سلامتی

بڑے شہروں میں داعش کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر افغان شہری تشویش کا اظہار کر رہے ہیں

از عمر

'دولتِ اسلامیہ' (داعش) کی طرف سے کیے جانے والے حملے میں کم از کم 19 افراد کی ہلاکت کے ایک دن بعد، خواتین 3 نومبر 2021 کو کابل کے سردار داؤد خان ملٹری ہسپتال میں ہونے والے دھماکے کی جگہ کے سامنے سے گزر رہی ہیں۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

'دولتِ اسلامیہ' (داعش) کی طرف سے کیے جانے والے حملے میں کم از کم 19 افراد کی ہلاکت کے ایک دن بعد، خواتین 3 نومبر 2021 کو کابل کے سردار داؤد خان ملٹری ہسپتال میں ہونے والے دھماکے کی جگہ کے سامنے سے گزر رہی ہیں۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

ہرات، افغانستان -- افغان شہروں، بشمول دارالحکومت کابل میں "دولتِ اسلامیہ" ( داعش) کے عناصر کے ٹھکانوں پر حالیہ فوجی کارروائیوں نے، دہشت گرد گروہ کی موجودگی اور اس کی سرگرمیوں کے بارے میں سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔

صوبہ ننگرہار کے ضلع درہ نور میں، 5 جنوری کو کیے جانے والے ایک فوجی آپریشن میں، ایک اہم کمانڈر سمیت داعش کے تین ارکان مارے گئے۔

حکام نے 4 جنوری کو کابل کی 8 ویں ڈسٹرکٹ میں کی گئی ایک کارروائی کے دوران، داعش سے وابستہ کم از کم سات دیگر عسکریت پسندوں کو بھی ہلاک اور داعش کے سات مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے۔

اسی دن، نمروز کے صوبائی دارالحکومت زرنج میں داعش کے دو مشتبہ عناصر کو گرفتار کیا گیا۔

افغان شہریوں کا کہنا ہے کہ حالیہ واقعات، ملک بھر کے مختلف شہروں میں داعش کے عسکریت پسندوں کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہیں۔

کابل کی 8ویں ڈسٹرکٹ میں رہنے والے 43 سالہ خیر محمد پتنگ نے کہا کہ جب انہیں اپنے پڑوس میں داعش کے ایک ٹھکانے کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ حیران رہ گئے اور وہ اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت کے بارے میں بہت فکر مند ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "ہمارے گھر کے قریب آئی ایس آئی ایس کے ٹھکانے پر ایک فوجی آپریشن کیا گیا تھا۔ صورتحال سخت ناگوار تھی اور کچھ دن گزر جانے کے بعد بھی، دہشت ہماری روزمرہ کی زندگی پر چھائی ہوئی ہے۔ تب سے ہر کوئی بہت پریشان ہے۔"

"ہمیں آخری بار دھماکوں اور گولیوں کی آوازیں سنے کافی عرصہ ہو گیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمیں جو نسبتاً پرامن ماحول میسر تھا وہ اب ہمارے پاس نہیں رہا ہے۔"

پتنگ نے کہا کہ "ہمارے گھر کے قریب داعش کے عسکریت پسندوں کی موجودگی اور ان کی سرگرمیاں واقعی بہت خوفناک ہیں۔ کابل شہر میں داعش کے بہت سے ٹھکانے ہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ یہ گروہ کسی بھی وقت خودکش حملوں یا بم دھماکے کی منصوبہ بندی کر لے گا"۔

کابل شہر کے علاقے دشتِ برچی میں رہنے والے 25 سالہ جواد محسنی نے کہا کہ داعش کے حملوں نے گزشتہ چند مہینوں میں ان کے پڑوس میں امن و امان اور روزمرہ کی زندگی کو درہم برہم کر کے رکھ دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ہمیں داعش کے ممکنہ حملوں کے خوف سے، بازار یا مسجد جانے، اسکول یا یونیورسٹی جانے یا کلاس میں جانے سے ڈر لگتا ہے۔ ہر کوئی داعش کے حملوں کا شکار ہونے سے ڈرتا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "ہمارے پڑوس سے درجنوں خاندان حالیہ مہینوں میں، داعش کے خوف سے ہجرت کر کے پڑوسی ممالک کی طرف جا چکے ہیں۔ داعش کی وسیع پیمانے پر موجودگی کے بارے میں تشویش روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔"

محسنی نے کہا کہ کابل میں داعش کے ٹھکانوں کی موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ شہر خطرے میں ہے۔

مزید خونی حملوں کے بارے میں تشویش

افغانستان بھر میں، داعش کے حملوں میں تقریباً گزشتہ ڈیڑھ سال سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔

ایس آئی ٹی ای انٹیلی جنس گروپ جو کہ دہشت گرد نیٹ ورکس کی سرگرمیوں پر نظر رکھتا ہے، کے مطابق داعش کی خراسان شاخ (داعش- کے) نے اگست 2021 سے اگست 2022 کے درمیان افغانستان میں 224 دہشت گرد حملے کیے ہیں۔

علمائے کرام سمیت درجنوں عام شہری مارے جا چکے ہیں۔

حملوں میں اس اضافے اور بعض شہروں میں داعش کی موجودگی نے افغان آبادی میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔

نمروز صوبے کے علاقے زرنج کے ایک رہائشی 32 سالہ گل احمد عزیزی نے کہا کہ داعش کے عسکریت پسندوں نے مختلف شہروں میں اپنی کارروائیوں کو وسعت دی ہے اور وہ عوامی مقامات پر گروہ کی طرف سے کیے جانے والے دہشت گردانہ حملوں اور معصوم شہریوں کے قتل عام سے پریشان ہے۔

