سلامتی

بے دریغ قتل و غارت افغان طالبان کے 'امن مذاکرات' کے مایوس کن حربوں کو بے نقاب کرتی ہے

از سلیمان

زخمی افغان 2 ستمبر 2019 کو کابل میں ایک بہت بڑے خونریز بم دھماکے، جس کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی، کے متعلق بتاتے ہوئے، جبکہ باغی اور واشنگٹن معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ [نجیبہ نوری جسٹن گیرارڈے/ اے ایف پی ٹی وی / اے ایف پی]

كابل -- گزشتہ چند روز میں پُرتشدد واقعات کے مرغولوں نے طالبان رہنماؤں کی جانب سے اختیار کردہ حربے کو واضح کر دیا ہے: تنظیم کے عام افغانوں کے جاری قتل کو امن مذاکرت کی گفت و شنید کی میز پر افغان حکومت اور اس کے بین الاقوامی اتحادیوں پر دباؤ ڈالنے کے ایک ذریعے کے طور پر استعمال کرنا۔

طالبان اور امریکہایک معاہدہ کرنے کے قریبہیں جو طالبان اور افغان حکومت کے درمیان افغانوں کے مابین امن مذاکرات کے لیے راہ ہموار کرے گا، ابھی تک طالبان نے عام شہریوں پر اپنے حملے بڑھائے ہوئے ہیں اور ان کی ہلاکتوں کو لین دین کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

وزارتِ داخلہ کے مطابق، کابل کے ایک رہائشی علاقے میں سوموار (2 ستمبر) کو ایک بہت بڑے بم دھماکے میں کم از کم 16 افراد ہلاک اور 119 دیگر زخمی ہو گئے تھے، جو کہ سب کے سب عام شہری تھے۔

طالبان نے ایک بیان میں اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

کابل میں ایک رات قبل بہت بڑے بم دھماکے کے بعد وزیر اکبر خان ہسپتال میں علاج کے بعد 3 ستمبر کو زخمی افراد بستر پر لیٹے ہیں۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

کابل میں ایک رات قبل بہت بڑے بم دھماکے کے بعد وزیر اکبر خان ہسپتال میں علاج کے بعد 3 ستمبر کو زخمی افراد بستر پر لیٹے ہیں۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تصاویر طالبان کے کار بم دھماکے کے بعد کا منظر پیش کر رہی ہیں جو کہ 3 ستمبر کو کابل میں ہوا تھا۔ [فائل]

سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تصاویر طالبان کے کار بم دھماکے کے بعد کا منظر پیش کر رہی ہیں جو کہ 3 ستمبر کو کابل میں ہوا تھا۔ [فائل]

قائم مقام وزیرِ داخلہ مسعود اندرابی 31 اگست کو قندوز شہر میں اک افغان سپاہی کے ساتھ گپ شپ لگاتے ہوئے۔ طالبان کی جانب سے صوبائی دارالحکومت پر حملے کے چند گھنٹوں بعد، افغان سیکیورٹی کے اعلیٰ حکام حقیقت کی بغور نگرانی کرنے کے لیے پہنچے۔ [نصرات رحیمی/ٹوئٹر]

قائم مقام وزیرِ داخلہ مسعود اندرابی 31 اگست کو قندوز شہر میں اک افغان سپاہی کے ساتھ گپ شپ لگاتے ہوئے۔ طالبان کی جانب سے صوبائی دارالحکومت پر حملے کے چند گھنٹوں بعد، افغان سیکیورٹی کے اعلیٰ حکام حقیقت کی بغور نگرانی کرنے کے لیے پہنچے۔ [نصرات رحیمی/ٹوئٹر]

وزارتِ داخلہ کے ترجمان نصرات رحیمی نے کہا کہ بم دھماکہ بارود سے لدے ہوئے ایک ٹریکٹر کے ذریعے کیا گیا جسے کسی نے گرین ویلیج کے باہر کھڑا کیا تھا، جو کہ ایک پختہ عمارت ہے جس میں امدادی اداروں اور بین الاقوامی تنظیموں کے دفاتر قائم ہیں۔

رحیمی نے کہا کہ پھر پانچ مسلح افراد نے ایک "پیچیدہ حملے میں علاقے میں زبردستی گھسنے کی کوشش کی، مگر افغان سیکیورٹی فورسز نے انہیں عمارت میں زیادہ اندر تک جانے سے پہلے ہی ہلاک کر دیا۔

