سلامتی

داعش کی شکست کے بعد ننگرہار کے مکینوں کی اپنی زندگیوں کی تعمیرِ نو کے لیے گھر واپسی

از خالد زیرائی

صوبہ ننگرہار کے ضلع اشین کے مکینوں نے افغان فوجی حکام کی جانب سے اس اعلان کے بعد گھروں کو واپس لوٹنا شروع کر دیا ہے کہ "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" کی افغان شاخ، جو داعش-خراسان کے نام سے بھی معروف ہے، کو صوبے میں شکست دے دی گئی ہے۔ [نوراللہ شیرزادہ / اے ایف پی ٹی وی / اے ایف پی]

ننگرہار -- جب "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش) کا صوبہ ننگرہار کے ضلع اشین میں پہلی بار، سنہ 2015 میں، ظہور ہوا، تو عسکری تنظیم نے یہاں کے مکینوں کو دھوکے کے ساتھ یہ سوچنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی کہ انہیں کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔

چند ماہ بعد، جنگجوؤں نے عام شہریوں کو تکلیفیں دینے اور قتل کرنے کی بربریت سے بھرپور مہم شروع کر دی۔

ان کے ابتدائی سفاکانہ کاموں میں سے پہلا سنہ 2015 کے وسط میں واقع ہوا، جب داعش کے ارکان نے اشین میں 12 قبائلی عمائدین کو گرفتار کر لیا اور انہیں بارودی سرنگوں پر بٹھا کر بارودی سرنگیں پھاڑ کر انہیں ہلاک کر دیا۔

ضلع اشین سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی عمائد، ملک کمین نے ایک قدیم انتہاپسند فرقے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "جب داعش نے اشین میں قبائلی عمائدین کو دھماکے سے اڑایا، تو ہمیں احساس ہوا کہ یہ خوارج بدترین مخلوق ہیں۔"

25 نومبر کو لی گئی اس تصویر میں، افغان سیکیورٹی فورسز صوبہ ننگرہار میں ضلع اشین میں "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش) کے جنگجوؤں کے خلاف ایک کارروائی میں شریک ہیں۔ [نوراللہ شیرزادہ/اے ایف پی]

25 نومبر کو لی گئی اس تصویر میں، افغان سیکیورٹی فورسز صوبہ ننگرہار میں ضلع اشین میں "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش) کے جنگجوؤں کے خلاف ایک کارروائی میں شریک ہیں۔ [نوراللہ شیرزادہ/اے ایف پی]

صوبہ ننگرہار کے مقامی حکام 25 نومبر کو جلال آباد میں ہتھیار ڈالنے والے داعش کے جنگجوؤں کو ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ [خالد زیرائی]

صوبہ ننگرہار کے مقامی حکام 25 نومبر کو جلال آباد میں ہتھیار ڈالنے والے داعش کے جنگجوؤں کو ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ [خالد زیرائی]

افغان دفاعی اہلکار گرفتار شدہ طالبان اور 'دولتِ اسلامیہ عراق و شام' (داعش) کے مبینہ جنگجوؤں کو 1 اکتوبر کو صوبہ ننگرہار میں ایک کارروائی کے دوران لے کر جاتے ہوئے۔ [نوراللہ شیرزادہ/اے ایف پی]

افغان دفاعی اہلکار گرفتار شدہ طالبان اور 'دولتِ اسلامیہ عراق و شام' (داعش) کے مبینہ جنگجوؤں کو 1 اکتوبر کو صوبہ ننگرہار میں ایک کارروائی کے دوران لے کر جاتے ہوئے۔ [نوراللہ شیرزادہ/اے ایف پی]

انہوں نے کہا، "اس دن کے بعد سے، داعش نے مقامی لوگوں کے سر قلم کرنا اور بدترین مظالم ڈھانا شروع کر دیا۔"

ان کا کہنا تھا، "داعش کے جنگجوؤں میں بہت سے پاکستان میں وادیٔ تیراہ اور اورکزئی کے باشندے تھے۔ کچھ خاندان علاقے میں پہلے آئے تھے، اور مقامی باشندوں نے انہیں اشیں اور دیگر اضلاع میں پناہ دی تھی۔"

