دہشتگردی

پاکستان، افغانستان میں داعش کے سنبھلنے سے نقلی دعووں میں اضافہ

از ضیاء الرحمان

17 نومبر کو جلال آباد، افغانستان میں داعش کے جنگجو حکام کی جانب سے انہیں ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش کرنے سے قبل ایک قطار میں کھڑے ہیں۔ گزشتہ دو ماہ میں داعش کے 1،400 سے زائد جنگجو افغان فوج کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ [خالد زیرائی]

17 نومبر کو جلال آباد، افغانستان میں داعش کے جنگجو حکام کی جانب سے انہیں ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش کرنے سے قبل ایک قطار میں کھڑے ہیں۔ گزشتہ دو ماہ میں داعش کے 1،400 سے زائد جنگجو افغان فوج کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ [خالد زیرائی]

کراچی -- "دولتِ اسلامیہ" (داعش) پاکستان میں حملوں کے لیے ذمہ داری کے جھوٹے دعووں میں اضافہ کر رہی ہے کیونکہ دہشت گرد تنظیم کو دنیا بھر میں متواتر شکستوں کا سامنا ہے۔

پاکستان اور افغانستان میں دہشت گرد تنظیم کی خراسان شاخ، جو داعش-خراسان کے نام سے معروف ہے، نے 4 دسمبر کو دعویٰ کیا تھا کہ اس کے جنگجوؤں نے ضلع مہمند، خیبرپختونخوا (کے پی) میں ایک دیسی ساختہ بم (آئی ای ڈی) کے ساتھ پاکستانی خفیہ ادارے کے ایک افسر کو ہلاک کر دیا تھا۔

8 دسمبر کو ایک اور دعوے میں، داعش-خراسان نے کہا کہ اس نے ضلع مستونگ، صوبہ بلوچستان میں اسی خفیہ ادارے کے ایک اور اہلکار کو زخمی کیا تھا۔

دونوں دعوے جھوٹے ثابت ہوئے۔

داعش کے ارکان کا ایک منظر جب انہوں نے نومبر میں فوج کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔ [افغان وزارتِ دفاع]

داعش کے ارکان کا ایک منظر جب انہوں نے نومبر میں فوج کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔ [افغان وزارتِ دفاع]

گمنامی کی شرط پر قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ایک اعلیٰ افسر نے کہا، "گزشتہ ہفتے ان علاقوں میں دفاعی اہلکاروں پر کوئی حملہ نہیں ہوا تھا۔"

مہمند کے ایک مقامی صحافی، عالمگیر خان نے کہا، "ایسے کسی واقعہ کی اطلاع نہیں ملی۔"

وقوع پذیر نہ ہونے والے حملے تنظیم کے تازہ ترین جھوٹے دعووں میں سے ہیں۔.

داعش-خراسان نے 19 ستمبر کو ضلع مستونگ میں ایک نیم فوجی اہلکار کو قتل کرنے کے متعلق دروغ گوئی کی تھی۔ نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے اسے گولی مار کر ہلاک کیا تھا۔

اسی طرح اس نے دعویٰ کہ تھا کہ 20 ستمبر کو ضلع مستونگ کے بائی زئی علاقے میں اس نے ایک دیسی ساختہ بم پھاڑا تھا۔ دھماکے میں دو دفاعی اہلکار جاں بحق ہوئے تھے۔

قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار نے کہا کہ بہت سے قانون نافذ کرنے والے اور خفیہ اداروں نے ان دعووں کا محتاط تخمینہ لگایا تھا۔

ایک دفاعی اہلکار جو ذرائع ابلاغ سے بات کرنے کا مجاز نہیں ہے، کا کہنا تھا، "یہ جھوٹے دعوے ہیں، اور داعش-خراسان محض ملک میں خوف پھیلانا چاہتی ہے۔"

انہوں نے کہا، "ہمیں یقین ہے کہ یہ حملے مقامی عسکریت پسندوں کی جانب سے کیے گئے تھے اور یہ کہ داعش-خراسان نے یہ ذمہ داری محض داعش-خراسان اور دیگر عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف جاری کارروائیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے قبول کی تھی۔"

شکست کو چھپانا

سڈنی کے مقامی انسٹیٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس (آئی ای پی) کی جانب سے شائع کردہ 2019 عالمی دہشت گردی اشاریہ کے مطابق، سنہ 2014 میں اپنے ظہور سے لے کر، داعش-خراسان افغانستان اور پاکستان میں کم از کم 2،800 اموات اور دہشت گردی سے متعلقہ 419 کارروائیوں کے لیے ذمہ دار رہی ہے۔

متاثرین کی اکثریت عام شہری تھے۔

اشاریہ کے مطابق، داعش-خراسان نے اپنا مہلک ترین سال 2018 ریکارڈ کیا تھا۔ دہشت گردی سے متعلقہ اموات میں سنہ 2017 میں 891 سے سنہ 2018 میں 1،060 تک 24 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ داعش-خراسان کے ذمے لگنے والی 1،060 اموات میں سے، کم از کم 75 فیصد افغانستان میں ہوئی تھیں، جس کے بعد پاکستان اور بھارت میں بالترتیب 241 اور پانچ اموات ہوئیں۔

تاہم، داعش-خراسان اور داعش دونوں ہی کو اب شکست کا سامنا ہے.

