سلامتی

شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک اور داعش مل کر دہشت گردانہ حملے کر رہے ہیں

از سلیمان

داعش کی خراسان شاخ کے ارکان 2018 میں ننگرہار کے قریب تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ [فائل]

داعش کی خراسان شاخ کے ارکان 2018 میں ننگرہار کے قریب تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ [فائل]

کابل -- افغانستان کی قومی نظامت برائے سلامتی (این ڈی ایس) نے اتوار (21 فروری) کو دہشت گردی کے ایک ایسے سیل کی گرفتاری کا اعلان کیا جو طالبان سے منسلک حقانی نیٹ ورک اور "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کے ارکان پر مشتمل تھا۔

این ڈی ایس کی خصوصی فورسز نے پانچ ارکان پر مبنی سیل کو کابل کی پولیس ڈسٹرکٹ 17 سے گرفتار تھا اور اس پر کابل شہر کے مختلف حصوں میں، راکٹ رکھنے، منتقل کرنے اور انہیں چلانے کے ساتھ ساتھ گزشتہ سال قتل کیے جانے والے ہزارہ راہنما عبدل علی مزاری کی یاد میں منقعد ہونے والی ایک تقریب پر حملہ کرنے کا الزام ہے۔

حالیہ حملے ان بڑھتے ہوئے شواہد میں اضافہ ہیں کہ داعش اور حقانی نیٹ ورک، افغانستان میں دہشت گردانہ کاموں کی مل کر منصوبہ بندی کرتے اور انہیں عملی جامہ پہناتے ہیں۔ یہ بات افغانستان کے انٹیلیجنس کے حکام اور سیاسی تجزیہ نگاروں نے کہی ہے۔

این ڈی ایس کے سربراہ احمد ضیاء سراج نے 13 فروری کو کابل میں ہونے والی نیوز کانفرنس میں کہا کہ داعش اور حقانی نیٹ ورک ایک دوسرے کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہیں۔

ایک تصویری خاکہ جسے 23 اکتوبر کو بنایا گیا تھا میں، ایک شخص، اسلام آباد میں ایک مانیٹر پر، حقانی نیٹ ورک جو کہ طالبان کا متشدد دھڑہ ہے، کے بانی، جلال الدین حقانی کی زندگی کا جائزہ لینے والی ایک دستاویزی فلم دیکھ رہا ہے۔ [عامر قریشی/ اے ایف پی]

ایک تصویری خاکہ جسے 23 اکتوبر کو بنایا گیا تھا میں، ایک شخص، اسلام آباد میں ایک مانیٹر پر، حقانی نیٹ ورک جو کہ طالبان کا متشدد دھڑہ ہے، کے بانی، جلال الدین حقانی کی زندگی کا جائزہ لینے والی ایک دستاویزی فلم دیکھ رہا ہے۔ [عامر قریشی/ اے ایف پی]

دہشت گردی کا ایک مشترک گروہ

این ڈی ایس کے ترجمان حارث جبران نے کہا کہ داعش کے ارکان اور حقانی نیٹ ورک کے سابقہ ارکان پر مبنی ایک سرگرم دہشت گرد گروہ پہلے ہی موجود ہے۔

یہ اشتراک -- جسے امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے کے پس منظر میں قائم کیا گیا ہے -- کا مقصد کاروائیوں پر پردہ ڈالنا ہے جس سے طالبان اور حقانی نیٹ ورک اپنے آپ کو "قومی اور بین الاقوامی الزامات" سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دونوں گروہوں کا مقصد افغان عوام کو حکومت سے دور کرنا اور حکومت پر ان کے اعتماد کو نقصان پہنچانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک شراکت کے طریقہ کار کا سوال ہے "حقانی نیٹ ورک منصوبہ بندی اور وسائل کی فراہمی کا کام سنبھالتا ہے جبکہ داعش حملے کرتی اور ذمہ داری قبول کرتی ہے"۔

جبران نے کہا کہ پیچیدہ دہشت گردانہ حملوں کے زیادہ تر منصوبہ ساز اور مرتکب، اس سے پہلے حقانی نیٹ ورک کے لیے کام کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ واقعات میں، بائیو میٹرک اعداد و شمار سے پتہ چلا ہے کہ یہ افراد، ماضی میں حقانی نیٹ ورک کے ارکان کے طور پر جیل میں رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بہت سے واقعات میں، قیدیوں نے اعتراف کیا کہ وہ داعش کے ارکان ہیں جنہوں نے "ایک خصوصی گروہ" کے ساتھ بیعت کی ہوئی ہے مگر تفتیش سے آشکار ہوا کہ ان کا تعلق حقانی نیٹ ورک کی دوسری اور تیسرے درجے کی صفوں سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ مگر جنگجوؤں کو اس کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا اور ان کا خیال تھا کہ وہ داعش کی خراسان شاخ (داعش-کے) کے لیے لڑ رہے ہیں"۔

گروہ کے ارکان کا اعتراف

این ڈی ایس نے 4 فروری کو اعلان کیا کہ اس نے کابل میں ایک گروہ کو گرفتار کیا ہے جس میں داعش اور حقانی نیٹ ورک دنوں کے ارکان شامل تھے۔

این ڈی ایس نے کہا کہ یہ گروہ مقناطیس بموں سے حملے کرنے اور قتل میں ملوث تھا۔ اس نے کہا کہ ان کی تفتیش کے مطابق، طالبان، حقانی نیٹ ورک اور داعش کے ارکان نے "مل کر دہشت گردانہ حملے" کیے۔

