سلامتی

طالبان کے خلاف بڑے جوابی حملوں کے لیے افغان افواج کی تیاری

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

5 جولائی کو کابل سے قریب 70 کلومیٹر شمال میں بگرام کے مقام پر سابقہ امریکی ہوائی اڈے کے اندر ایک ہسپتال کے دروازے پر افغان نیشنل آرمی (اے این اے) کا ایک فوجی تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

5 جولائی کو کابل سے قریب 70 کلومیٹر شمال میں بگرام کے مقام پر سابقہ امریکی ہوائی اڈے کے اندر ایک ہسپتال کے دروازے پر افغان نیشنل آرمی (اے این اے) کا ایک فوجی تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

کابل – جیسا کہ طالبان افغانستان بھر میں ایک جارحیت مسلط کیے ہوئے ہیں ، افغان حکام نے (6 جولائی) کو حالیہ دنوں میں طالبان کے قبضہ میں آنے والے تمام اضلاع کو واپس لینے کا عہد کیا۔

افغان حکام نے شمالی افغانستان میں طالبان کی جارحیت کی انسداد کے لیے سینکڑوں کمانڈو اور حکومت موافق گروہ کے ارکان کو تعینات کیا، جس کے نتیجہ میں قبل ازاں سینکڑوں فوجی ہمسایہ تاجکستان کو فرار ہو گئے۔

لڑائی کئی صوبوں میں بھڑک چکی ہے، تاہم شورشیوں نے بنیادی طور پر شمالی دیہی علاقوں میں مہم پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔

افغان وزارتِ دفاع کے ایک ترجمان فواد امان نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا "ہم دشمن سے ہارے ہوئے علاقہ ہائے عملداری واپس حاصل کرنے کے لیے ایک بڑی جارحانہ کاروائی کا آغاز کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔"

تاجکستان میں چوروخدارون تربیتی میدانوں میں تاجک فوری کاروائی کی فورسز۔ [نعمت اللہ میر سید اوف]

تاجکستان میں چوروخدارون تربیتی میدانوں میں تاجک فوری کاروائی کی فورسز۔ [نعمت اللہ میر سید اوف]

"اس کاروائی کے لیے ہماری افواج زمینوں پر اکٹھی ہو رہی ہیں۔"

فوج اور حکومت موافق گروہ کے سینکڑوں ارکان تاخر اور بدخشاں کے صوبوں میں تعینات تھے۔

افغان دفاعی عہدیداران نے کہا ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کے 11 ستمبر کو طے شدہ حتمی انخلاء سے قبل، مئی کے اوائل میں شروع ہونے والی طالبان کی جارحانہ کاروائی کے جواب میں انہوں نے بڑے شہروں، سڑکوں اور سرحدی قصبوں کے تحفظ پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔

افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورسز (اے این ڈی ایس ایف) نے تاحال علاقہ ہائے عملداری کے سب سے زیادہ نقصان والے کم گنجان دیہی علاقوں میں ملک کے شہروں پر تاحال قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے۔

افغانستان کے لیے انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے ایک اعلیٰ تجزیہ کار اینڈریو واٹکنز نے کہا، "قبضہ ہونے والے متعدد اضلاع – دورافتادہ اور کمک کی مشکل فراہمی کے حامل، کم عسکری تزویری حیثیت کے— تیار پھل جیسے تھے۔"

امن اور سیاسی مصالحت کے لیے مذاکرات میں سنجیدگی سے شرکت کے بجائے، طالبان اپنی افواج کو ایک عسکری قبضہ کے لیے تیار رکھنے پر مرکوز محسوس ہوتے ہیں۔

گزشتہ جمعہ کو امریکی صدر جو بائیڈن نے وائیٹ ہاؤس میں خدشات کو کم کرنے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ امریکی فوج ضرورت پڑنے پر حکومت اور اس کی افواج کی مدد کے لیے اسلحہ لانے کی "مکمل استعداد" رکھتی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق، پنٹاگان کابل میں اپنے وسیع سفارتی احاطہ کے تحفظ کے لیے ممکنہ طور پر تقریباً 600 فوجی افغانستان میں رکھے گا۔

کابل کے لیے اعلیٰ امریکی ایلچی روس ولسن شورشیوں پر بھڑک اٹھے۔

انہوں نے ہفتہ کو ٹویٹ کیا، "تشدد اور دہشت سے امن پیدا نہیں ہو سکتا۔"

وسط ایشیا خطرے کی زد میں

تاجکستان کی ریاستی قومی سلامتی کمیٹی (جی کے این بی) نے پیر کو تصدیق کی کہ افغان فوجی رات کو طالبان کے ساتھ جھڑپوں کے بعد ان کے ملک میں گھس آئے۔

