جلال آباد -- صوبہ ننگرہار، جو کبھی "دولتِ اسلامیہ" کی خراسان شاخ (داعش-کے) کا ہیڈکوارٹرز ہوا کرتا تھا، کے مکین اپنے گھر دوبارہ تعمیر کر رہے ہیں جبکہ وہاں زندگی معمول پر آ رہی ہے۔
مگر افغان افواج ٹوٹے پھوٹے دہشت گرد گروہ پر دباؤ ڈالنا جاری رکھے ہوئے ہیں، اور اس کی باقیات کو ہلاک یا گرفتار کر رہی ہیں جبکہ گروہ نے کئی حالیہ خونریز حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورسز (اے این ڈی ایس ایف) کی جانب سے گروہ کو علاقائی پسپائیوں کے سلسلے سے دوچار کیے جانے کے بعد داعش-خراسان نے نومبر 2019 میں ایک بیان جاری کیا تھا جس میں ننگرہار میں گروہ کی شکست کا اعتراف کیا گیا تھا۔
27 مئی کو اقوامِ متحدہ کے نگرانوں نے کہا تھا کہ تنظیم کے خلاف جاری کارروائیوں نے باقی ماندہ ارکان کا محاصرہ کر لیا ہے اور گروہ کے آمدنی کے وسائل کو محدود کر دیا ہے۔
داعش-خراسان کے بہت سے جنگجو پکڑے گئے ہیں یا ہتھیار ڈال چکے ہیں، اور دیگر، بشمول چند قائدین، روپوش ہو گئے جبکہ افغان فوج انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر گرفتار یا ہلاک کر رہی ہے۔
اگست میں، افغان حکام نے اپنی خفیہ خصوصی فوج کی جانب سے عبداللہ اورکزئی کی ہلاکت کی اطلاع دی تھی جو داعش-خراسان کا چیف جسٹس تھا۔ انہوں نے اس واقعے کی تاریخ یا مقام کا انکشاف نہیں کیا تھا۔
نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) کا کہنا تھا کہ اورکزئی داعش-خراسان کی جانب سے ذمہ داری قبول کردہ ایک حملے کا منصوبہ ساز تھا جو اُس مہینے کے شروع میں جلال آباد میں ایک جیل پر ہوا تھا جس میں کم از کم 29 افراد مارے گئے تھے۔
16 نومبر کو حکام نے بتایا تھا کہ افغان سیکیورٹی فورسز نے اُس مہینے کے شروع میں کابل یونیورسٹی پر ایک خونریز حملے کے دو مشتبہ منصوبہ سازوں کو گرفتار اور ایک کو ہلاک بھی کیا تھا۔
"اصل منصوبہ ساز"، محمد عادل، 2 نومبر کو کابل یونیورسٹی پر داعش کی جانب سے ذمہ داری قبول کردہ ایک حملے کا ذمہ دار تھا جس میں کم از کم 22 افراد جاں بحق اور دیگر 27 زخمی ہوئے تھے۔
عادل، جو گرفتار ہوا تھا، وہ مغربی کابل کے نواحی علاقے دشتِ بارچی میں کوہسارِ دانش تعلیمی مرکز پر 24 اکتوبر کو ہونے والے حملے کے پیچھے بھی تھا۔ اس خودکش بم دھماکے میں 24 افراد جاں بحق ہوئے تھے اور 50 سے زائد زخمی ہوئے تھے، جن میں سے بیشتر چھوٹی عمر کے طالب علم تھے۔
داعش فرار
صوبہ ننگرہار کے پولیس چیف، جنرل غلام ثنائی ستانکزئی نے کہا کہ داعش کے بھگوڑوں کو گرفتار کرنے کی مہم جاری ہے۔
ستانکزئی کا کہنا تھا، "اڑھائی برس قبل، کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ داعش کو کبھی شکست دی جا سکے گی۔ اب ننگرہار میں داعش کی جانب سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا، "داعش شنواری کے علاقے میں مضبوط تھی۔ اس نے اپنے تسلط کو پیچیرہ گام اور خوگیانی کے اضلاع تک وسیع کرنے کی کوشش کی۔"
"[داعش-خراسان نے] تورا بورا میں رکنے کی کوششیں کیں، جہاں غاریں ہیں اور ایک مضبوط ٹھکانہ بن سکتا تھا۔۔۔ مگر ہماری افواج نے اور عوام کے اٹھ کھڑے ہونے والے گروہوں نے ان پر ان علاقوں کو چھوڑ جانے کے لیے دباؤ ڈالا۔"
ننگرہار کی نائب گورنر، حبیبہ کاکڑ نے کہا کہ اے این ڈی ایس ایف کی جانب سے داعش کو بڑے دھچکے لگنے کے بعد، اس کے ارکان میں سے چند ایک روپوش ہو گئے اور منظرِ عام پر آتے ہی گرفتار کر لیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا، "ہماری [این ڈی ایس کی] فورسز ہر ماہ اپنی کارروائیوں میں بہت سے داعش کے جنگجوؤں، بشمول اہم شخصیات، کو گرفتار کرتی ہیں اور یہ مہم جاری ہے۔"
