صحت

وائرس انفکشن کے دوران ہسپتالوں نے چینی ساختہ ذاتی حفاظتی آلات کو ترک کر دیا، عملہ میں ہلاکتیں

اشفاق یوسفزئی

31 مارچ، 2020 کو راولپنڈی ریلوے سٹیشن پر ایک عارضی قرنطینہ تنصیب کے طور پر تیار کی گئی ریل کی ایک بوگی میں ایک ڈاکٹر حفاظتی لباس پہنے اپنی ساتھی پیشہ وران سے بات کر رہا ہے۔ [عامر قریشی / اے ایف پی]

31 مارچ، 2020 کو راولپنڈی ریلوے سٹیشن پر ایک عارضی قرنطینہ تنصیب کے طور پر تیار کی گئی ریل کی ایک بوگی میں ایک ڈاکٹر حفاظتی لباس پہنے اپنی ساتھی پیشہ وران سے بات کر رہا ہے۔ [عامر قریشی / اے ایف پی]

پشاور – طبی حکام کا کہنا ہے کہ کووڈ-19 مریضوں کا علاج کرنے والے کارکنان کی انفکشنز اور اموات کے ایک سلسلہ کے بعد پاکستانی ہسپتال چینی ساختہ ذاتی حفاظتی آلات (پی پی ای) کو ترک کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ناقص پی پی ای طبی عملہ کو تحفظ فراہم نہیں کر رہے۔

پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عبدالسلام نے کہا، "ہمارے صحت کے متعدد پیشہ وران کے کووڈ -19 سے متاثر ہونے کے بعد، بالآخر ہسپتال چینی ساختہ پی پی ای کے استعمال کو ترک کرنے کا ہمارا مطالبہ سننے لگے ہیں۔ ہم اس وبا کے پھوٹنے سے اب تک غیر معیاری پی پی ای سے متعلق حکومت سے شکایت کر رہے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا، "خیبر پختونخوا میں اب تک ڈاکٹروں، نرسوں اور معاون طبی عملہ سمیت 830 کارکنان صحت کرونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں، جس کی بنیادی وجہ چین سے درآمد شدہ پی پی ای ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صوبے میں ایک سینیئر ڈاکٹر اور دو میڈیکل ٹیکنیشنز سمیت تین افراد کووڈ -19 سے ہلاک ہو چکے ہیں۔"

13 مئی کو خیبر ٹیچنگ ہسپتال، پشاور کے داخلی مقام پر صحت کا ایک پیشہ ور مریضوں کے درجہ حرارت چیک کر رہا ہے۔ [اشفاق یوسفزئی]

13 مئی کو خیبر ٹیچنگ ہسپتال، پشاور کے داخلی مقام پر صحت کا ایک پیشہ ور مریضوں کے درجہ حرارت چیک کر رہا ہے۔ [اشفاق یوسفزئی]

13 مئی کو حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاورمیں صحت کے پیشہ وران نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی فیصل آباد کے منظورشدہ مقامی ساختہ پی پی ای پہنے ہوئے ہیں۔ [اشفاق یوسفزئی]

13 مئی کو حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاورمیں صحت کے پیشہ وران نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی فیصل آباد کے منظورشدہ مقامی ساختہ پی پی ای پہنے ہوئے ہیں۔ [اشفاق یوسفزئی]

ہسپتال اور طبی عملہ اس امر سے متعلق خدشات کا شکار رہے ہیں کہ کیونکہمثبت ٹیسٹ والے اور وفات پا جانے والے طبی عملہ میں سے زیادہ تر نے چین سے آنے والے پی پی ای استعمال کیے۔

پاکستان میڈیکل ایسو سی ایشن کے سیکریٹری ڈاکٹر حسین شاہ نے کہا کہ 11 اموات کے ساتھ ملک میں متاثرہ کارکنان صحت کی تعداد تقریباً 1,700 ہے۔

انہوں نے کہا، "ان تمام نے پی پی ای استعمال کیے کیوں کہ کوئی بھی سپاہی اسلحہ یا گولہ بارود کے بغیر میدانِ جنگ میں نہیں جا سکتا، لیکن گھٹیا معیار کے ہونے کی وجہ سے اس نے ان کا تحفظ نہیں کیا۔"

"اس لیے ہم سختی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت چینی ساختہ پی پی ای کا استعمال بند کرے۔۔۔ تاکہ ہمارے کارکنان صحت کووڈ -19 وبا سے درپیش چیلنج سے نمٹ سکیں۔"

طبی اداروں نے ایسے پی پی ای تلاش کرنا شروع کر دیے ہیں جو چینی ساختہ نہ ہوں۔

11 مئی کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال (ایل آر ایچ) مریضوں کے علاج کے دوران عملہ کے 132 ارکان کے وائرس سے متاثر ہونے کے بعد بہتر پی پی ای پر منتقل ہو گیا۔

ایل آر ایچ کے ڈپٹی میڈیکل سپرانٹنڈنٹ ڈاکٹر ہدایت اللہ خان نے کہا، "ہم نے 300 پلنگ کی ایک عمارت اور 150 پلنگ کا انتہائی نگہداشت کا یونٹ کووڈ -19 کے لیے مختص کیا ہے۔"

