سلامتی

اپنے قول پر واپسی، طالبان کا افغان شہروں پر حملہ

از نجیب اللہ

افغان محافظ 20 جولائی کو عیدالاضحیٰ کی نماز کے دوران ہرات کی جامع مسجد کے باہر پہرہ دیتے ہوئے۔ [ہوشانگ ہاشمی/اے ایف پی]

افغان محافظ 20 جولائی کو عیدالاضحیٰ کی نماز کے دوران ہرات کی جامع مسجد کے باہر پہرہ دیتے ہوئے۔ [ہوشانگ ہاشمی/اے ایف پی]

کابل -- افغان حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان کے شہروں پر قبضہ جمانے کی کوشش میں طالبان کے متواتر حملے تنظیم کے جھوٹوں کا پردہ فاش کرتے ہیں، ان کا مزید کہنا ہے کہ افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورسز (اے این ڈی ایس ایف) نے باغیوں کو بے رحمی سے پیچھے دھکیل دیا ہے۔

طالبان رہنماء عامر خان متقی کے ایک ترجمان نے 13 جولائی کو ایک ٹویٹر پوسٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ عسکری تنظیم کا شہروں کو نشانہ بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ مگر جب بزورِ طاقت افغانستان پر قبضہ کرنے کی بات آتی ہے تو گزشتہ کئی ہفتوں میں طالبان کی کارروائیاں تنظیم کے اصل ارادوں کو ظاہر کرتی ہیں۔

افغان وزارتِ داخلی امور کے ایک ترجمان، احمد ضیاء ضیاء نے کہا کہ طالبان کا دعویٰ ایک بڑا جھوٹ ہے۔

انہوں نے صوبائی دارالحکومتوں بغلان اور بادغیس کو تاراج کرنے کی طالبان کی حالیہ کوششوں کی طرف اشارہ کیا جس کو اے این ڈی ایس ایف کی جانب سے ناکام بنا دیا گیا اور اس عمل میں انہیں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے پاس شہروں پر حملہ کرنے کی قابلیت یا طاقت نہیں ہے۔

ضیاء نے کہا، "ہم اپنے لوگوں کو یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ اے این ڈی ایس ایف میں اپنے ملک کو کسی بھی تباہ کن دہشت گرد کارروائی سے بچانے کی صلاحیت اور جذبہ موجود ہے۔"

افغان طالبان کو مسترد کرتے ہیں

صوبہ دائیکنڈی سے وولسائی جرگہ کی ایک رکن، شیریں محسنی، نے بھی طالبان کے دعووں کو رد کیا۔

سرِ پُل، غزنی اور فریاب کے صوبائی دارالحکومتوں پر ناکام حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، "ہم بہت سے شہروں اور صوبائی دارالحکومتوں پر طالبان کے حالیہ حملوں جنہیں ناکام بنا دیا گیا تھا، کے شاہد ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ طالبان کسی بھی شہر پر قبضہ کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ جزوی طور پر اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت صوبائی دارالحکومتوں کا دفاع کرنے کے لیے پُرعزم ہے اور جزوی طور پر اس وجہ سے کہ عوام نے اپنے شہروں کا دفاع کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا، "لوگ اس دہشت گرد تنظیم کا سامنا کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں ،ان مظالم کے پیشِ نظر جس کا اس نے ارتکاب کیا ہے۔ ہمیں لازماً چوکس رہنا ہے، کیونکہ اگر طالبان نے اپنی صلاحیت میں اضافہ کر لیا، تو مجھے یقین ہے کہ وہ حملے شروع کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔"

محسنی نے کہا کہ شہروں کے مکین طالبان حکومت کی واپسی نہیں چاہتے، ان کا مزید کہنا تھا کہ عسکری تنظیم "لوگوں کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے اور شہروں میں رہنے والے لوگ واپسی کی کسی بھی کوشش کی مزاحمت کریں گے۔"