انہوں نے کہا، "میں پُراعتماد ہوں کہ داعش کے جنگجو دوبارہ ننگرہار میں ظاہر ہونے کے قابل نہیں ہوں گے۔ وہ ایسا کرنے کی کوششیں کرتے ہیں، مگر ہماری فورسز انہیں دوبارہ سر اٹھانے کی اجازت نہیں دیں گی۔"
مقامی باشندے داعش کی مزاحمت کرتے ہیں
صوبہ ننگرہار کے مکین جو کبھی داعش-خراسان کے خلاف لڑے تھے اپنی معمول کی زندگیوں کی طرف لوٹ گئے ہیں۔
سنہ 2014 کے آخر میں، داعش اشین، ہسکا مینا اور نازیان کے اضلاع میں عروج پر تھی۔ چند ماہ بعد، دہشت گردوں نے ننگرہار کے 12 قبائلی عمائدین کو ہلاک کر دیا، جس سے عوام تنظیم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
مقتول قبائلی عمائدین کے ایک واضح حوالے میں، ضلع کوٹ میں بارکوٹ کے ایک مکین نذر محمد جنہوں نے داعش-خراسان کے خلاف بغاوتوں میں حصہ لیا تھا، نے کہا، "جب داعش ضلع کوٹ میں آئی اور [ضلع میں] بڑے پُل پر عام شہریوں کو ذبح کیا، تو ہم نے بغاوت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔"
"ہم نے اپنے ہتھیار لیے اور داعش سے لڑنا شروع کر دیا۔ ہم نے اڑھائی سال کے اندر اندر داعش کو تباہ کر دیا اور اسے ضلع کوٹ سے نکال باہر کیا۔"
انہوں نے کہا، "اگر ہم اکٹھے نہ ہوئے ہوتے، تو یہ ایک ایک کر کے ہم سب کو مار ڈالتی۔ اب ہم معمول کی زندگی گزار کر خوش ہیں۔"
ملک کمین، ایک قبائلی عمائد جنہوں نے داعش-خراسان کے ہاتھوں خاندان کے بہت سے افراد کھوئے، نے کہا، "جب داعش نے قبضہ کیا، تو یہ ایک قیامتِ صغریٰ تھی۔"
اپنے علاقے کے متعلق انہوں نے بتایا، "ہماری پوری آبادی کو اپنے گھر چھوڑنے پڑے اور دوسری جگہوں پر جا کر کرائے کے گھروں میں رہنا پڑا۔ ہم نے بہت سے مشکلات برداشت کیں، اور ایسے بھی دن آئے کہ ہمیں بھوکا سونا پڑتا تھا۔ اب جب اللہ کی رحمت سے داعش کو شکست دی جا چکی ہے، ہم اپنے علاقوں میں واپس لوٹنے اور اپنی عام روزمرہ کی زندگی دوبارہ شروع کرنے کے قابل ہیں۔"
ضلع ہسکا مینا میں ایک علاقے کے مکین، فضل محمد شینواری نے کہا، "گورگورائی داعش کے ہیڈکوارٹرز میں سے ایک تھا۔"
شینواری نے حال ہی میں اپنا گھر دوبارہ بنایا ہے، جو اس وقت بارودی سرنگ کے دھماکے میں تباہ ہو گیا تھا جب داعش-خراسان کا یہاں قبضہ تھا۔
انہوں نے کہا، "یہ مارکیٹ ۔۔۔ چھ یا سات سال پہلے ترقی کر رہی تھی اور پُرہجوم رہتی تھی، مگر جب داعش آئی، اس نے مارکیٹ میں دکانوں کے اندر چھاؤنیاں اور عدالتیں بنا لیں جسے وہ عام شہریوں کے سر قلم کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔"
انہوں نے کہا، "کچھ گھر ابھی بھی تباہ حال ہیں، مگر ان میں لوگ رہتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں وہ کرائے کے گھروں سے بہتر ہیں۔ اب، داعش کا کوئی ڈر نہیں ہے، اور عام شہری معمول کی زندگی جی سکتے ہیں۔"
گورنر ننگرہار کے ایک ترجمان، عطاء اللہ خوگیانی کے مطابق داعش کے ساتھ لڑائی کے دوران تباہ ہونے والے گھروں کی بحالی کا عمل جاری ہے، اور درجنوں گھر جو داعش نے تباہ کر دیئے تھے حکومت کی امداد کے ساتھ دوبارہ تعمیر کر دیئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا، "اشین اور کوٹ کے اضلاع میں بہت سے مکینوں کے گھر دوبارہ تعمیر کر دیئے گئے ہیں، اور صدر کی جانب سے خصوصی ہدایات کی بنیاد پر بہت سے مزید گھروں کو بحال کیا جائے گا۔"