سلامتی

افواجِ پاکستان نے بلوچستان میں آپریشنز منتقل کرنے کی داعش-کے کی کوششیں ناکام بنا دیں

عبدالغنی کاکڑ

19 ستمبر کو ایک گارڈ کراچی میں نیشنل کرکٹ سٹیڈیم کی نگرانی کر رہا ہے۔ [رضوان تبسم/اے ایف پی]

19 ستمبر کو ایک گارڈ کراچی میں نیشنل کرکٹ سٹیڈیم کی نگرانی کر رہا ہے۔ [رضوان تبسم/اے ایف پی]

کوئٹہ – سیکیورٹی ذرائع کے مطابق، پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے ”دولتِ اسلامیہ“ (داعش-کے) کی خراسان شاخ کو اپنا آپریشنل ونگ افغانستان سے صوبہ بلوچلستان، پاکستان منتقل کرنے سے روک دیا ہے۔

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک انٹیلی جنس عہدیدار نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھی جانے کی شرط پر پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ مستونگ، کابو، سپلنجی ہرنائی اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں داعش کی کمین گاہوں پر حالیہ چھاپوں نے اس دہشتگرد گروہ کو خطہ میں ایک بڑا دھچکہ پہنچایا۔

انہوں نے کہا کہ یہ چھاپے نو داعش-کے کے مطلوب ملزمان کی ہلاکت اور سات ملزمان قائدین کی گرفتاری کا سبب بنے۔

انہوں نے کہا کہ گرفتار شدگان نے انکشاف کیا کہ داعش-کے ”ننگرہار، کنڑ، پاکتیکا اور افغانستان کے چند دیگر بدامن علاقوں میں بدلتی ہوئی سیکیورٹی صورتِ حال کی وجہ سے“ بلوچستان میں منتقل ہوکر ایک چھاؤنی تشکیل دینے کی کوشش میں تھی۔

ذرائع نے کہا کہ حالیہ آپریشنز میں بازیاب ہونے والی دستاویزات نے خطے میں داعش-کے کے تنظیمی ڈھانچے کا بھی انکشاف کیا۔

انہوں نے مزید کہا، ”پاکستان دہشتگردی کی بلا کے خاتمہ کے لیے پرعزم ہے اور کسی گروہ کو خطے کو غیر مستحکم کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔“

ذریعہ نے حوالہ دیتے ہوئے کہا، ”پاکستان مسلسل افغانستان سے مؤثر سرحدی انتظام کو یقینی بنانے کی درخواست کرتا رہا ہے، تاہم کوئی نتیجہ خیز حکمتِ عملی نہیں اپنائی گئی۔“

انسدادِ دہشتگردی کے ایک اعلیی عہدیدار، سید اسد رضا، جو قبل ازیں بلوچستان میں خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں، نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ داعش-کے طویل عرصہ سے پاکستان میں قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔

رضا نے کہا کہ مقامی تسہیل کار، جو کبھی تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور لشکرِ جھنگوی (ایل ای جے) سمیت دیگر کالعدم عسکریت پسند گروہوں کا جزُ تھے، ملک میں ماضی کے آپریشنز میں مارے جا چکے ہیں۔

انہوں نے کہا، ”داعش پاکستان میں ۔۔۔ دہشتگردی کو ہوا دینے کی کوشش کرتا رہا ہے، اور اس گروہ کا بنیادی مقصد فرقہ ورانہ فسادات کے ذریعے عدم استحکام کی فضا پیدا کرنا ہے۔“

رضا کے مطابق، انسدادِ دہشتگردی کی حالیہ کوششوں نے کوئٹہ-تافتان راستے سے ایران سے لوٹنے والے شعیہ زائرین پر حملوں کے منصوبوں کو ناکام بنایا۔

انہوں نے کہا، ”داعش-کے بلوچستان کی قبائلی پٹی میں اپنا رسوخ قائم کرنے کی ہرممکن کوشش کر رہی ہے۔“

”پاک-افغان سرحد کی سیکیورٹی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان سے پاکستان میں شدت پسندوں کے داخلہ کو روکنا ہماری اولین ترجیح ہے۔“

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں جاری شورش غیرملکی سرمایہ کاری کو روکنے کے مقصد سے دہشتگردی کی ایک نئی لہر کا جزُ ہے۔

استحکام کو یقینی بنانا

ایک اسلام آباد اساسی سینیئر سیکیورٹی تجزیہ کار میجر (ریٹائرڈ) محمد عمر نے کہا، ”گزشتہ دو دہائیوں سے بلوچستان اور پاکستان کے چند قبائلی علاقے شورش سے دوچار ہیں۔ خطے میں جاری بدلتی ہوئی صورتِ حال میں، وقت کی ضرورت ہے کہ شورش زدہ علاقوں کی سیکیورٹی صورتِ حال کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے۔“

انہوں نے کہا، ”اس تمام تر صورتِ حال کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیئے کہ داعش خطے میں اپنے آپ کو کس قدر فعال رکھ سکتی ہے۔“

بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی نائب صدر کیپٹن (ریٹائرڈ) عبدالخالق اچکزئی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ داعش اور ٹی ٹی پی عسکرتی پسندوں کو ملک میں قدم جمانے سے روکنے کے لیے حکومت کو سرحدی قبائل کو بھی اعتماد میں لینا چاہیئے۔

انہوں نے کہا، ”پاکستان میں سلامتی کی صورتِ حال ملک کے سیاسی استحکام سے براہِ راست مسنلک ہے۔ شدت پسندی اور جاری افراتفری کی تب تک بیخ کنی نہیں ہو سکتی جب تک ملک میں سیاسی استحکام یقینی نہ بنایا جائے۔“

انہوں نے حکومت کی جانب سے دسمبر 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک سکول کے قتلِ عام کے بعد کثیر سالہ حکمتِ عملی کا آغاز کیے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ”داخلی سہولت کاروں کے بغیر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ حکومت کو ان سازشوں کی جانب توجہ دینی چاہیئے جو ان امن مخالف عناصر کو احیا دینے کے لیے تیار کی جا رہی ہیں جو انسدادِ دہشتگردی کے قومی ایکشن پلان (این اے پی) کے تحت کیے جانے والے آپریشنز میں بڑے پیمانے پر ختم کر دیے گئے تھے۔“

انہوں نے کہا کہ امن مخالف گروہ ان دنوں ریاستی اداروں اور عوام کے مابین پیدا ہونے والی خلا کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

اچکزئی نے کہا، ” مقامی آبادی کی آڑ استعمال کرنے والے ان عسکریت پسندوں کی انسداد کے لیے مقامی قبائل کو اعتماد میں لینا نہایت اہم ہے۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

پاکستان میں داعش کا بڑھتا ہوا رسوخ تسہیل کاری کے بغیر کسی بھی طور ممکن نہیں، اگر پاکستان اس بلا سے نمٹنا چاہتا تو اسے ان عناصر سے نمٹنا چاہیئے جو فرقہ واریت، شدت پسندی کو ہوا دیتے ہوئے ملک میں داعش کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔

جواب

شاندار تجزیہ۔ میرے خیال میں یہ حقیقت ہے کہ بلوجستان میں دہشتگردوں کی سرگرمیوں میں اافہ ہو رہا ہے اور داعش وغیرہ کے خلاف ٹھوس کاروائی کرنے کی ضرورت ہے۔

جواب