کابل -- افغان فوج کی جانب سے حال ہی میں "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش) کے جنگجوؤں کو تورا بورا اور صوبہ ننگرہار کے دیگر حصوں سے نکالے جانے نے دہشت گرد تنظیم کے عزائم کو بے نقاب کر دیا ہے۔
داعش نے پاکستان کی سرحد کے قریب صوبہ ننگرہار میں اپنی خراسان (افغانستان اور پاکستان) شاخ کا ہیڈکوارٹر تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن گزشتہ ماہ ہونے والی کارروائیوں نے اس ارادوں کو خاک میں ملا دیا ہے۔
وزارتِ دفاع (ایم او ڈی) کے مطابق، تورا بورا سے داعش کی بے دخلی مبینہ طور پر 17 اور 18 جون کو عمل میں آئی، جس سے چند روز قبل داعش کے جنگجوؤں نے تورا بورا میں حساس غاروں کے لیے طالبان سے جنگ کر کے انہیں شکست دے دی تھی۔
اس کے جواب میں، افغان فوج نے داعش سے جنگ کی اور اسے تورا بورا اور دیگر دو اضلاع سے باہر نکال پھینکا۔ اس سے پہلے فوج نے داعش کو کوٹ اور اشین کے اضلاع سے نکالا تھا۔
ایم او ڈی کے نائب ترجمان محمد رادمانیش نے سلام ٹائمز کو بتایا، "تورا بورا، پشیراگام اور چھپرہار کے تمام علاقے داعش سے آزاد کروا لیے گئے ہیں۔ دستے بارودی سرنگیں صاف کرنے میں مصروف ہیں جو طالبان اور داعش نے نصب کی تھیں۔"
ایم اور ڈی کے ترجمان جنرل دولت وزیری نے ریڈیو فری افغانستان کو بتایا کہ داعش کو تورا بورا میں واپس آنے سے روکنے کے لیے حکام مقامی برادریوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، "مقامی رضاکار اور مقامی محکمے داعش کے مستقبل کے حملوں سے اپنے علاقے کو محفوظ رکھنے کے لیے تیار ہیں۔ وزارتِ دفاع ہر ممکن طریقے سے ان کی مدد کرنے کو تیار ہے۔"
پاکستانی سرحد کے قریب داعش مخالف کارروائیاں جاری ہیں۔
داعش کا 'مورال گر گیا ہے'
ایم او ڈی کے حکام کا کہنا ہے کہ ننگرہار میں کئی بار شکست سے دوچار ہونے، اور امریکی فوج کی جانب سے اپریل میں دہشت گرد نیٹ ورکس پر اپنا سب سے بڑا روایتی بم گرانے کے بعد، داعش صوبے میں منتشر، حوصلہ ہارے ہوئے گروہوں میں بٹ چکی ہے۔
رادمانیش نے کہا، "ہم نے [2015 کے بعد سے] داعش کو تباہ کرنے کے لیے 12 بڑی کارروائیاں اور کئی چھوٹی کارروائیاں کی ہیں۔ نتیجتاً ۔۔۔ داعش کے 2،500 سے زائد جنگجو مارے جا چکے ہیں، جن میں داعش کے [مقامی] رہنماء حافظ سعید خان [گزشتہ جولائی میں ننگرہار میں] اور اس کے جانشین، عبدالحسیب [اپریل میں ننگرہار میں] شامل ہیں۔"
صوبائی گورنر کے ترجمان عطااللہ خوگیانی نے کہا کہ مارے جانے والے جنگجو قومیتوں کے ایک رنگا رنگ اجتماع کی نمائندگی کرتے تھے۔
انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا، "تورا بورا میں افغان دفاعی قوتوں کے ہاتھوں مارے جانے والے داعش کے ارکان کی اکثریت ازبکستان، چیچینیا اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی جنگجوؤں پر مشتمل تھی۔"
افغان نیشنل آرمی (اے این اے) کے 201 ویں سیلاب کور کے بریگیڈ کمانڈر، جنرل محمد نسیم سنگین نے سلام ٹائمز کو بتایا، "تورا بورا کی تین روزہ کارروائی میں داعش کے چھیاسٹھ ارکان مارے گئے۔ ہم ننگرہار کے تمام حصوں میں اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے تاوقتیکہ ہم داعش کو تباہ کر دیں۔"
انہوں نے کہا کہ اے این اے کے کمانڈوز، افغان نیشنل پولیس اور 201 ویں سیلاب کور نے تورا بورا، پشیراگام اور چھپرہار میں داعش کو تباہ کرنے کے لے ساری کارروائی خود انجام دی۔
خوگیانی نے کہا، "تورا بورا، پشیراگام اور چھپرہار کو واپس لینے کی کارروائی کے دوران کوئی عام شہری جاں بحق نہیں ہوا۔ جب ہم بارودی سرنگوں کی صفائی مکمل کر لیں گے، مقامی باشندے گھر واپس جا سکتے ہیں۔"
انہوں نے کہا، "حکومت ان بے گھر ہونے والے افراد کو تمام ضروری امداد فراہم کرے گی۔ مزید برآں، ان تمام علاقوں میں جو داعش سے آزاد کروا لیے گئے ہیں، اسکول، صحت مراکز اور دیگر سہولیات تعمیر کی جائیں گی۔"
شکرگزار باشندے
صوبہ ننگرہار کے حکام اور دیگر باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ داعش کی بغاوت کی شکت کو دیکھ کر بہت خوش ہیں۔
وزارتِ حج و دینی امور کے ننگرہار دفتر کے سربراہ، ملا عبدالظہیر حقانی نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ داعش کے خلاف کارروائی "حقیقی جہاد" تھی۔
انہوں نے کہا، "میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ اس جہاد میں حصہ لیں۔۔۔ اور داعش کے خلاف ہماری دفاعی قوتوں کی مدد کریں۔"
صوبائی کونسل کے رکن ذبیح اللہ زماری نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ کارروائی "قابلِ تحسین اور قابلِ ستائش" تھی۔
پشیراگام ضلع کے مکین جمشید رزقیار نے سلام ٹائمز کو بتایا، "ہمارے علاقے میں درجنوں باشندوں نے داعش کو شکست دینے میں فوج کی مدد کی۔"
انہوں نے کہا، "ہم اپنی دفاعی قوتوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا وعدہ کرتے ہیں۔ اگر حکومت ضروری سازوسامان فراہم کرے تو باشندے اپنے علاقوں کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔"
داعش امریکہ اسرائیل اور سعودیوں کی پالتو جماعت ہے
جوابتبصرے 3
افغان نیشنل آرمی کو سرخ سلام
جوابتبصرے 3
داعش کو شکست دینا بھارت اور اسرائیل کو شکست دینا ہے کیونکہ یہ سب کارنامے ان ہی کے ھیں
جوابتبصرے 3