انہوں نے کہا کہ افغانوں نے اے این ڈی ایس ایف کے لیے اپنی حمایت کا مظاہرہ کیا ہے اور خود ہی طالبان کو واپس دھکیلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

طالبان کا پراپیگنڈہ

کابل کے مقامی دفاعی تجزیہ کار اور ریٹائرڈ فوجی افسر عتیق اللہ امرخیل نے کہا کہ طالبان کے پاس شہروں پر قبضہ کرنے کی قابلیت نہیں ہے، اور ان کا ان پر حملہ نہ کرنا چاہنے کا دعویٰ محض ایک پراپیگنڈہ ہے جو ان کے بارے میں عوام کے ادراک پر اثرانداز ہونے کے لیے بنایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا، "ایک چیز جو واضح ہو گئی ہے یہ ہے کہ طالبان نے جو کچھ کرنے کا وعدہ کیا ہے وہ کبھی نہیں کریں گے۔"

ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے جاوزان، تخار اور بادغیس کے صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے کی پوری کوشش کی مگر انہیں شکست ہوئی۔

امرخیل کا کہنا تھا کہ ان کے افعال 20 برس پہلے کی طالبان حکومت سے بالکل بھی مختلف نہیں ہیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ طالبان اسی فرسودہ طریقے سے زندگی گزاریں۔

انہوں نے کہا کہ البتہ، طالبان اس بات پر غور نہیں کر رہے کہ شہروں کے مکین جمہوریہ، گزشتہ 20 سال کی کامیابیوں یا ان کی آزادیوں کوطالبان کی مطلق العنان حکومت سے تبدیل نہیں کرنا چاہتے۔

عوام کی حالیہ باغی تحریکوں کا حوالہ دیتے ہوئے ، انہوں نے مزید کہا کہ عام شہری اے این ڈی ایس ایف کی حمایت کرنے کے لیے پُرعزم ہیں.

انہوں نے کہا، "ہم نے حال میں وسائل کا متحرک ہونا اور باغی تحریکوں کا قیام دیکھا ہے، خصوصاً شمال میں، جہاں عوام کی باغی فوجیں اے این ڈی ایس ایف کے ساتھ شامل ہو گئی ہیں اور کئی شہروں میں طالبان کے حملوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔"

'ایامِ سیاہ' میں واپسی نہیں

کابل میں ایک سیاسی تجزیہ کار، احمد بہروز نے کہا کہ افغان، خصوصاً نوجوان، افغانستان کو آگے بڑھتے اور ترقی کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔

یہ نشاندہی کرتے ہوئے کہ یونیورسٹیوں، سکولوں اور ذرائع ابلاغ کے آزاد اداروں کے قیام نے علم و دانش کی ترقی میں حصہ ڈالا ہے، انہوں نے کہا، "گزشتہ دو دہائیوں میں ہم نے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کی مہربانی سے افغان نوجوان عالمی پیش رفت سے آگاہ ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان آگے بڑھے لیکن انہیں معلوم ہے کہ طالبان ابھی بھی اسی انتہاپسند نظریئے پر زندگی گزارتے ہیں جس پر ماضی میں گزارتے تھے۔

ایک سرکاری محکمے کی ترجمان، کابل کی مکین مسعودہ ضیاء نے کہا کہ طالبان کی واپسی ایک ڈراؤنا خواب ہو گا جس کے نتیجے میں بنیادی ڈھانچے کی صرف تباہی ہو گی اور یہ افغانستان کو 20 برس پہلے کے تاریک دنوں میں واپس دھکیل دے گی۔

انہوں نے کہا، "میں نے یونیورسٹی کی سطح پر اپنی تعلیم مکمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے،" ان کا مزید کہنا تھا کہ اپنے ساتھی افغانوں کی بہتر خدمت کرنے کے لیے وہ اپنی ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے لیے پُرامید ہیں۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کی ممکنہ واپسی ان کے روشن مستقبل کے خوابوں کو برباد کر دے گی۔

ضیاء نے کہا، "کوئی بھی وحشی طالبان حکومت اور پرچم تلے نہیں جینا چاہتا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500