مریکی پشت پناہی کے حامل شامی لڑاکوں نے مارچ میں داعش کو مشرقِ وسطیٰ میں اس کے علاقے کے آخری ٹکڑے سے بھی باہر نکال پھینکا تھاجہاں دہشت گرد تنظیم کا اثرورسوخ عراق اور شام کے وسیع علاقے پر ہوا کرتا تھا۔

جہاں دہشت گرد تنظیم کا اثرورسوخ عراق اور شام کے وسیع علاقے پر ہوا کرتا تھا۔26 اکتوبر کو ایک رات کے چھاپے> میں دیگر جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد کے ہمراہ ہلاک ہو گیا تھا۔ چھاپے کے اختتام پر البغدادی ایک سرنگ میں گھیرا گیا تھا، جہاں اس نے خودکش جیکٹ پھاڑ لی، جس میں وہ خود اور اس کے تین بچے ہلاک ہو گئے۔

مشرقِ وسطیٰ میں داعش کے خلاف کامیابیاں دہشت گردی کو لگنے والا ایک بڑا دھچکہ ثابت ہوئی ہیں ناصرف دنیا بھر میں بلکہ پاکستان اور افغانستان میں بھی، جہاں تنظیم نے جنوری 2015 میں داعش-خراسان کی تخلیق کا اعلان کیا تھا۔

دہشت گرد تنظیم کے خلاف حکومتی کارروائیوں کی وجہ سے داعش-خراسان کو افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں شکست کا سامنا رہا ہے، اور تنظیم کے سینکڑوں جنگجو فوج کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں۔

گزشتہ دو ماہ میں، داعش کے تقریباً 1،450 جنگجوؤں اور ان کے اہلِ خانہ نے حکومت کے سامنے ہتھیار ڈالے ہیں۔

خود داعش-خراسان نے 17 نومبر کو ایک بیان جاری کیا تھا جس میں ننگرہار میں تنظیم کی شکست کو اس بات کے اضافے کے ساتھ تسلیم کیا گیا تھا کہ اس کے ارکان کے پاس گولیاں باقی نہیں بچی تھیں اور وہ بھوک سے مر رہے تھے۔

ٹیلیگرام پر جاری کردہ ایک بیان میں دہشت گرد گروہ کا کہنا تھا، "ہم نے بغوز [شام] سے فرار ہونے تک امریکی بمباری کی مزاحمت کی، اور ہم اسلحہ ختم ہونے تک ننگرہار میں لڑتے رہے۔"

داعش کے ہتھیار ڈالنے والے جنگجوؤں میں سے ایک نے تصدیق کی کہ آخری دنوں میں گروہ کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا اور یہ کہ جنگجوؤں کے پاس ہتھیار ڈالنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔

صوبہ ننگرہار کے ضلع اشین میں ایک قبائلی عمائد، حاجی طور سلیمان خیل نے کہا، "داعش-خراسان کے ہتھیار ڈالنے والے جنگجو افغانستان میں تنظیم کی شکست کے اعتراف کے لیے جمع ہوئے تھے۔"

دریں اثناء، پاکستانی فوج دہشت گرد تنظیم کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

سندھ پولیس نے 28 فروری کو داعش-خراسان کے دو رہنماؤں کو صوبہ بلوچستان میں دھدر میں ایک مقابلے میںہلاک کر دیا تھا۔ حکام کا کہنا تھا کہ مولوی عبداللہ بروہی اور عبدالحفیظ پندرانی صوبہ سندھ میں داعش کے، بالترتیب، امیر اور نائب امیر تھے۔

20 جولائی 2018 کو پاکستانی فوج نے ہدایت اللہ کو ہلاک کیا تھاجو ایک ہفتہ قبل مستونگ میں ایک انتخابی ریلی پر خودکش حملے کا منصوبہ ساز تھا۔ اس دھماکے میں 149 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

عسکریت پسندوں کے بارے میں بات کرنے سے ان کی سرگرمیوں کو تقویت ملتی ہے

جواب