچ آر ڈبلیو نے کہا، ”عملہ کے خلاف استعمال ہونے والی بارودی سرنگیں، جنہیں موجودگی، قربت یا چھونے پر پھٹ جانے کے لیے ترتیب دیا گیا ہو، بین الاقوامی انسان دوست قوانین کی خلاف ورزی ہیں، کیوںکہ یہ شہریوں اور جنگجوؤ کے درمیان تمیز نہیں کر سکتی۔“

ایچ ار ڈبلیو کے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ڈائریکٹر لاما فاخر نے کہا، ”ویگنر گروپ نے ترپولی کے نواح میں پھیلی بارودی سرنگوں اور پھندوں کی مہلک وراثت میں اضافہ کر دیا ہے جن کی وجہ سے لوگوں کا اپنے گھروں کو لوٹنا خطرناک ہو چکا ہے۔“

ایچ آر ڈبلیو نے 3 مئی کو خبر دی کہ سی اے آر میں ویگنر زرخرید جنگجوؤں ”بظاہر 2019 سے سرسری طور پر شہریوں کو اذیت دے رہے، ذدوکوب اور قتل کر رہے ہیں۔“

اپریل میں اقوامِ متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل باشیلیٹ نے سی اے آر میں نہ صرف باغی گروہوں بلکہ فوج اور ان کے روسی اتحادیون کی جانب سے شہریوں کے قتل اور جنسی خلاف ورزیوں سمیت انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی مذمت کی۔

مالی میں، جہاں ویگنر گروپ کے زرخرید جنگجو صدارتی محل کے تحفظ پر مامور ہیں، ماؤرا میں مارچ میں ہونے والے ایک آپریشن پر ایک تنازع کھڑا ہو گیا جس میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے۔

مالی کی فوج اور گواہان، جن کا پریس اور ایچ آر ڈبلیو نے انٹرویو کیا، نے اس آپریشن کو شہریوں کے ایک قلِ عام کے طور پر بیان کیا جس میں مالی کے فوجیوں اور روسی سمجھے جانے والے غیر ملکی جنگجوؤں نے زیادتیاں کیں اور لوٹ مار کا بازار گرم کیا۔

”جھوٹ کا سلسلہ“

امریکی وزارتِ خارجہ نے 24 مئی کو ایک بیان میں کہا کہ ماسکو نے ویگنر گروپ کی ”سفاکیوں“ سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش میں مالی میں اپنی غلط معلومات کی مہم تیز تر کر دی ہے۔

کہا گیا کہ ویگنر اور پریگوژن سے منسلک دیگر گروہ روس کو بہتر بنانے کے لیے”غلط معلومات کے ذریعے متلاطم صورتِ حال سے فائدہ اٹھا رہے ہیں“۔

کہا گیا، ”روس کی جانب سے غلط معلومات کے مزید استعمال اور افریقہ بھر میں ویگنر گروہ کے استعمال نے جھوٹ اور انسانی حقوق کی پامالی کا ایک سلسلہ پھیلا دیا ہے۔“

اس رپورٹنگ میں اضافے سے کہ ویگنر گروہ نے 2021 میں اپنی آمد سے اب تک مالی میں سفاکیاں کی ہیں، روس کی غلط معلومات اور پراپیگنڈا کے ایکوسسٹم نے توجہ ہٹانے اور ذمہ داری سے کنارہ کشی کرنے کے لیے جھوٹے بیانیے کا پھیلاؤ جاری رکھا ہوا ہے۔

شام اور یوکرین میں روس کی مداخلت پر نگاہ ڈالنے سے لیبیا، سی اے آر، مالی اور دیگر کی ایک سبق آموز کہانی کا پتہ چلتا ہے۔

کئی برسوں تک کریملن نے اپنے جغرافیائی سیاسی رسوخ میں اضافہ کرنے کی اپنی مہم کے جزُو کے طور پر صدر بشار الاسد کی حمایت میں شام کے تنازع میں اپنے جنگجو اور پیسہ ڈالا ہے۔

روسی پی ایم سیز حالیہ برسوں میں شام میں ریلے کی صورت آئی ہیں، یہاں تک کہ شامی فوج کے کردار کی بیخ کنی کر دی ہے۔

ستمبر 2019 کی ایک رپورٹ میں شامی نیٹ ورک برائے انسانی حقوق نے کریملن پر 2015 کے بعد سے شام میں اس کے عسکری آپریشن کے دوران ”سینکڑوں جنگی جرائم“ کرنے کا الزام لگایا ہے۔

15 مارچ، 2021 کو فرانس، شام اور روس سے تین ایڈوکیسی گروپس نے 2017 میں بدسلوکی اور ایک شامی شخص کا س قلم کیے جانے، جنہیں وہ ”جنگی جرائم“ سمجھتے ہیں، کے سلسلہ میں ویگنر گروہ کے خلاف ماسکو میں ایک سنگِ میل قانونی شکایت درج کرائی۔

”ویگنر کی میراث“

ایک سابق روسی فوجی اور ویگنر جنگجو، جو قبل ازیں مشرقی یوکرین میں تعینات تھا اور اس کے بعد شام میں، جہاں وہ بری طرح سے زخمی ہوگیا، نے ویگنرز کی سفاکانہ کاروائیوں کی تصدیق کی۔

55 سالہ مارت غابیدولین نے 11 مئی کو ایک انٹرویو میں اے ایف پی کو بتایا کہ روسی پیشہ ور جنگجوؤں کو ”اس طریق پر استعمال کرتے ہیں جو تمام اخلاقی روایتوں اور اقدار کے متصاد ہے“۔

روسی وزیرِ خارجہ سرگی لاؤروف نے گزشتہ ماہ کریملن کی باقاعدہ پوزیشن کی تصدیق کی کہ ویگنر مالی اور لیبیا جیسے ممالک میں ”تجارتی بنیادوں پر“ موجود ہے۔

پیوٹن نے ویگنر کو ایک ”نجی کاروبار“ کے طور پر بیان کیا۔

پریگوژن نے ان خبروں کے ردِّ عمل میں اس گروہ کے وجود ہی سے انکار کر دیا کہ ویگنر سوڈان میں ایک سونے کی کان چلا رہا ہے۔

نیویارک ٹائمز نے 5 جون کو شائع کیا کہ انہوں نے ایک طویل تحریری ردِّ عمل میں کہا، ”بدقسمتی سے میرے پاس کبھی سونے کی کان کنی کی کمپنیاں نہیں رہی۔“

انہوں نے کہا، ”میں روسی فوجی نہیں ہوں“۔

انہوں نے مزید کہا، ”ویگنر کی میراث بس میراث ہی ہے۔“

غابیدولین نے اس رائے کی تردید کی کہ ویگنر کے ریاست سے کوئی روابط نہیں۔

انہوں نے کہا، ”ایسے اسلحہ کے حامل نجی افراد ریاستی حکام کی اجازت ہی سے ہو سکتے ہیں۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500