"میں نے کبھی نہیں سوچا بھی تھا کہ نمروز میں داعش کے قدموں کے نشان ہوں گے۔ لیکن اب جب کہ [حکام] نے زرنج شہر میں اس گروپ کے وفادار ارکان کو گرفتار کیا ہے، میں بہت پریشان ہوں۔ داعش کے خطرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں، دہشت گرد گروپ کو تباہ کرنے کے لیے درکار طاقتور فوج کی کمی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "کابل جیسے کچھ بڑے شہروں کو ماضی کی طرح دھماکوں اور خودکشیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پہلے دہشت گرد گروہ بین الاقوامی اور مقامی افغان فورسز کے فضائی حملوں سے خوفزدہ ہوتے تھے۔ لیکن اب وہ آزادانہ طور پر کام کر سکتے ہیں اور شہروں میں اڈے قائم کر سکتے ہیں۔"

عزیزی نے کہا کہ داعش تمام افغان شہریوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ ہے اور اگر اس کی تخریبی سرگرمیاں بند نہ کی گئیں تو اور بھی زیادہ معصوم شہری دھماکوں اور خودکش حملوں کا شکار ہوں گے۔

ہرات شہر کے رہائشی 26 سالہ صفی اللہ پویا نے کہا کہ داعش کے خونریز حملوں میں اضافہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ افغان شہریوں کے لیے ایک تاریک مستقبل منتظر ہے۔

انہوں نے کہا کہ "داعش کے حملوں سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ داعش بازاروں، مساجد، اسکولوں، ہسپتالوں اور تعلیمی مراکز سمیت کسی بھی جگہ پر بلاامتیاز حملہ کرتی ہے۔ داعش کے عسکریت پسند جہاں کہیں بھی ہو سکے معصوم افغانوں کا قتل عام کرنے کے لیے پرعزم ہیں"۔

"بین الاقوامی فوجیوں کے انخلاء اور سابقہ افغان فوجی دستوں کے خاتمے کے ساتھ، داعش مزید دلیر ہو گئی ہے اور اس نے ملک بھر میں اپنی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "موجودہ خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، داعش جہاں چاہتی ہے حملے کرتی ہے اور مقامی شہریوں کو نشانہ بناتی ہے۔"

پویا کے مطابق، غربت اور بے روزگاری کے علاوہ، داعش کا تشدد افغان عوام کے روزمرہ کے مسائل میں سے ایک ہے۔

عالمی برادری کے لیے خطرہ

مبصرین کے مطابق، اگر داعش دیگر دہشت گرد گروہوں کے ساتھ اتحاد کر لیتی ہے اور افغانستان میں اپنی سرگرمیاں بڑھا دیتی ہے تو یہ عالمی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ بن جائے گی۔

عسکری تجزیہ کار محمد نعیم غیور نے کہا کہ داعش-کے پچھلے ایک سال کے دوران بہت مضبوط ہو گئی ہے اور وہ مزید افراد کو بھرتی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "افغانستان میں داعش کے بہت سے ایسے مقامی کمانڈروں کو، اُس کی قیادت کی طرف سے مستقل حمایت ملتی رہتی ہے، جن کے ارکان عراق اور شام میں رہتے ہیں۔ اب جب کہ داعش افغانستان پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کر چکی ہے، قیادت اس گروپ کی سرگرمیوں کو پورے ملک میں پھیلانے کے لیے حالات کو بہت موزوں سمجھتی ہے۔"

غیور نے کہا کہ "داعش کا مقصد صرف دہشت گردانہ حملے کرنا اور مقامی شہریوں کو قتل کرنا ہی نہیں ہے بلکہ وہ افغانستان میں مزید علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔ جیسے جیسے مزید اضلاع اس کے ہاتھ میں آجائیں گے، داعش مزید ٹھکانے قائم کرے گی اور پورے ملک میں اپنی موجودگی کو بڑھا دے گی۔"

انہوں نے مزید کہا کہ اگر افغانستان میں داعش کی دہشت گردانہ سرگرمیاں بند نہ کی گئیں تو وہ نہ صرف افغان بلکہ عالمی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال دے گی۔

ہرات شہر کے ایک سابق افغان فوجی افسر، 65 سالہ زمری شنندوال نے کہا کہ داعش-کے کو قابو کرنے اور اسے ختم کرنے کے لیے ایک عالمی اتحاد کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ "داعش تقریباً پورے افغانستان میں موجود اور سرگرم ہے۔ یہ گروہ اتنا طاقتور ہو چکا ہے کہ افغان شہری اکیلے اسے ختم نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ پڑوسی ممالک اور خطے کے دوسرے علاقوں سے، بڑی تعداد میں عسکریت پسندوں کو افغانستان لایا ہے اور ملک میں اس کے محفوظ ٹھکانے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ "داعش کے زیادہ تر ٹھکانے، پہاڑی اور دور دراز علاقوں میں واقع ہیں۔ ان ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے ایک مضبوط فضائیہ کی ضرورت ہے۔ فی الحال، افغانستان میں کوئی فضائیہ موجود نہیں ہے اور داعش اس موقع کا اچھا استعمال کر رہی ہے"۔

شنندوال نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا، افغانستان میں داعش کی موجودگی کے خطرے کو سمجھے اور اس کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500