دہشتگردی

افغان طالبان کی ناانصافیوں کے بارے میں بولنے لگے

نجیب اللہ

گزشتہ 2 جون کو افغان احتجاج کنندگان کابل میں ایک طالبان مخالف مظاہرے میں نعرے لگا رہے ہیں۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

گزشتہ 2 جون کو افغان احتجاج کنندگان کابل میں ایک طالبان مخالف مظاہرے میں نعرے لگا رہے ہیں۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

کابل — افغان شہری عسکریت پسندوں کے غیر اسلامی اور خودپسندانہ اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے طالبان کے خلاف اپنی آوازیں اٹھا رہے ہیں۔

طالبان عسکریت پسندوں نے افغان عوام کے لیے اور اسلام کے دفاع میں لڑنے کا عذردیتے ہوئے افغانستان میں دسیوں ہزاروں معصوم شہریوں کو ہلاک اور زخمی کیا۔

لیکن افغان عوام طالبان کے جھوٹ کو مسترد کر رہے ہیں۔

کابل میں ایک این جی او کی 35 سالہ ملازم شفیقہ حکیم نے کہا، ”طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنی مادرِ وطن کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں لیکن انہوں نے صرف لوگوں کو مجروح کیاہے، عوامی تنصیبات کو تباہ کیا ہے اور معصوموں کو قتل کیا ہے۔“

23 نومبر کو کابل میں افغان سوگواران 22 نومبر کو مسجد میں ہونے والے ایک بم دھماکے کے ایک شکار کی میت کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ ایک خودکش حملہ، جس کی ذمہ داری 'دولتِ اسلامیۂ' نے قبول کی، میں ایک شعیہ اجتماع کو نشانہ بنایا گیا اور کم ازکم 27 افراد جاںبحق ہوئے۔ [شاہ مارائی/اے ایف پی]

23 نومبر کو کابل میں افغان سوگواران 22 نومبر کو مسجد میں ہونے والے ایک بم دھماکے کے ایک شکار کی میت کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ ایک خودکش حملہ، جس کی ذمہ داری 'دولتِ اسلامیۂ' نے قبول کی، میں ایک شعیہ اجتماع کو نشانہ بنایا گیا اور کم ازکم 27 افراد جاںبحق ہوئے۔ [شاہ مارائی/اے ایف پی]

انہوں نے سلام ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا، ”اپنی غیر شرعی جنگ کو 'جہاد' کہہ کر طالبان جذبات کو بھڑکانا چاہتے ہیں۔ تاہم عوام مکمل طور پر آگاہ ہیں کہ عسکریت پسند دھوکہ دہی اختیار کرتے ہیں، کیوں کہ انہیں صرف اپنے ذاتی مفادات کو پورا کرنے کی فکر ہے۔“

مساجد میں قتل

افغانستان میں اقوامِ متحدہ کے معاون مشن (یو این اے ایم اے) اور دیگر ذرائع کے مطابق، گزشتہ 15 برسوں کے دوران افغانستان میں جنگ کے دوران تقریباً 111,000 افراد قتل ہو چکے ہیں۔

کابل میں ٹیلی کام کے ایک ملازم مجید اللہ ناصری نے کہا، ”طالبان اسلام کا حامی اور مجاہدین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، جبکہ درحقیقت وہ بد ترین کام کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ مساجد میں بھی قتل کرتے ہیں، جو کہ مسلمانوں کے لیے مقدس ترین مقامات ہیں۔“

انہوں نے سلام ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا، ”جب سے وہ اقتدار میں آئے [۔۔۔] طالبان نے ہزاروں افغانوں کو قتل کیا اور ہر قسم کے ظالمانہ اور پر تشدد اقدامات کیے ہیں۔“

انہوں نے کہا، ”طالبان مذہب کی آڑ میں اپنے تمام تر غلط اقدامات کی توجیح پیش کرتے ہوئے اسلام کے نام کو استعمال کرتے ہیں۔“

کابل سے تعلق رکھنے والے ایک عالمِ دین عبدالاحمد محمّدیار نے کہا کہ طالبان اور داعش عسکریت پسندوں کی جانب سے کیے گئے تمام اقدامات اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

انہوں نے سلام ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا، ”اسلامی تعلیمات کے مطابق، مساجد کو محفوظ ترین مقام تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم طالبان مساجد کے اندر بھی مسلمانوں کو قتل کرتے اور خود کش حملے کرتے ہیں۔“

کابل کے ایک نجی سکول میں صحافت کے طالبِ علم امین اللہ نے مساجد کے اندر ہونے والے متعدد خود کش حملوں اور بم دھماکوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان حملوں کے تمام متاثرین مسلمان تھے جو عبادت کی غرض سے آئے تھے۔

انہوں نے کہا، ”گزشتہ برس رمضان کے دوران ننگرہار میں ہونے والے خود کش حملہ، کابل میں باقر العلوم مسجد، اور [۔۔۔] ہیرات میں ایک مسجد پر بم حملے کی کوئی کیا توجیح پیش کر سکتا ہے؟“

مقامی عہدیداران نے کہا کہ 24 مارچ کو ایک حالیہ واقعہ میں ایک عسکریت پسند نے صوبہ سرائے پل میں مسجد گزر شاہان میں ایک دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلہ نصب کیا، جس کا مقصد نمازِ جمعہ کو ہدف بنانا تھا۔

