دہشتگردی

طالبان کے حملے قول و فعل میں تضاد کا اظہار ہیں

از نجیب اللہ

افغان نیشنل آرمی (اے این اے) کے سپاہی اور آگ بجھانے والے اہلکار 11 فروری کو لشکر گاہ، صوبہ ہلمند میں ہونے والے خودکش کار بم دھماکے کے مقام پر آگ بجھاتے ہوئے۔ حکام نے کہا کہ کم از کم چھ افراد اس وقت جاں بحق ہو گئے جب بارودی مواد سے بھری ایک کار ان افغان سپاہیوں سے ٹکرا گئی جو اپنی تنخواہیں وصول کرنے کے لیے ایک بینک کے باہر قطار بنائے ہوئے تھے۔ [نور محمد/اے ایف پی]

افغان نیشنل آرمی (اے این اے) کے سپاہی اور آگ بجھانے والے اہلکار 11 فروری کو لشکر گاہ، صوبہ ہلمند میں ہونے والے خودکش کار بم دھماکے کے مقام پر آگ بجھاتے ہوئے۔ حکام نے کہا کہ کم از کم چھ افراد اس وقت جاں بحق ہو گئے جب بارودی مواد سے بھری ایک کار ان افغان سپاہیوں سے ٹکرا گئی جو اپنی تنخواہیں وصول کرنے کے لیے ایک بینک کے باہر قطار بنائے ہوئے تھے۔ [نور محمد/اے ایف پی]

کابل -- پورے افغانستان میں شہریوں کے خلاف طالبان کے جاری حملوں نے گروہ کے دعووں اور افعال کے درمیان تضاد کا پردہ فاش کر دیا ہے -- ایک تضاد جس نے مزید حملوں کو روکنے کے لیے شہریوں کو سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر کام کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

کابل میں ایک افغان دفاعی تجزیہ کار، احمد بہروز نے کہا، "اپنے تمام بیانات میں، طالبان نے بار بار عام شہریوں کی زندگیوں کا تحفظ کرنے اور عوامی مقامات کو تباہ کرنے سے باز رہنے کے ارادوں کا اظہار کیا ہے، اور پھر بھی، عام شہری ہی گروہ کے حملوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔"

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا، "مزید برآں، انہوں نے ملک میں بنیادی ڈھانچے کے بہت سے منصوبوں کو نقصان پہنچایا ہے اور یہاں تک کہ بہت سی مساجد کو تباہ کیا ہے۔"

مظالم کی طویل فہرست

طالبان اور "دولت اسلامیہ عراق و شام" (داعش) اپنی ظالمانہ کارروائیوں کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی دینی یا اخلاقی اصولوں کے پیروکار نہیں ہیں۔

مثال کے طور پر، گزشتہ ہفتے ہی، 7 فروری کو، ایک خودکش بمبار نے افغان سپریم کورٹ کے ملازمین کو نشانہ بنایا، جس میں کم از کم 20 جاں بحق اور 41 افراد زخمی ہوئے، جو سب کے سب عام شہری تھے۔

6 جنوری کو، عسکریت پسندوں نے صوبہ باغلان میں کوئلے کے کان کنوں پر حملہ کیا، جس میں پانچ افراد جاں بحق اور آٹھ زخمی ہوئے۔ دسمبر میں، پولیس کے ہاتھوں 29 جنگجوؤں کی ہلاکت کے بعد صوبہ قندھار میں طالبان جنگجوؤں نے ایک انتقامی حملے میں 23 عام شہریوں کو ہلاک کر دیا۔

نومبر میں، کابل میں مسجد باقر العلوم میں ایک خود کش حملے میں کم از کم 30 افراد جاں بحق اور 80 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ اگست میں، دہشت گردوں نے کابل میں ایک کالج کے کیمپس پر دھاوا بول دیا تھا، جس میں 13 افراد، بشمول سات طلباء، جاں بحق، اور دیگر 35 زخمی ہو گئے تھے۔

اور جولائی میں، دو خود کش بم دھماکوں نے کابل میں ایک پُرامن مظاہرے کو ہدف بنایا تھا، جس میں کم از کم 80 افراد جاں بحق اور 231 زخمی ہو گئے تھے۔

بہت سی دیگر مثالوں کا حوالہ دیتے ہوئے، بہروز نے کہا، "یہ غیرانسانی فعل ہیں۔"

عسکریت پسند 'بے رحمی' دکھاتے ہیں

صوبہ زابل سے تعلق رکھنے والے حال ہی میں ہائی اسکول سے فارغ التحصیل 21 سالہ محمد دین، جو تعلیم حاصل کرنے کے لیے کابل چلے گئے تھے، نے کہا، "ہر کوئی جانتا ہے کہ طالبان اور داعش کے ارکان خواتین، بچوں اور قبائلی عمائدین پر کوئی رحم نہیں کھاتے۔"

7 جنوری کو پیش آنے والے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا، "بہت عرصہ نہیں گزرا، طالبان نے ہمارے علاقے کے ایک معروف قبائلی عمائد، حاجی محمد پوپل کے راستے میں سڑک کے کنارے ایک بم نصب کر دیا تھا۔"

