سلامتی

افغانستان کے شمالی صوبوں کے شہری داعش کے حملوں سے پریشان

محمد قاسم

مزار شریف کی شیعہ سہ دوکان مسجد میں 21 اپریل کو ہونے والے ایک بم دھماکے میں زخمی ہونے والی ایک افغان خاتون ہسپتال میں زیرعلاج ہے۔ [اے ایف پی]

مزار شریف کی شیعہ سہ دوکان مسجد میں 21 اپریل کو ہونے والے ایک بم دھماکے میں زخمی ہونے والی ایک افغان خاتون ہسپتال میں زیرعلاج ہے۔ [اے ایف پی]

قندوز -- بلخ، قندوز، تخار اور بدخشاں صوبوں کے رہائشی تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے ساتھ جڑی افغانستان کی سرحدووں پر "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کے بڑھتے ہوئے حملوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

ملک بھر میں داعش کی مقامی خراسان شاخ (داعش- کے) نے گزشتہ نو ماہ کے دوران متعدد مہلک حملے کیے ہیں، جن میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔

حالیہ مہینوں میں، داعش کے نے مساجد، اسکولوں اور منی بسوں کو نشانہ بنانے والے بم دھماکوں اور اس کے ساتھ ہی ایسے راکٹ حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جن کا نشانہ تاجکستاناور ازبکستان تھے۔

تازہ ترین دعوے میں، دشع نے 7 مئی کو ٹیلی گرام پر کہا کہ اس نے صوبہ تخار کے خواجہ غار سے سرحد کے پار تاجک فوجی اڈے پر سات میزائل داغے ہیں۔

قندوز سے تعلق رکھنے والے سول سوسائٹی کے ایک سرگرم کارکن ربیع اللہ محتشم نے کہا کہ افغانستان میں طاقت کے حالیہ خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، داعش-کے ملک بھر میں اپنی تحریک میں تیزی لے آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کابل، بلخ، ننگرہار اور ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والے حالیہ واقعات افغانستان میں تشدد کی نئی لہر کی نشاندہی کرتے ہیں۔

"موجودہ حکومت کو اسے لازمی روکنا چاہیے"۔

انہوں نے کہا کہ "ہماری اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ نقاب پوش افراد صوبہ قندوز کے کچھ حصوں میں موجود ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ " داعش ملک کے شمالی صوبوں میں سرگرمی سے بھرتیاں کر رہی ہے۔ اگر انہیں روکا نہ گیا تو وہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن جائیں گے"۔

داعش کوئی رحم نہیں دکھاتی

صوبہ قندوز کے ایک رہائشی محمد رحیم رحیمی نے کہا کہ "اس بار، بدقسمتی سے داعش ہمارے خون کی پیاسی ہے۔ وہ کسی پر رحم نہیں کرتے۔"

انہوں نے کہا کہ "ہر گزرتے دن کے ساتھ، داعش افغانستان میں اپنی صفوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بدقسمتی سے، ملک میں اس گروہ کی سرگرمیوں کو روکنے کا کوئی منصوبہ موجود نہیں ہے۔"

رحیمی نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو افغانستان میں داعش کے خطرے کو ہلکا نہیں لینا چاہیے اور مشترکہ علاقائی اور بین الاقوامی کوششوں کے ذریعے اس کی سرگرمیوں کی توسیع کو روکنا چاہیے۔

دہشت گرد گروہ کی طرف سے کیے جانے والے حملوں کی افغان شہریوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی ہے۔

صوبہ بلخ کے دارالحکومت مزار شریف کے سینکڑوں باشندے، شہر کی شیعہ سیہ دوکان مسجد میں بم دھماکے میں 12 افراد کی ہلاکت کے ایک دن بعد، 22 اپریل کو سوگ منانے کے لیے جمع ہوئے۔

داعش- کے نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

سوگواروں نے بم دھماکے کی مذمت کی اور داعش کی طرف سے جاری حملوں پر تشویش کا اظہار کیا۔

مزار شریف کے ایک رہائشی سید قربان رضا نے کہا کہ معصوم لوگوں کو قتل کرنا، خاص طور پر رمضان کے مقدس مہینے میں، انسانیت کے خلاف جرم ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی گروہ جو مسلمانوں کے قتل عام کا ارتکاب کرتا ہے وہ اسلام کی تعلیمات سے واقف نہیں ہے۔

رضائی نے کہا کہ "خون کے پیاسے اس گروہ کے تازہ ترین حملوں نے سینکڑوں خاندانوں کو اپنے پیاروں کے کھو جانے پر ماتم کرتا چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ کیا ہے اور والدین سے ان کے بچے چھین لیے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ ہر خاندان نے دو یا تین افراد کی موت یا انہیں زخمی ہوتا دیکھا ہے۔

’’ان جرائم کے مرتکب افراد جہنم میں جلیں گے۔‘‘

بمباری کے متاثرین میں سے ایک کے رشتہ دار قمبر علی حسینی نے کہا کہ داعش تمام افغان شہریوں کی دشمن ہے۔

شیعہ ہزارہ برادری، جو کہ افغانستان کی 38 ملین آبادی کا 10 سے 20 فیصد حصہ ہے، طویل عرصے سے دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنی ہوئی ہے -- جن میں سے اکثریت داعش کی طرف سے کی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "داعش کسی کو نہیں بخشتی۔ اس گروہ کو لوگوں کا خون بہانے میں مزہ آتا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "داعش کا مقصد افغان شہریوں کی تباہی اور ان کا قتل ہے، کیونکہ وہ نہیں چاہتی کہ افغان امن اور خوشحالی کے ساتھ رہیں"۔

انہوں نے کہا کہ افغان شہریوں کو لازمی طور پر متحرک ہونا چاہیے اور اس دہشت گرد گروہ کے خلاف اٹھنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ دوسری صورت میں، ملک کے تمام نسلی گروہوں کو افغانستان میں سست موت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بڑھتے ہوئے خطرات

صوبہ بدخشاں سے تعلق رکھنے والے ایک عسکری تجزیہ کار عزیز اللہ ایوبی نے کہا کہ داعش- کے نے ملک بھر میں اپنی کارروائیوں کو تیز کر دیا ہے اور اب وہ خطے کے دیگر ممالک کے استحکام کے لیے بھی خطرہ بن رہی ہے۔

"داعش افغان شہریوں کی سنگین صورتحال سے فائدہ اٹھا رہی ہے اور انہیں اپنی صفوں میں شامل ہونے کی ترغیب دے رہی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ "ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور غربت داعش کی کامیابی ہےکیونکہ یہ نوجوانوں کو بھرتی کرتی ہے اور انہیں ماہانہ تنخواہ دیتی ہے۔"

تخار صوبے سے تعلق رکھنے والی سول سوسائٹی کی ایک کارکن، فاطمہ سکندری نے کہا کہ جب تک افغانستان میں داعش کو شکست دینے کے لیے اچھی طرح سے لیس فورس قائم نہیں کی جاتی، یہ گروہ مزید علاقوں پر قبضہ جاری رکھے گا۔

انہوں نے کہا کہ "داعش کو شکست دینے کے لیے ملک میں ایک اچھی طرح سے لیس فورس کا قیام بہت اہم ہے۔ ورنہ یہ دہشت گرد گروہ روزانہ بے گناہ لوگوں کو مارتا رہے گا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500