کمین نے کہا، "اس وقت، ان پاکستانی خاندانوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے [پاکستان میں سرحد کے اس پار] مظالم کا سامنا کیا تھا اور انہوں نے پناہ طلب کی تھی۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ یہ مہمان ایک دن ہمیں ماریں گے اور ہمیں اپنے گھروں سے نکال دیں گے۔"

علاقے میں داعش کی پرتشدد مہم نے مقامی باشندوں میں ناراضگی کو ہوا دی، جنہوں نے سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر، آخرکار خطے میں عسکریت پسندوں کا تعاقب کرنے کے لیے اپنی کوششوں کا آغاز کر دیا۔

ضلع اشین کے علاقے پیخا میں عوامی باغی قوت کے ایک رکن، محمد رفیق نے کہا، "شروع میں، داعش کے جنگجو ہمیں کہتے تھے کہ ہم سب کافر ہیں اور ہمیں قتل کرنا جائز ہے۔ جب انہوں نے ہمیں قتل کرنا شروع کر دیا، تو ہم اکتا گئے اور ہم ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔"

ماضی کی ایک عداوت جس پر باغی قوت نے قابو پا لیا تھا، کو یاد کرتے ہوئے، انہوں نے کہا، "پہلے جب ہم نے طالبان کے خلاف لڑنا شروع کیا، تو عام شہریوں نے سوچا کہ وہ بہت زیادہ طاقتور ہیں اور [شکست دینے کے لیے] بہت مشتعل بھی ہیں۔ جب ہم نے اپنے ذہن بنا لیے، تو ہم داعش کو تباہ کرنے کے قابل تھے۔"

دوسری جانب، افغان فوج نے داعش کو اشین اور مجموعی طور پر ملک سے باہر نکالنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دیں۔

تقریباً ڈیڑھ سال پہلے، سرکاری فوج نے ضلع اشین کے شادل بازار کے علاقے پر قبضہ کیا تھا، جو داعش کے زیرِ تسلط تھا۔ اب، مقامی باشندوں نے اپنی معمول کی زندگیاں دوبارہ شروع کی ہیں اور بازار ایک بار پھر ترقی کر رہا ہے۔

شادل بازار کے ایک دکاندار، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، ان کا کہنا تھا، "پانچ برس پہلے جب داعش کے جنگجو یہاں آئے تھے، انہوں نے ان علاقوں پر قبضہ جما لیا تھا اور اس بازار کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ ہم داعش سے بچنے کے لیے جلال آباد منتقل ہو گئے تھے، مگر اب ہم واپس آ گئے ہیں، اور شادل بازار خوشحالی کی طرف گامزن ہے۔ ہم معمول کی زندگی گزار رہے ہیں۔"

داعش کا صفایا کرنا

ننگرہار کے گورنز شاہ محمود میاخیل نے یادیں تازہ کیں کہ کیسے حکومت اور مقامی باشندوں نے حال ہی میں جنگجوؤں کو خطے سے باہر نکال پھینکا۔

5 دسمبر کو میاخیل نے صحافیوں کو بتایا، "یہ تمام علاقے داعش کے زیرِ تسلط تھے۔"

انہوں نے یہ بیان داعش کے درجنوں جنگجوؤں کے ہتھیار ڈالنے کے لیے منعقد کی جانے والی تقریب کے دوران ننگرہار نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی کی عمارت میں دیا۔

ان کا کہنا تھا، "انہوں نے [عام شہریوں کے] گھروں پر قبضہ کر لیا تھا، اور جب وہ شکست کے دہانے پر پہنچ گئے تھے، تو انہوں نے عام شہریوں اور افواج کو مارنے کے لیے ان گھروں میں بارودی سرنگیں بچھا دی تھیں۔ مگر ہم نے سب کچھ بالکل ٹھیک کر لیا۔ ہم نے تمام سرنگوں کو ناکارہ بنا دیا۔"

میاخیل نے کہا، "ہم نے ننگرہار میں داعش کو شکست دے دی ہے، اور اب ضلع اشین میں داعش کا کوئی جنگجو باقی نہیں رہا۔ ہم داعش کو اس لیے شکست دینے کے قابل ہوئے ہیں کیونکہ عوامی باغی قوتوں اور دفاعی قوتوں نے مل کر داعش کے ٹھکانوں پر حملے کرنے شروع کر دیئے۔ ہماری کارروائیوں کا اختتام داعش کے جنگجوؤں کو قتل کرنے اور باقی بچ جانے والوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دینے پر ہوا۔"