اے ایف کی جانب سے حوالہ دی گئی دھماکے میں زخمی ہونے والی ایک خاتون نے کہا، "ہمارے تمام کمرے تباہ ہو گئے، اور مجھے نہیں سمجھ آ رہی تھی کہاں جاؤں۔ میری دو بیٹیاں زخمی ہوئی ہیں اور ہسپتال میں ہیں۔"

"اس دھماکے نے ہماری زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ یہ پہلی بار، یا دوسری بار نہیں ہوا ہے؛ یہ تیسری بار ایسا ہوا ہے۔"

دریں اثناء، جنگجوؤں نے ہفتہ (31 اگست) کے روز بھی صوبہ قندوز میں، قندوز شہر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کے ایک روز بعد، انہوں نے ہمسایہ صوبہ بغلان کے دارالحکومت، پُل خمری میں آپریشن شروع کر دیا۔

افغان حکام کے مطابق، افغان فوج نے چند ہی گھنٹوں میں دونوں حملے ناکام بنا دیئے، جن میں درجنوں طالبان جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا گیا۔ قندوز شہر، جو کہ 2015 میں کچھ عرصے کے لیے طالبان کے ہاتھوں میں چلا گیا تھا، سوموار (2 ستمبر) کے روز معمول پر واپس آ گیا تھا۔

وزارتِ دفاع کے نائب ترجمان فواد امان نے کہا، "طالبان کے تمام تر حملے، جو مذاکرات کی میز پر جیتنے کے لیے کیے گئے تھے ان میں افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورسز [اے این ڈی ایس ایف] کے ہاتھوں انہیں شکست ہوئی۔"

امان نے کہا، "طالبان نے قندوز اور بغلان صوبوں کے دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے کے لیے اپنے تمام وسائل استعمال کیے مگر بھاری جانی نقصان اٹھانے کے بعد وہ اپنی پناہ گاہوں کو واپس لوٹ گئے۔"

امان کے مطابق، صوبہ بغلان میں کم از کم 51 طالبان جنگجو ہلاک یا زخمی ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا، "قندوز شہر اور پُل خمری اور اس کے مضافات میں صورتحال معمول پر واپس آ گئی ہے، جہاں فوج موجود ہے۔ ان علاقوں میں مکینوں کو کوئی خطرات لاحق نہیں ہیں۔"

امان نے کہا، "فرح صوبے میں موجود طالبان نے بھی صوبائی دارالحکومت پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کا منصوبہ ناکام ہو گیا اور اب افغانوں کو سمجھ آ گئی ہے کہ طالبان جھوٹ بول رہے ہیں اور صوبوں پر قبضہ کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ صرف خوف پھیلا رہے ہیں اور مذاکرات میں فائدہ حاصل کرنے کے لیے عام شہریوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔"

عام شہری بطور سودے بازی کا چارہ

دیگر حکام اور تجزیہ کاروں کا بھی کہنا ہے کہ طالبان کے حالیہ حملوں کا مقصد امریکہ کے ساتھ اور پھر افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات میں فتح کو یقینی بنانا ہے۔

سوموار والے دن جب بم دھماکہ ہوا تو امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد بھی مجوزہ معاہدے پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے افغان دارالحکومت میں موجود تھے۔

قندوز کی صوبائی کونسل کے ایک رکن، غلام ربانی ربانی نے کہا، "جنگجو مذاکرات میں بین الاقوامی برادری اور افغان حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے اپنے حملوں میں اضافہ کرنا اور عام شہریوں کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ قندوز شہر پر طالبان کے حملے میں سات سے زائد عام شہری ہلاک اور کم از کم 70 دیگر زخمی ہوئے تھے۔

ربانی نے کہا، "قندوز شہر پر حملہ کرنے میں طالبان کو کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ واحد کامیابی جو انہوں نے حاصل کی وہ یہ تھی کہ انہوں نے خواتین اور بچوں کو قتل کیا اور گاڑیوں اور دکانوں کا نذرِ آتش کر دیا۔"

کابل کے ایک سیاسی تجزیہ کار، امین اللہ شارق نے کہا، "عام شہریوں کو قتل کر کے اور دہشت پھیلا کر، طالبان دنیا کو دکھانا چاہتے تھے کہ ان کے پاس صوبوں اور شہروں پر قبضے کرنے کی صلاحیت ہے، مگر وہ ناکام ہو گئے۔"