تاجکستان کی ریاستی انفارمیشن ایجنسی کی جانب سے شائع شدہ بیان میں کہا گیا، "اچھی ہمسائگی کے اصول کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور افغانستان کے بین الاقوامی امور میں مداخلت نہ کرنے کی اپنی حیثیت پر کاربند رہتے ہوئے، افغان حکومتی افواج کو تاجک علاقہٴ عملداری میں داخل ہونے دیا گیا۔"

ایوانِ صدر سے ایک بیان میں کہا گیا، کہ ردِّ عمل کے طور پر تاجک صدر امام علی رحمٰن نے "تاجکستان اور افغانستان کے مابین سرحد کو مزید مستحکم کرنے کے لیے 20,000 ریزرو افواج کی پیش رفت" کا حکم دیا۔

اے کے آئی پریس نے خبر دی کہ رحمٰن نے سیکیورٹی کاؤنسل کے ارکان اور دفاع اور نفاذِ قانون کی ایجنسیوں کے ڈائریکٹرز کو تاجکستان اور افغانستان کے مابین سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کا حکم دیا۔

ازبک صدر کے پریس آفس نے ایک بیان میں کہا کہ پیر کو رحمٰن نے ازبک صدر شوکت مرزا یوف سے فون پر بات چیت بھی کی۔

دونوں رہنماؤں نے تاجک افغان تعلقات کے متعلقہ امور اور علاقائی تعاون پر بات چیت کرتے ہوئے افغانستان میں بڑھتے ہوئے تناؤ کے خطے پر ممکنہ اثرات پر خصوصی توجہ دی۔

’ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے‘

افغان کمانڈر جنرل میر اسداللہ کوہستانی، جو اب بگرام ہوائی اڈے – جہاں سے امریکی جنگی ہوائی جہاز 20 برس تک طالبان کی کمین گاہوں کو ٹھکانہ بناتے رہے – کے انچارج ہیں، نے کہا کہ افغان افواج عسکریت پسندوں کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔

کوہستانی نے کہا کہ انہیں پہلے ہی خبریں مل رہی تھیں کہ طالبان اس اڈے کے گرد و نواح کے "دیہی علاقوں میں نقل و حمل" کر رہے تھے۔

بگرام پر تعینات ایک سپاہی رفیع اللہ نے کہا، "دشمن اعادہ کیے ہوئے ہیں اور وہ یہاں حملہ کرنے کی ضرور کوشش کریں گے۔"

جب ان کے عقب سے دو افغان عسکری ہیلی کاپٹر پرواز کر رہے تھے، انہوں نے کہا، "لیکن ہم انہیں موقع نہیں دیں گے۔"

رفیع اللہ نے زور دیتے ہوئے کہا، "ہم یہاں سونے کے لیے نہیں آئے۔ یہاں سب بگرام کی حفاظت کے لیے تیار ہیں۔ ہمارا عزم بلند ہے۔"

ایک اور سپاہی نے بھی کہا کہ وہ یقیناً طالبان سے لڑنے کے لیے تیار ہے۔

اس نے کہا، "ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے، لیکن ہمیں اسلحہ اور اپنے رہنماؤں کی پختہ پشت پناہی درکار ہے۔"

وزارتِ دفاع نے ہفتہ کو کہا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران حکومتی افواج سے لڑتے ہوئے 300 سے زائد طالبان جنگجو ہلاک ہوئے۔

متعدد فضائی حملوں میں ہلاک ہوئے، بشمول ان کے ہفتہ کو صوبہ ہلمند میں ہونے والے قبل از سحر کے حملے میں ہلاک ہوئے، جہاں شورشی اور حکومتی افواج باقاعدگی سے لڑتی رہی ہیں۔

ہلمند صوبائی کاؤنسل کے ایک رکن عطااللہ افغان نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، "حالیہ دنوں میں افغان فضائی افواج نے طالبان کی کمین گاہوں پر فضائی حملوں کو تیز تر کر دیا ہے اور شورشیوں کو جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔"

منگل کو ایک اور بیان میں وزارتِ دفاع نے کہا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران لغمان، ننگرہار، پاکتیکا، قندھار، زابل، بادغیس، بلخ، جاوزان، ہلمند، بدخشاں، کندوز اور کاپیسا کے صوبوں میں 261 طالبان عسکریت پسند ہلاک اور 206 زخمی ہوئے۔

وزارت نے پیر کو کہا کہ ایک اور واقعہ میں افغان فضائی افواج نے پیر کو افغانستان کے جنوب مغربی صوبوں میں خود کش حملوں کی تسہیل کے انچارج ایک طالبان عسکریت پسند معراج کو پانچ ممکنہ خودکش بمباروں کے ہمراہ ہدف بنا کر قتل کر دیا۔

بیان میں کہا گیا، "معراج جنوبی صوبوں کے لیے طالبان کے عسکری کمانڈر صادر ابراہیم کا کزن تھا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500