دہشتگردی

داعش کے حملوں میں اضافہ افغانستان میں 'سنگین تشویش' کا باعث

از عمران

مزار شریف میں 11 مارچ کو منعقد ہونے والی ذرائع ابلاغ کی یادگاری تقریب کے دوران، ایک زخمی شخص کو داعش کے حملے کی جگہ کے قریب مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ [عاطف آرین/اے ایف پی]

مزار شریف میں 11 مارچ کو منعقد ہونے والی ذرائع ابلاغ کی یادگاری تقریب کے دوران، ایک زخمی شخص کو داعش کے حملے کی جگہ کے قریب مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ [عاطف آرین/اے ایف پی]

ہرات -- افغانستان میں موجود اقتدار کے خلا سے طاقت حاصل کرنے کے بعد، "دولتِ اسلامیہ" کی خراسان شاخ (داعش-کے) نے کئی صوبوں میں حملوں میں اضافہ کر دیا ہے، جس سے ملک بھر میں سیکورٹی کے بارے میں سنگین خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔

اس ماہ کے آغاز میں، مزار شریف میں ہونے والے دو الگ الگ حملوں میں، داعش نے مقامی حکومت کے ایک سینئر اہلکار اور صحافیوں کی ایک تقریب پر حملہ کیا۔

پولیس نے کہا ہے کہ 11 مارچ کو صوبہ بلخ کے دارالحکومت مزار شریف میں، تبیان ثقافتی مرکز پر ہونے والے حملے میں ایک سیکیورٹی گارڈ ہلاک جبکہ متعدد صحافی اور تین بچے زخمی ہوئے تھے۔

افغان انڈیپنڈنٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن (اے آئی جے اے) کے مطابق، اس گارڈ کے علاوہ، صحافی حسین نادری اور صحافت کا ایک طالب جس کا نام اکمل تھا، ہلاک ہو گئے۔ اس نے بتایا کہ ذرائع ابلاغ کے دیگر 14 کارکن زخمی ہوئے۔

یہ بم دھماکا، آئی ایس آئی ایس کے ایک خودکش بمبار کی طرف سے صوبہ بلخ کے گورنر کو مزار شریف میں ان کے دفتر میں ہلاک کرنے کے صرف دو دن بعد ہوا ہے۔

ہرات میں داعش کی طرف سے 9 مارچ کو کیے جانے والے ایک اور حملے میں تین افراد مارے گئے تھے۔

داعش کے خونی کھیل کے متاثرین

بعض تجزیہ کاروں کے مطابق، داعش اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کی تعداد میں اضافہ کرکے، افغانستان کو ایک خونی نظریاتی میدان جنگ میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اٹلی میں مقیم ایک فوجی تجزیہ کار محمد نعیم غیور نے کہا کہ "داعش کے حالیہ حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ گروپ بہت فعال ہو گیا ہے اور اس نے ملک کے مختلف حصوں میں اپنی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ "افغانستان میں درجنوں دہشت گرد گروہ سرگرم ہیں اور ان کے ساتھ داعش کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔"

"جیسے جیسے یہ گروہ متحد ہوتے جائیں گے، نہ صرف افغانستان کی سلامتی بلکہ پوری دنیا کی سلامتی کو بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔"

انہوں نے پیشین گوئی کی کہ "اگر موجودہ صورت حال اسی طرح جاری رہی تو ہم کئی صوبوں میں داعش کے خونی حملوں کو دیکھیں گے۔"

غیور نے کہا کہ اگر افغانستان میں ایسی جامع حکومت، جسے عوام کی حمایت بھی حاصل ہو، قائم نہیں ہوتی تو داعش-کے کی سرگرمیاں ممکنہ طور پر ملک بھر میں پھیل جائیں گی اور دہشت گرد گروہ علاقے پر قبضہ کر لے گا۔

انہوں نے کہا کہ "داعش کو علاقائی ممالک اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ انٹیلی جنس کی اس امداد کے بغیر، داعش اس طرح کے پیچیدہ اور خونی حملے کرنے کی قابلیت نہیں رکھتی ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "بدقسمتی سے، اس خونی کھیل کے اصل متاثرین معصوم افغان شہری ہیں۔"

ہرات سے تعلق رکھنے والے سول سوسائٹی کے ایک کارکن، سید اشرف سادات نے کہا کہ داعش افغانستان میں جنگ شروع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "آئی ایس آئی ایس نے گزشتہ ڈیڑھ سال میں نمایاں طور پر ترقی کی ہے۔ افغانستان میں اس کی سرگرمیاں سنگین تشویش کا باعث ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ "بہت سے علاقائی ممالک اپنے انٹیلی جنس اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے افغانستان میں جنگ کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ داعش کو وسیع پیمانے پر فوجی اور مالی مدد ملتی ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "افغانستان میں اب بہت سی عسکریت پسند قوتیں بے کار پھر رہی ہیں، جن سے داعش بھرتیاں کرنے میں کامیاب رہی ہے۔"

عالمی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ

ازبکستان میں مقیم ایک سیاسی تجزیہ کار احمد سعیدی نے کہا کہ ایک مضبوط اور پیشہ ورانہ فوج کی عدم موجودگی کے باعث، افغانستان داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کے لیے ایک پناہ گاہ میں تبدیل ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "داعش کے پاس وسیع مالی وسائل موجود ہیں اور وہ نہایت آسانی سے اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کر سکتی ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال نے داعش کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کر دیا ہے جسے استعمال کرتے ہوئے وہ ترقی کر سکتی ہے۔"

