دہشتگردی

افغان عسکریت پسندوں کی جانب سے مساجد کے اندر مسلمانوں کا قتل جاری

نجیب اللہ

23 جولائی کو کابل میں ایک شعیہ مسجد پر ہونے والے جڑواں خودکش حملے میں جاںبحق ہونے والوں کے سامان کے پاس ایک رشتہ دار رو رہا ہے۔ کم از کم 80 افراد کی موت کا باعث بننے والے اس حملے کی ذمہ داری آئی ایس آئی ایل نے قبول کی۔ [شاہ مارائی/اے ایف پی]

23 جولائی کو کابل میں ایک شعیہ مسجد پر ہونے والے جڑواں خودکش حملے میں جاںبحق ہونے والوں کے سامان کے پاس ایک رشتہ دار رو رہا ہے۔ کم از کم 80 افراد کی موت کا باعث بننے والے اس حملے کی ذمہ داری آئی ایس آئی ایل نے قبول کی۔ [شاہ مارائی/اے ایف پی]

کابل — افغان حکام اور علمائے دین کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند افغانستان میں اپنی تخریبی مہم جاری رکھ کر یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ انہیں مساجد اور دیگر عبادت گاہوں کا کوئی احترام نہیں۔

افغان صدر اشرف غنی کے نائب ترجمان شاہ حسین مرتضوی کے مطابق، عسکریت پسندوں نے گزشتہ دو ماہ کے دوران 50 مساجد کے ساتھ ساتھ دیگر انفراسٹرکچر اور عوامی تنصیبات کو تباہ کیا ہے یا انہیں نقصان پہنچایا ہے۔

مرتضوی نے 29 نومبر کے ایک بیان میں کہا کہ اس عرصہ کے دوران عسکریت پسندوں نے 302 سکولوں، 41 مراکزِ صحت، 5,305 گھروں، 1,818 سٹورز، ایک سرکاری عمارت، 6 پلوں، 290 راستوں، 170 سیوریج ڈرینز، 123 کلومیٹر سڑکوں، 203 چاردیواریوں اور 84 سروس سنٹرز کو تباہ کیا یا انہیں نقصان پہنچایا۔

مذہبی عقائد کی توہین

افغان عوام طالبان اور ”دولتِ اسلامیۂ عراق و شام“ (آئی ایس آئی ایل) سمیت دیگر عسکریت پسند گروہوں کی جانب سے اسلام کے نام پر کیے جانے والے ایسے اقدامات کی شدید مذمّت کرتے ہیں۔

علمائے دین کا کہنا ہے کہ مساجد اور دیگر عبادت گاہوں کی تباہی غیر اسلامی اور تمام تر مذہبی دستورِ عمل کے خلاف ہے۔

کابل سے تعلق رکھنے والے ایک عالمِ دین عبدالاحمد محمّدیار نے کہا، ”مسجد ایک مقدس مقام ہے کیوںکہ لوگ وہاں عبادت کے لیے جاتے ہیں۔“

انہوں نے سلام ٹائم سے بات کرتے ہوئے کہا، ”عبادت کے لیے مساجد جانے والوں کو احساسِ سکون ہونا چاہیے اور ان کے لیے پرامن طور پر اور پرسکون ذہن و روح کے ساتھ عبادت کرنا ممکن ہونا چاہیے۔“

انہوں نے کہا، ”بدقسمتی سے کسی مذہب یا فرقے پر یقین نہ رکھنے والے دہشتگرد مساجد کو تباہ اور ان مقدس مقامات پر مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں۔“

کابل سے تعلق رکھنے والے ایک 27 سالہ طالبِ علم الیاس رشید نے سلام ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا، ”جسے لوگ مقدس سمجھتے ہوں اس کو اس قدر غایت درجہ نظراندز کرنے کی نظیر اس ملک میں نہیں ملتی۔“

اس نے کہا کہ مسلمان ذہنی سکون کے ساتھ مساجد میں عبادت کے لیے جایا کرتے تھے، اس نے مزید کہا کہ اب دہشتگردوں نے ان سے وہ اطمینان چھین لیا ہے۔

جامعہ کابل کی ایک 25 سالہ طالبہ اسماء ہئوتکی نے سوال کیا، ”ایسا کیوں ہے کہ خدا کے لیے لڑنے کا دعویٰ کرنے والے دہشتگرد خانہ ہائے خدا اور عبادت گاہیں تباہ کرتے ہیں؟“

اس نے کہا کہ دہشتگرد طاقت اور دہشت کے سوا کسی چیز پر یقین نہیں رکھتے۔

"بہت سے بے گناہ لوگوں کی شہادت اور مسجدوں کو تباہ کیے جانے کے علاوہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کیسے قرآن کے بہت سے نسخے شہید ہوئے اور وہ خون میں لت پت تھے"،کابل کے ایک 47 سالہ رہائشی یعقوب نے 21 نومبر کو کابل میں باقر العلوم مسجد کو ہدف بنانے والے خودکش حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا.

انہوں نے کہا، ”عسکریت پسند مساجد کو تباہ کرتے اور خدا کا قرآنِ پاک نذرِ آتش کرتے ہوئے کیسے اسلام کے دفاع کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟“

تعمیر اور بحالی

حکومتِ افغانستان نے مساجد کی تعمیر اور بحالی کے لیے فنڈ مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔

11 دسمبر کو کابل میں حضرت محمدؐ کے یومِ ولادتِ کے موقع پر غنی نے کہا کہ حکومت نے ملک بھر میں مساجد کی تعمیر یا تجدید کے لیے 10 ملین امریکی ڈالر (671.8 ملین افغان افغانی) مختص کیے ہیں۔

غنی نے علمائے دین پر زور دیا کہ وہ سچائی پر روشنی ڈالیں اور جنگ اور تخریب کاری کی جانب سے لڑنے والے فریب خوردہ افراد کی رہنمائی اور انہیں نصیحت کریں۔

عام افغانی کابل کے اس اقدام کی ستائش کر رہے ہیں اور عسکریت پسندوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اپنی لڑائی اور تخریب کاری ختم کر دیں۔

کابل کے ایک 35 سالہ رہائشی محمّد حسن عبدالحئی نے کہا کہ خوارج کے گروہوں کے دام میں پھنسنے والوں کی اکثریت وہ نوجوان ہیں جو دہشتگردوں کی سیاست اور ان کی چالوں سے ناواقف ہیں۔

انہوں نے کہا، ”تاہم، اب مساجد کی تباہی اور خدا کی کتاب کو نذرِ آتش کیے جانے کے بعد ان نوجوانوں کو علم ہو گیا ہو گا کہ یہ گروہ اسلام کے محافظ نہیں۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500