سلامتی

مزارِ شریف کی مسجد میں داعش کا بم دھماکہ، دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات کا عکاس

پاکستان فارورڈ

ایک زخمی افغان شہری، 21 اپریل کو مزار شریف میں ایک شیعہ مسجد پر داعش کے حملے میں زخمی ہونے کے بعد ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ [اے ایف پی]

ایک زخمی افغان شہری، 21 اپریل کو مزار شریف میں ایک شیعہ مسجد پر داعش کے حملے میں زخمی ہونے کے بعد ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ [اے ایف پی]

کابل -- جمعرات (21 اپریل) کو بم دھماکوں میں کم از کم 16 افراد ہلاک ہو گئے-- جن میں مزار شریف کی ایک شیعہ مسجد میں ہلاک ہونے والے 12 افراد بھی شامل ہیں جس کی ذمہ داری "دولتِ اسلامیہ" (داعش) نے قبول کی ہے۔

گروہ نے ایک بیان میں کہا کہ "خلافت کے سپاہی مسجد کے اندر سے ایسا تھیلا نکالنے میں کامیاب ہو گئے جسے دھوکے سے رکھا گیا تھا" اور نمازیوں سے بھری مسجد سے دور لے جا کر دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا گیا۔

ایک علیحدہ واقعہ میں، قندوز میں، ایک دھماکے سے کم از کم چار افراد ہلاک اور 18 زخمی ہوئے۔ پولیس کے ترجمان عبید اللہ عابدی نے، اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے، اس کی ذمہ داری، کاریگروں کو لے جانے والی گاڑی کو نشانہ بنانے والے سائیکل بم پر ڈالی۔

سوشل میڈیا کے صارفین نے متاثرین کو، مزار شریف کی سہ دوکان مسجد سے ہسپتال لے جائے جانے کی خوفناک تصاویر پوسٹ کیں۔

تصاویر، جن کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہوسکی، میں ٹوٹے ہوئے شیشے سے اٹا ہوا منظر دکھایا گیا ہے۔

بلخ کے صوبائی محکمہ صحت عامہ کے ترجمان احمد ضیاء زندانی نے اے ایف پی کو بتایا کہ "ہر طرف خون اور خوف ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہسپتال میں اپنے رشتہ داروں کے بارے میں پتہ لگاتے ہوئے"لوگ چیخ رہے تھے"۔

انہوں نے کہا کہ دھماکے میں 12 افراد ہلاک اور 58 زخمی ہوئے -- ان میں ایسے 32 افراد بھی شامل ہیں جن کی حالت تشویشناک ہے۔

زندہانی نے کہا کہ "متاثرین کے رشتہ دار اپنے قریبی عزیزوں کو ڈھونڈتے ہوئے شہر کے ہسپتالوں میں پہنچ رہے تھے۔ بہت سے رہائشی خون کا عطیہ دینے کے لیے بھی آ رہے تھے۔"

ابھی پیر (18 اپریل) کو ہی، داعش نے ہمسایہ ملک افغانستان سے ازبکستان پر کیے جانے والے راکٹ کے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ یہ وسط ایشیاء کے کسی بھی ملک پر اس گروہ کی طرف سے کی جانے والی ایسی پہلی بمباری تھی۔

اس ہفتے میں دو شیعہ مخالف حملے

کابل میں منگل کو ہونے والے متعدد دھماکوں میں، کم از کم چھ افراد کے ہلاک اور 24 کے زخمی ہونے کے بعد، اس ہفتے یہ ایسا دوسرا حملہ جس میں شیعہ برادری کو نشانہ بنیا گیا تھا۔

عینی شاہدین نے بتایا کہ پہلا دھماکا ممتاز ٹیوشن سینٹر کے قریب ہوا اور اس کے بعد دشت برچی میں عبدالرحیم شاہد ہائی اسکول کے قریب یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے، جو کہ شیعہ ہزارہ اکثریتی علاقہ ہے۔

منگل کو ہونے والے حملے کی ذمہ داری ابھی تک کسی گروہ نے قبول نہیں کی ہے۔

شیعہ ہزارہ برادری، جو کہ افغانستان کی 38 ملین آبادی کا 10 سے 20 فیصد ہے، طویل عرصے سے دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنی ہوئی ہے -- جن میں سے اکثریت کے پیچھے داعش تھی۔

داعش - کے کا مہلک ریکارڈ

داعش نے حالیہ برسوں میں، افغانستان میں ہونے والے مہلک ترین حملوں میں سے کچھ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

8 اکتوبر کو، داعش کی خراسان شاخ (داعش-کے) کے ایک خودکش بمبار نے، قندوز میں ایک مسجد کو نشانہ بنایا، جس میں مقامی لوگوں کے مطابق، تقریباً 100 شیعہ مسلمان ہلاک اور متعدد دیگر زخمی ہوئے۔

گزشتہ سال مئی میں دشت برچی کے نواحی علاقے میں ان کے اسکول کے قریب تین بم پھٹنے سے کم از کم 85 افراد ہلاک اور 300 کے قریب زخمی ہوئے تھے جن میں زیادہ تر طالبات تھیں۔

کسی گروہ نے اس قتل عام کی ذمہ داری قبول نہیں کی، لیکن اکتوبر 2020 میں داعش نے اسی علاقے میں ایک تعلیمی مرکز پر خودکش حملے کا اعتراف کیا تھا جس میں طلباء سمیت 24 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

مئی 2020 میں، اس گروہ کو اسی محلے کے ایک ہسپتال کے زچگی وارڈ پر خونی حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا جس میں نئی ماؤں، نوزائیدہ بچوں اور نرسوں سمیت 25 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

طالبان کے بعد، داعش اور دیگر دہشتگرد پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سر پر کھڑے ہیں۔ دنیا بھر میں، بطورِ خاص خطے میں متعدد دہشتگرد تنظیمیں پاکستان میں جڑیں رکھتی ہیں۔ کل کراچی میں ایک بلوچ عسکریت پسند نے چینیوں پر حملہ کیا جو پاکستان کی مرتد فوج کا ساتھ دیتے ہیں، اور بلوچ وسائل کی لوٹ کھسوٹ کرنے میں پاکستان کی مرتد فوج کی مدد کرنے والے متعدد چینیوں کو قتل کر دیا۔ میں بین الاقوامی برادری اور بطورِ خاص امریکہ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ خطے میں چینی ناآبادیت کو روکنے کے لیے بلوچ جنگجوؤں اور پی ٹی ایم کی مدد کریں تاکہ نام نہاد پاکستان کو ختم کیا جائے اور پشتون، بلوچ اور سندھیوں کو اپنی زمینوں کا مالک بنایا جائے اور پنجابیوں کو واپس بھارت میں ضم کر دیا جائے۔

جواب