"داعش ایک عالمی تحریک ہے اور اس کی خراسان شاخ، جو افغانستان، پاکستان اور خطے کے کچھ دوسرے ممالک میں کام کرتی ہے، اب بہت زیادہ فعال ہو گئی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ "کچھ عرب ممالک جیسے کہ یمن، شام، عراق اور کچھ افریقی ممالک کے بجائے، داعش نے اپنی سرگرمیاں افغانستان اور پاکستان میں مرکوز کر دی ہیں۔"

سعیدی نے کہا کہ افغانستان سے دنیا کو درپیش آئی ایس آئی ایس کا خطرہ، بہت سنگین ہے اور اسے اس وقت تک قابو کرنا بہت مشکل ہو گا جب تک کہ طاقتور ممالک متحدہ طور پر داعش- کے کو دبانے کی کوشش نہیں کرتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "اس گروہ کا مقصد عدم استحکام اور عدم تحفظ پیدا کرنا ہے -- صرف افغانستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں"۔

ہرات شہر سے تعلق رکھنے والے ایک سابقہ افغان فوجی افسر عبداللہ خلیل نے کہا کہ داعش، افغانستان کو اپنے کمانڈ سینٹر میں تبدیل کر رہی ہے اور وہ تقریبا پورے خطے میں انجام دیے جانے والے اپنے زیادہ تر حملوں کو افغانستان سے منظم کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "افغانستان میں سیاسی اور فوجی استحکام کی کمی کی وجہ سے داعش بھرتی کرنے اور علاقوں پر قبضہ کرنے کے معاملات میں بہت اچھا کام کر رہی ہے۔"

"یہ گروہ بے روزگاروں کو سستے داموں پر بھرتی کر سکتا ہے اور آسانی سے ہتھیار اور گولہ بارود حاصل کر سکتا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ "افغانستان میں داعش کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے ایک ایسی مضبوط فوجی قوت کی ضرورت ہے جو اس کے ٹھکانوں پر حملہ کرے۔ اس گروہ کے خونی حملوں کو اس وقت تک روکنا بہت مشکل ہو گا جب تک کہ کچھ صوبوں میں اس کے محفوظ ٹھکانے تباہ نہیں کر دیے جاتے۔"

خلیل نے کہا کہ افغانستان اور باقی کی دنیا کو داعش سے بچانے کے لیے، تمام ممالک کو مل کر افغانستان میں اس گروپ کو ایسے ہی دبانا چاہیے جیسا کہ انھوں نے شام اور عراق میں کیا تھا۔

خوف میں جینا

داعش کے حملوں میں اضافہ اور دہشت گرد گروپ کی طرف سے لاحق خطرات نے افغان شہریوں کو بہت زیادہ پریشان کر دیا ہے۔

عبدالخالق منتظم جن کی عمر 31 سال ہے، نے بتایا کہ انہوں نے 2017 میں ہرات شہر میں جوادیہ مسجد پر ہونے والے داعش کے حملے میں اپنا بھائی کھو دیا تھا۔

انہیں خدشہ ہے کہ داعش ایک بار پھر مسجد یا اس اسکول پر، جہاں وہ کام کرتا ہے، حملہ کرے گی اور اسے یا اس کے رشتہ داروں کو قتل کر دے گی۔

انہوں نے کہا کہ "میں کبھی بھی اس درد اور غم کو نہیں بھول سکتا جو داعش کی طرف سے میرے خاندان کو ملا ہے۔ میرا نوجوان بھائی نماز ادا کرنے مسجد گیا تھا لیکن داعش نے اس کے ٹکڑے اڑا کر رکھ دیے۔ داعش خدا کے گھر میں بھی لوگوں کو نہیں بخشتی۔"

انہوں نے کہا کہ "میں داعش کے حالیہ حملوں کی وجہ سے میں بہت خوفزدہ ہوں۔ اس ڈر کے باعث کہ داعش کا کوئی رکن نمازیوں کے درمیان خود کو دھماکے سے نہ اڑا دے، میں رات کو مسجد نہیں جاتا۔"

نمروز کے رہائشی صفی اللہ الکوزئی، جن کی عمر 26 سال ہے، نے کہا کہ داعش افغان شہریوں کی سب سے بڑی دشمن ہے کیونکہ اس نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی کو بھی نہیں بخشتی۔

انہوں نے مزار شریف میں 11 مارچ کو ہونے والے بم دھماکے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "گزشتہ ہفتے، داعش نے صحافیوں کی طرف سے منعقدہ ایک تقریب پر حملہ کیا، جس میں افغان صحافی ہلاک اور زخمی ہوئے۔ اس کا کیا جواز ہے؟"

"داعش کے ہاتھوں مارے گئے صحافیوں اور دوسرے شہریوں کا جرم کیا ہے؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ داعش کی کوئی اقدار نہیں ہیں اور اس کی سرگرمیاں غیر انسانی اور غیر اسلامی ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ "داعش کو بیرونِ ملک سے پیسہ ملتا ہے لیکن وہ معصوم اور غریب افغان شہریوں کا قتلِ عام کرتی ہے۔"

"میں موجودہ صورتحال سے بہت پریشان ہوں اور مجھے ڈر ہے کہ داعش اپنے حملوں میں اضافہ کر کے مزید بے گناہ افغان شہریوں کو ہلاک کردے گی۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500