اس نے کہا کہ طالبان اور حقانی نیٹ ورک نے دہشت گردی کے کام، خصوصی طور پر بڑے شہروں میں انجام دیے جبکہ داعش نے ذمہ داری قبول کی اور عوام کو دھوکہ دینے کے لیے مبہم بیانات جاری کیے۔

ایک قیدی (جس کی شناخت زاہد اللہ یا عبداللہ کے طور پر کی گئی ہے) نے کھیدار بیس کو نشانہ بنانے والے میزائل لانچ کرنے کے منصوبے اور کھیدار سڑک پر "سیکورٹی فورسز کو اڑانے کے لیے" بارودی سرنگ رکھنے کا اعتراف کیا۔

این ڈی ایس کی طرف سے ذرائع ابلاغ کو جاری کی جانے والی ایک وڈیو میں، ایک دوسرے قیدی (جس کی شناخت عبدل بسیر یا بلال کے طور پر کی گئی ہے) -- داعش -حقانی گروہ کے مبینہ رکن -- نے اغوا شدہ پولیس افسر کی ٹانگیں باندھ کر اسے زمین پر لٹانے کا اعتراف کیا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس افسر نے بسیر سے نماز پڑھنے کی اجازت مانگی مگر اس نے اسے نماز نہ پڑھنے دی اور اسے قتل کر دیا۔

این ڈی ایس نے کہا کہ داعش-حقانی نیٹ ورک گروہ کے گرفتار کیے جانے والے ارکان کابل شہر پر راکٹ کے ایک حملے میں ملوث تھے، جس میں 11 فروری کو حامد کرزئی انٹرنیشل ایئرپورٹ اور بگرام ایئر بیس پر ہونے والے حملے بھی شامل ہیں۔

این ڈی ایس نے گزشتہ سال مئی میں، کابل شہر سے ایک اور گروہ کے ارکان کو گرفتار کیا جو داعش اور حقانی نیٹ ورک کے ارکان پر مشتمل تھا۔

اس گروہ پر صدارتی حلف برداری کی تقریب اور بگرام ایئر بیس پر میزائل داغنے اور اس کے ساتھ ہی سکھ گردوارے اور مزاری کی یادگاری تقریب پر حملوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔

عالمی عزائم

سیاسی امور کے تجزیہ نگار احمد سعیدی نے کہا کہ "جب داعش کو قائم کیا گیا تھا تو اس کا حقانی نیٹ ورک کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا"۔

انہوں نے کہا کہ "مگر ان دنوں، اور بین افغان امن مذاکرات کے آغاز سے، داعش اور حقانی نیٹ ورک -- جو دونوں افغانستان میں امن اور استحکام کے خلاف ہیں -- نے تعلقات قائم کر لیے ہیں اور امن کے عمل کو نقصان پہنچانے کے لیے مل کر دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دی ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "داعش اور حقانی نیٹ ورک کے درمیان قریبی تعلقات کے قیام کے علاوہ، کچھ دیگر دہشت گردانہ گروہوں نے ان دونوں کے ساتھ شمولیت اختیار کر لی ہے"۔

سعیدی نے مزید کہا کہ "داعش، القاعدہ اور دیگر بین الاقوامی دہشت گرد گروہ قریب آ گئے ہیں تاکہ وہ بین الاقوامی تنظیم قائم کر سکیں --- جس کی قیادت حقانی نیٹ ورک کرے گا"۔

کابل سے تعلق رکھنے والے عسکری امور کے تجزیہ نگار اور ریٹائرڈ فوجی افسر، ظاہر عزیمی نے کہا کہ "مشترکہ مفادات نے دہشت گرد گروہوں جیسے کہ داعش، حقانی نیٹ ورک، القاعدہ اور طالبان کو اکٹھا کر دیا ہے تاکہ وہ ایک مشترکہ مقصد حاصل کر سکیں"۔

ان مقاصد میں "بین الاقوامی فورسز کو واپس چلے جانے پر مجبور کرنا، افغان حکومت کو کمزور کرنا اور گرانا، ملک پر کنٹرول حاصل کرنا، افغان شہریوں میں اختلافات کو جنم دینا اور افغان حکومت پر عوامی دباؤ کو بڑھانا، شامل ہیں"۔

کابل سے تعلق رکھنے والے سیاسی اور عسکری امور کے تجزیہ نگار عارف کیانی نے کہا کہ وہ گروہ جو داعش کے نام کے تحت کام کرتا ہے، حقانی نیٹ ورک کا حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ گروہ اقتدار کے اُس خلا کو پُر کرنے کا انتظار کر رہا ہے جس کے بارے میں اسے امید ہے کہ وہ اس وقت ظاہر ہو گا جب طالبان کے سیاسی نمائںدے مفاہمت کے عمل میں شامل ہو جائیں ہے۔ اور یہ ہی وجہ ہے کہ اس نے "دہشت گردانہ حملوں اور قتل کے واقعات میں اضافہ کر دیا ہے"۔

کابل کے سیاسی تجزیہ نگار زلمی افغانیار نے کہا کہ داعش نے دہشت گردی کے حالیہ واقعات، بموں اور قتل کے واقعات، کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مگر دستاویزات اور افغان سیکورٹی فورسز کی طرف سے فراہم کیے جانے والے شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ درحقیقت حقانی نیٹ ورک اور طالبان دہشت گردی کے ان کاموں کے پیچھے تھے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500