پوپل عسکریت پسندوں کا ہدف بننے والے واحد قبائلی عمائد نہیں تھے، کا اضافہ کرتے ہوئے محمد دین نے کہا، "وہ اور ان کا بیٹا دونوں ہی اس وقت جاں بحق ہو گئے تھے جب ان کی گاڑی بارودی سرنگ سے ٹکرائی تھی۔"

انہوں نے کہا، "حالیہ برسوں میں، درجنوں قبائلی عمائدین اغواء، قتل ہو چکے ہیں یا دوسری صورت میں بارودی سرنگوں کے ذریعے ہلاک ہوئے ہیں، جو کہ سب کی سب طالبان کی جانب سے کی جانے والی کارروائیاں تھیں۔"

تعاون انسداد کی کلید

وزارتِ داخلہ (ایم او آئی) کے حکام کے مطابق، زیادہ سے زیادہ لوگ دہشت گرد حملوں کو روکنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔

وزارت کے علاقائی پالیسی ساز ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ، جنرل ہمایوں عینی نے سلام ٹائمز کو بتایا، "جب سابقہ برسوں سے موازنہ کریں تو پولیس کے ساتھ عوام کے تعاون کی سطح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ اس سال قانون نافذ کرنے والے اداروں نے عوام کے تعاون سے چار خودکش بمباروں کو گرفتار کیا "جو عام شہریوں کی رہائشوں میں چھپے ہوئے تھے اور کابل، ہرات اور خوست میں حملے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔"

عینی نے کہا کہ مزید برآں، عوام کی جانب سے 119 ہاٹ لائن کے ذریعے پولیس کو فراہم کردہ معلومات کی مہربانی سے عسکریت پسندوں کی جانب سے نصب کردہ 441 بارودی سرنگیں پکڑی گئیں اور تباہ کر دی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹول فری نمبر 119 لوگوں کو آسانی کے ساتھ پولیس سے رابطہ کرنے اور مشکوک سرگرمیوں پر رازداری سے معلومات دینے کے قابل بناتا ہے۔

انہوں نے کہا، "اگر عوام کا یہ تعاون نہ ہوتا، تو ایسے واقعات ممکنہ طور پر اس ملک کے دسیوں بلکہ سینکڑوں شہریوں کی جانیں لے سکتے تھے۔"

عینی نے کہا کہ ایک طرف عوام کے پولیس کے ساتھ تعاون، اور دوسری طرف عوام کے مطالبات کو پورا کرنے میں پولیس کی کارکردگی، کے نتیجے میں عوام اور پولیس کے تعاون میں اضافہ ہوا ہے۔

شہری مدد کے لیے تیار

رحیمہ رضاعی، جو کابل میں ایک نجی یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کی طالبہ ہیں، نے سلام ٹائمز کو بتایا، "عوام جیسے ہی مشتبہ افراد کو دیکھیں انہیں پولیس کو لازماً مطلع کرنا چاہیئے، کیونکہ زیادہ تر صورتوں میں خودکش بمباروں کو ان کے چہروں اور رویوں سے پہچانا اور شناخت کیا جا سکتا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ پولیس کو مطلع کرنا "بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے درجنوں بے گناہ لوگوں کی جانیں بچ سکتی ہیں۔"

23 سالہ حفیظ اللہ، جو کابل میں ایک جنرل سٹور پر کام کرتے ہیں نے کہا کہ طالبان کے حملوں میں جاں بحق ہونے والے شہریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد لوگوں کو معلومات کے ساتھ آگے آنے پر اکسا رہی ہے۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا، "ہر خود کش حملے اور ہر بم دھماکے میں متاثرین کی اکثریت عوام الناس ہوتے ہیں۔ ایسے واقعات کو دوبارہ رونما ہونے سے روکنے کے لیے لوگوں پر پولیس کے ساتھ تعاون کرنا لازم ہے۔"

حفیظ اللہ نے کہا کہ انہوں نے دو مواقع پر مشکوک افراد کی اطلاع پولیس کو فراہم کی تھی۔

انہوں نے کہا، "مجھے شک گزرا کہ وہ تخریبی سرگرمیاں کرنے کی کوشش کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرنے والے دہشت گرد ہو سکتے ہیں۔ میں نے 119 پر پولیس کو کال کیا اور مدد مانگی۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ میں عوام اور ساتھ ہی ساتھ پولیس کی مدد کرنے کے قابل ہوا۔"

جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے رہنماء، سید جواد حسینی نے کہا کہ امن و امان کو یقینی بنانے میں عوام کا حکومت کے ساتھ تعاون بلاشبہ اہمیت کا حامل ہے۔

تاہم، انہوں نے کہا کہ حکومت پر لازم ہے کہ عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے۔

حسینی نے سلام ٹائمز کو بتایا، "عوام اور حکومت کا یہ تعاون صرف اس صورت میں بڑھے گا اگر لوگ حکومت کو اپنی ہی حکومت کے طور پر دیکھیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 3

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

bohata acha mazmoon ha is trha kay mazmoon parhny say lppgo ko bohat kuch sekhny our dehkmy ko mila ha our her agay pechy dekhny kay say pata chalta ha humara kon dost ha our kon dushman

جواب

بہت اچھا موضوع

جواب

اللہ کے نبى کى حدیث ھے مسلمان وه جس کى زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ ہو

جواب