شارق نے کہا، "قندوز، بغلان، تکہار، بلخ اور ملک کے دیگر حصوں میں طالبان کے لگ بھگ تمام متاثرین عام شہری تھے۔ مذاکرت میں رعایات حاصل کرنے کے لیے جنگجوؤں کی حکمتِ عملی غیر انسانی، غیر اسلامی اور ایک جرم ہے۔"

کابل کے عسکری تجزیہ کار عزیز ستانکزئی نے کہا، "طالبان افغان حکومت اور امریکیوں کو دکھانا چاہتے تھے کہ تنظیم کے پاس افغانستان کی سلامتی کو چیلنج کرنے کی صلاحیت ہے۔"

"مگر ان کے منصوبوں کے الٹ نتائج نکلے ہیں کیونکہ وہ قندوز شہر یا پُل خمری پر قبضہ نہیں کر سکے؛ لہٰذا، وہ پہلے سے بدتر حالت میں ہیں۔"

طالبان دباؤ میں

کابل کے مقامی سیاسی تجزیہ کار مقدم امین نے کہا، "کئی علاقوں، خصوصاً قندوز، بغلان اور بدخشاں صوبوں، میں طالبان کی پے در پے ناکامیوں نے تنظیم کی عسکری صلاحیت کو بری طرح تباہ کیا ہے اور امن مذاکرات میں طالبان رہنماؤں کے مؤقف کو کمزور کیا ہے۔"

وزارتِ دفاع کے ترجمان، امین نے کہا، "طالبان بہت زیادہ دباؤ میں ہیں۔"

"ہم نے بدخشاں، تکہار، بلخ اور فرح صوبوں میں بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کر دیئے ہیں۔ نتیجتاً، ہم نے سینکڑوں طالبان جنگجوؤں، بشمول اہم کمانڈروں، کو ہلاک کر دیا ہے اور، خصوصاً بدخشاں میں، ان کی پناہ گاہوں کو تباہ کر دیا ہے۔"

امان کے مطابق، صرف صوبہ بدخشاں میں ہی، اے این ڈی ایس ایف نے گزشتہ 10 روز میں کیرن و منجان، جرم، باہرک، وردوج، ارغنجخوا، ارگو اور یمگان اضلاع میں، کم از از 150 طالبان جنگجو ہلاک کیے ہیں۔

امان نے مزید کہا، "29 اگست کو، طالبان نے صوبہ تکہار کے ضلع چاہ آب میں ضلع کے مرکز پر قابو پانے کے لیے ایک بہت بڑا حملہ کیا، مگر افغان فوج نے بروقت حملے کو ناکام بنا دیا۔ طالبان کی سرخ یونٹ کا کمانڈر، حکمت، اپنے 28 دیگر جنگجوؤں کے ہمراہ مارا گیا، اور باقی سب کو دور دراز کے علاقوں اور ہمسایہ دیہات میں بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا۔"

نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) کے سابق سربراہ امر اللہ صالح نے ٹوئٹر پر کہا، "طالبان ہار چکے ہیں۔ عام شہریوں کو بموں اور بندوقوں کے نشانے پر رکھنا طاقت کی علامت قطعاً نہیں ہے۔"

صالح نے کہا، "امریکہ کے ساتھ معاہدہ زندگی کا مقام ہے اور اگر یہ ناکام ہوتا ہے تو وہ درگور ہو جائیں گے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 3

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

وہ جو امریکیوں کی بمباری میں ہر روز لوگوں کی شہادتیں ہورہیں تم لوگوں کو نظر نہیں آتا مذاکرات کی نام سے کتنے طالبو کو شہید کیا

جواب

طالبان سے مزاکرات صرف دکھلاوا تھا جو دنیا کو دکھانا تھا لیکن طالبان نے بھی چال چل دى اور بلیک واٹر کی موجودگی پکڑ لى، ایک طرف مزاکرات کے نام پر امريکى طالبان کو بےوقوف بنانے کا کوشش کررهے تھے اور دوسرى طرف انکے لئے بلیک واٹر کو تیار کررهے تھے

جواب

بیس سالوں نے جو حق واضح کیا ہے اسے جھٹلانا ،،، بلی کو دیکھ کر کبوتر کا آنکھیں بند کنے کے مترادف ہے ،، اس طرح کی باتیں کرکے مسئلہ تھوڑا اور لمبا ہو سکتا ہے ،، مگر اس کا حل سرف طالبان کے پاس ہی ہے ،،

جواب