سفارتکاری

ایرانی حکومت "نئے" طالبان کی ساکھ کو دوبارہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے

پاکستان فارورڈ

طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے ارکان کو یکم فروری کو تہران میں ایک نیوز کانفرنس میں دیکھا جا سکتا ہے۔ [فارس نیوز]

طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے ارکان کو یکم فروری کو تہران میں ایک نیوز کانفرنس میں دیکھا جا سکتا ہے۔ [فارس نیوز]

طالبان اور افغان حکومت کی بدھ (7 جولائی) کو تہران میں ہونے والی ملاقات سے پہلے کئی ماہ تک، ایرانی حکومت طالبان کی ساکھ کو نئی شکل دینے کی کوشش میں مصروف رہی ہے۔

اس ملاقات کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ دونوں فریقین نے اس بات پر کہ "جنگ حل نہیں ہے" اور بہت قسم کے بقایا مسائل کے بارے میں بات چیت کے لیے دوبارہ ملنے پر اتفاق کیا۔

تاہم جب طالبان کا وفد امن کے امکانات پر بات چیت کر رہا تھا، زمینی حقیقت کافی مختلف ہے۔

طالبان کی ملاقات والے دن ہی، طالبان کے جنگجوؤں نے صوبائی دارالحکومت پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ عسکریت پسند گروہ کی طرف سے گزشتہ سال امن معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد سے گروہ کی طرف سے ایسا پہلی بار کیا گیا۔

اس سے پہلے کئی ہفتوں اور مہینوں سے، طالبان افغانستان بھر میں سخت جارحانہ اقدامات کر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں سینکڑوں شہری بے گھر ہو گئے۔ وہ گھروں کو آگ لگا رہے ہیں اور کاروباروں کو لوٹ رہے ہیں۔

تہران، جو حالیہ سالوں میں طالبان کے قریب آ گیا ہے اور ہتھیاروں، انٹیلیجنس اور تربیت سے ان کی مدد کرتا ہے، عسکریت پسند گروہ کی متشدد فطرت کو گھمانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔

حالیہ ترین مثال میں، 25 جون کو روزنامہ کیہن، جس کے خیالات ایران کے راہنمائے اعلی علی خامنہ ای سے ملتے جلتے ہیں، کے اداریے میں بحث کی گئی کہ طالبان "اب لوگوں کے سر قلم نہیں کرتے ہیں" اور اسے ایک ایسی وجہ قرار دیا گیا جس کی وجہ سے عسکریت پسند گروہ "اب ویسا نہیں رہا جیسا کہ ہم اسے جانتے تھے"۔

کیہان کے چیف ایڈیٹر اور ناشر حسین شریعتمداری، خامنہ ای کے قریبی ساتھی ہیں۔

اس اداریے میں "طالبان کے حربوں اور طرز عمل میں تبدیلی" پر توجہ مرکوز کی گئی تھی اور دعوی کیا گیا تھا کہ وہ "اب افغان شیعہ آبادی کے خلاف جرائم کا ارتکاب نہیں کرتے ہیں" اور "یہاں تک کہ افغان شیعہ سے اب ان کے اختلافات ہیں ہی نہیں"۔

اس طرح کے خیالات، ان ہزارہ افراد کے لئے حیرت کا باعث ہوں گے جنہیں طویل عرصے سے طالبان کے ظلم و ستم کا سامنا رہا ہے اور جو 2001 میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد حاصل ہونے والی اپنی کامیابیوں کی حفاظت کے لیے، اسلحہ اور تعلیم کے ذریعے لڑ رہے ہیں۔

افغان شہری، طالبان کی طرف سے کیے جانے والے جرائم کی طرف بھی اشارہ کریں گے، جیسے کہ ہرات میں ایک نوجوان عورت کو سرعام کوڑے مارنا، گروہ کی طرف سے غور میں ایک نوجوان جوڑے کو وحشیانہ پھانسی دینا اور جوزجان میں ایک 16 سالہ بچی کے ساتھ عصمت دری اور قتل، حالیہ مثالوں میں سے کچھ ہیں۔

دلکش حملہ

سالوں پہلے، ایرانی حکام نے طالبان کے مظالم کی مسلسل مذمت کی تھی اور انہیں سفاکانہ، غیر انسانی اور غیر اسلامی قرار دیا تھا۔

لیکن اب یہ بات انتہائی واضح ہو گئی ہے کہ تہران نے پیسے، ہتھیاروں اور تربیت سے اس عسکریت پسند گروہ کی مدد کی ہے اور اس کا مقصد افغان حکومت، اس کی آزادی اور اس کی معاشی کامیابی کو نقصان پہنچانا تھا۔

گزشتہ ماہ ہی، افغان فوجی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ایران کی سپاہ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی(آئی آر جی سی) کے ارکان، افغانستان کے مغربی خطے میں طالبان کی قیادت کر رہے ہیں اور عسکریت پسند گروپ کو جدید ہتھیار جن میں رات کو دیکھنے والےآلات، ہلاکت انگیز بم اور بھاری ہتھیار شامل ہیں۔

جون میں بھی ایک سینئر عہدیدار نے کہا تھا کہ طالبان کے ایک سات رکنی سیل کے کمانڈر کو، سیکیورٹی فورسز کے ارکان پر حملہ کر کے انہیں قتل کرنے کے لئے، آئی آر جی سی سے براہ راست احکامات موصول ہوئے تھے۔

فروری میں تہران کے دورے کے دوران، طالبان کے وفد کا شاندار استقبال کیا گیا۔

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کی طرف سے، طالبان کے نمائندوں کا ذاتی طور پر استقبال کیا گیا اور ان کے بارے میں نئی پائی جانے والی گرمجوشی نے ایران اور افغانستان میں بہت سے لوگوں کو حیران اور پریشان کر دیا۔

طالبان کے نائب رہنما ملا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں اس وفد نے ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سکریٹری ظریف اور علی شمخانی دونوں کے ساتھ مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔

تہران نے اس دورے اور مذاکرات کو ثالثی کی ایک کوشش، طالبان کو افغان حکومت کے قریب کرنے کی کوشش اور افغانستان کے ساتھ ہَمساءِگی کا مظاہرہ قرار دیا۔

لیکن حقیقت اس سے مختلف تھی۔ نئے دلکش حملے کا کچھ حصہ دونوں فریقوں کے مابین عملی تبادلہ سے متعلق تھا: ایرانی عہدے داروں نے افغانستان سے پانی حاصل کرنے کے بدلے میں طالبان کو اپنی حمایت دینے کا وعدہ کیا۔

طالبان نواز بیانات بظاہر ایران کے آئی آر جی سی سے وابستہ کچھ ذرائع ابلاغ میں بھی شامل ہو گئے ہیں۔

کیہان کے اداریے کے خلاف ایرانی ذرائع ابلاغ کی اکثریت کے ردعمل کے بعد، حسام رضاوی جو کہ آئی آر جی سی سے وابستہ تسنیم نیوز کے ادارتی بورڈ کے ایک رکن ہیں، نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ "انتباہ" کر رہے ہیں کہ "طالبان اور افغان شیعہ برادری کے مابین کوئی جنگ نہیں ہے۔"

مبصرین کو امن کا پیغام پہنچانے کی مبینہ کوششوں کے دوران جملوں اور خصوصی طور پر لفظ "انتباہ" کا استعمال عجیب لگا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500