صوبائی گورنر کے ایک ترجمان، زب اللہ امانی نے سلام ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بم نصب کرنے کے بعد اور اس امر کی شناخت کرنے کے بعد کہ حکام اس کی تلاش میں تھے، دہشتگرد نے عبادت گزاروں کے درمیان چھپنے کی کوشش کی۔

امانی نے کہا کہ خوش قسمتی سے افغان سیکیورٹی فورسز نے بم کو ناکارہ بنا دیا اور مجرم کو گرفتار کر لیا۔

سرائے پل میں ایک عالمِ دین مولوی عبدالصمد نے ایک قتلِ عام ہونے سے روکنے پر سیکیورٹی فورسز کا شکریہ ادا کیا۔

انہوں نے کہا، ”یہ طریقہ اسلام کے اصولوں اور عقائد کے منافی ہے اور مساجد کے اندر عبادت گزاروں کو ہدف بنانے والے دائرۂ اسلام وانسانیت سے خارج ہیں۔“

طالبان کی تعلیم کے خلاف جنگ

طالبان نے لاکھوں معصوم افغانوں کو قتل اور زخمی ہی نہیں کیا بلکہ انہوں نے ملکی معیشت، بنیادی ڈھانچہ اور تعلیمی نظام پر بھی بھاری ضربیں لگائی ہے۔

کابل میں ایک سماجی کارکن عبیداللہ یوسفی نے بتایا، اپنے دور حکومت [1996-2001] میں طالبان حکمرانوں نے عمومی طور سے تعلیم کی حمایت نہیں کی اور لڑکیوں کو اسکول جانے سے روک دیا۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا، "گروپ اپنے جنگی حربوں کے ذریعے اب بھی اس ملک کے ہزاروں بچوں کو تعلیم کے حصول سے روک رہا ہے۔"

افغان ایم پی صفورہ الخانی نے سلام ٹائمز کو بتایا، طالبان سے افغانستان کو پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصانات میں اسکولوں کو جلا دینا اور ہزاروں اسکول کے بچوں اور یونیورسٹی کے طلبا کو ان کی کلاسز میں حاضری سے روکنا شامل ہے۔

وزیر تعلیم اسداللہ حنیف بلخی نے 16 اپریل کو ملک کے شمالی علاقے میں تعلیمی نظام کی جانچ کے لئے کیے جانے والے دورہ کے دوران بتایا، افغانستان بھر میں سیکورٹی خدشات کی بنا پر1,006 اسکول بند ہیں۔

تاہم، انہوں نے بتایا، سیکورٹی کو پائیدار بنانے اور افغان بچوں کو تعلیم کے حصول کے لئے حکومت اپنی بہترین کوششیں کر رہی ہے۔

قابل ذکر پیش رفت ہوئی ہے، تعلیمی سال کے آغاز پر حکومت نے پکتیکا صوبے میں 13 اسکول پھر سے کھول دیے ہیں جو سیکورٹی وجوہات کی بنا پر بند تھے۔

پکتیکا صوبے کے ڈائریکٹر محکمہ تعلیم نسیم واجد نے 23 مارچ کو مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا، یہ اسکول گزشتہ چار سالوں سے بند تھے۔

انہوں نے بتایا، حکام کی جانب سے صوبے کو دوبارہ محفوظ بنانے کے بعد اسکول کھول دیے گئے۔

عوام کی بڑھتی نفرت

مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان کی کارروائیاں جو کہ غیر اسلامی اور قومی مفاد کے خلاف ہیں، شہریوں کو عسکریت پسندی کے خلاف آواز اٹھانے پر اکسا رہی ہیں۔

اس بے لاگ نکتہ چینی میں اضافہ ہورہا ہے خصوصاً 23 مارچ کو صدر اشرف غنی کے واضح پیغام کے بعد کہ افغانستان کے تمام دشمنوں کو کچل دیا جائے۔

بلخ میں افغان نیشنل پولیس کی خصوصی فورس کے اپنے دورے کے دوران غنی نے کہا، آئین اور حکومت افغانستان کے خلاف جو بھی ہتھیار اٹھاتا ہے وہ ایک دشمن ہے اور آپ کو اسے کچلنے کی اجازت ہے۔

سماجی کارکن یوسفی نے بتایا، "گزشتہ پانچ سالوں کے دوران طالبان مخالف عوامی رائے میں اضافہ ہوا ہے۔"

"ہم تجزیہ کاروں کی جانب سے بے لاگ [طالبان مخالف] بیانات کا مشاہدہ کر رہے ہیں،" انہوں نے بتایا۔ "مسجدوں میں امام عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کو اسلام کے خلاف قرار دے رہے ہیں۔ اور سول سوسائٹی کے کارکنوں نے مظاہروں کے انعقاد کے ذریعے طالبان کی کارروائیوں کی مذمت کی ہے۔"

انہوں نے ملک بھر میں اٹھنے والی طالبان مخالف عوامی لہر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا، "اس وقت ہمارے لوگ اپنی سیکورٹی فورسز کے شانہ بشانہ غزنی اور قندھار صوبوں میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عسکریت پسندوں کے خلاف لوگوں کا صبر جواب دے چکا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500