میاخیل کا کہنا تھا کہ مزید برآں، نیٹو کی سربراہی میں ریزولٹ سپورٹ مشن نے "ہمیں معاونت فراہم کی، اور ہماری مشترکہ کوششوں کے صدقے، گزشتہ دو ماہ میں داعش کے تقریباً 400 جنگجوؤں نے اپنی خواتین اور بچوں کے ہمراہ حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ ان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا"۔

ننگرہار میں افغان نیشنل آرمی کی چوتھی بریگیڈ کے کمانڈر، بریگیڈیر جنرل محمد کریم نیازی نے 30 نومبر کو اشین میں صحافیوں کو بتایا، "ہم نے مومند وادی میں بھی داعش کو تباہ کر دیا ہے"۔

ان کا کہنا تھا، "یہ وادی ایک انتہائی اہم ٹھکانہ تھا جہاں داعش کے تربیتی مراکز تھے۔ ہم نے وہاں ہر چیز تباہ کر دی۔ ہم پوری وادی کو اپنے کنٹرول میں لے آئے اور وہاں عوامی باغی قوتوں کے لیے چوکیاں قائم کر دیں"۔

انہوں نے کہا، "بالائی علاقوں میں بھی مکینوں نے اپنی معمول کی زندگیوں کی طرف لوٹنا شروع کر دیا ہے، اور وہ خوش ہیں"۔

ضلع میں اسد خیل کے علاقے کے ایک مکین، غلام فاروق نے کہا کہ جب سے فوج نے خطے میں سے داعش کو نکالا ہے تین ماہ سے عام شہری پُرامن زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں"۔

ان کا کہنا تھا، "داعش نے ہمارے تمام گھروں پر قبضہ کر لیا تھا۔ وہاں ان کی چھاؤنیاں بن گئی تھیں۔ انہوں نے ہمارے گھروں کو تباہ کر دیا، مگر ہم خوش ہیں کہ تنظیم کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ ہم گھروں کو واپس لوٹ آئے ہیں۔ ہم نے [اپنے گھروں کی] تباہ شدہ دیواروں کو دوبارہ تعمیر کیا اور یہاں دوبارہ رہنا شروع کر دیا"۔

حکومت متاثرہ مقامی باشندوں کی مدد کر رہی ہے

فاروق نے کہا، "ان علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرنے اور ہمیں یہاں دوبارہ رہنے کا موقع فراہم کرنے پر ہم حکومت کے شکرگزار ہیں۔"

گورنر ننگرہار کے ترجمان، عطاء اللہ خوگیانی نے کہا کہ مقامی حکومت ان باشندوں کو امداد فراہم کرنے کے لیے ایک منصوبے پر کام کر رہی ہے جو داعش کے ساتھ چار سال پر محیط جنگ میں اپنے گھروں سمیت، اپنا سب کچھ گنوا بیٹھے ہیں۔

ان کا کہنا تھا، "داعش کو تباہ کر دیا گیا ہے، مگر اس نے اشین، ہاسکا مینا، کوٹ، نازیان، پچیگرام اور خوگیانی کے اضلاع میں ہزاروں گھروں کو تباہ کر دیا تھا"۔

خوگیانی نے کہا، "ہم ان گھروں، نہروں، ڈیموں اور سکولوں کو بحال کرنے کے لیے ایک منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ بہت سے خاندان اپنے دیہاتوں میں واپس آ گئے ہیں۔ ہم ان کے گھروں کی بحالی اور اپنی زندگیاں دوبارہ شروع کرنے میں ان خاندانوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں"۔

ان کا مزید کہنا تھا، "ہم نے بہت سارا کام کر لیا ہے۔ ہم نے ان کے علاقوں سے داعش کے نکل جانے کے بعد مقامی باشندوں کو سہولیات فراہم کی ہیں"۔

"مقامی اور قومی پولیس نیز عوامی باغی قوتوں کے لیے [پورے ضلع میں] چوکیاں قائم کر دی گئی ہیں تاکہ داعش ان علاقوں میں واپس نہ آ سکے، اور ہم یہ کوششیں جاری رکھیں گے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500