انہوں نے کہا، "24 مارچ سے اب تک ہمارے ہسپتال میں 950 مریض آئے ہیں، لیکن انفکشنز کی وجہ سے کارکنان میں ایک خوف پایا جاتا ہے۔ اس لیے ہم نے اس امر کو یقینی بنانے کے لیے کہ ہمارے کارکنان متاثر نہ ہوں، ہم نے چینی ساختہ پی پی ای کا استعمال ترک کرتے ہوئے اعلیٰ معیاری پی پی ای خریدے ہیں۔"

خان نے کہا، "بیرونِ ملک سے درآمد شدہ، یہ نئے پی پی ای قابلِ دھلائی ہیں اور انہیں انفکشن سے پاک کر کے بارہا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہمارے عملہ کے تحفظ کے ضامن ہوں گے اور اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ انفکشن نہ پھیلے۔"

خان نے کہا کہ کرونا وائرس مریضوں کا علاج کرنے کے بعد یکم مئی کو کووڈ -19 کی مثبت جانچ ہونے والے ایل آر ایچ کی ایک ڈاکٹر نے بعد ازاں اپنے خاندان کے آٹھ ارکان کو اس وائرس کی ترسیل کی۔

انہوں نے کہا، "وہ ڈاکٹر یقین رکھتی تھیں کہ وہ محفوظ ہیں کیوں کہ انہوں نے کووڈ -19 سے متعلق اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران پی پی ای استعمال کی اور باقاعدگی سے گھر جاتی رہیں۔ جب ان کے نتائج مثبت آئے تو ہم نے ان کے والدین، ان کے بچوں اور ان کے خاوند کی جانچ کی، جو تمام مثبت آئے۔"

باچا خان میڈیکل کمپلیکس (پی کے ایم سی) صوابی میں کووڈ -19 وارڈ کے انچارج ڈاکٹر شعیب خان نے کہا کہ پی کے ایم سی میں ایک فارمیسی ٹیکنیشن منیر خان 11 مئی کو اس مرض سے جاںبحق ہو گئے۔

خان نے کہا کہ منیر خان اس لیے اس وائرس سے متاثر ہوئے کہ ان کے ناقص چینی ساختہ پی پی ای نے ان کو تحفظ فراہم نہیں کیا۔

انہوں نے کہا، "زیادہ تر پی پی ای حکومتِ چین فراہم کر رہی ہے۔ لیکن اب ہم اپنے عملہ کے تحفظ کے لیے بازار میں دستیاب معیاری پی پی ای استعمال کر رہے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ ضلع صوابی میں 55 مصدقہ مریض اور سات اموات ریکارڈ کی گئیں اور عملہ کا تحفظ نہایت اہم ہے کیوںکہ ہسپتال میں اب تک کووڈ -19 کے 15 مریض ہیں۔

خان نے کہا، "کارکنان صحت اب چینی ساختہ پی پی ای پر بھروسہ نہیں کرتے اور بلاخوف اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے بہتر دستانے، عینکیں، جوتے وغیرہ چاہتے ہیں۔ لہٰذا ہم بازار سے معیاری مواد خریدنے کے لیے پیسہ اکٹھا کر رہے ہیں تاکہ اپنے عملہ کو تحفظ فراہم کر سکیں اور کووڈ -19 مریضوں کا تسلسل کے ساتھ علاج یقینی بنا سکیں۔"

طبی عملہ کا تحفظ

ایبٹ آباد میں، جہاں یکم مئی کو ایک طبی ٹیکنیشن اس مرض سے جاںبحق ہو گیا، غیر چینی پی پی ای کی مانگ بڑھ رہی ہے۔

ڈاکٹروں کی ایک صوبائی انجمن ایبٹ آباد ںاؤ کے سیکریٹری ڈاکٹر جواد خان نے کہا، "پی پی ای پہننے کے باوجود ہمارے عملہ کے زیادہ تر ارکان کووڈ -19 مریضوں کو نگہداشت فراہم کرنے سے خائف ہیں۔ ہم نے ان کے تحفظ کے لیے نئے پی پی ای خریدنا شروع کر دیے ہیں۔"

پاکستان کاؤنسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریئل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر) کے ایک اعلیٰ عہدیدار اکرام جاوید نے کہا کہ بازاروائرس کی صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کے لیے بیچے جانے والے غیر معیاری چینی پی پی ای سے اٹا پڑا ہے۔

جاوید نے کہا کہ پاکستان میں چینی پی پی ای کی اکثریت عطیہ کی گئی تھی اور پیشگی جانچ کے بغیر ہی ہسپتالوں کو چلی گئی۔

انہوں نے کہا، "مقامی اور اس کے ساتھ ساتھ درآمد شدہ پی پی ای موجود ہے جسے پی سی ایس آئی آر نے جانچ کے بعد منظور اور پھر تجویز کیا۔ ممکن ہے کہ کووڈ -19 بحران طوالت اختیار کر جائے؛ لہٰذا ہمیں اپنے نگہداشت صحت فراہم کنندگان کو معیاری حفاظتی لباس سے لیس کرنا ہو گا تاکہ وہ طویل مدت تک اپنے فرائض انجام دے سکیں۔"

انہوں نے مزید کہا، "اگر ہم چینی ساختہ پی پی ای سے بندھے رہیں گے تو ہم ان انفکشنز سے اپنے کارکنان کھوتے رہیں گے۔"

حیات آباد میڈٰیکل کمپلیکس (ایچ ایم سی) پشاور میں، جہاں کان، ناک اور گلے کے اعلیٰ مشیر پروفیسر محمّد جاوید 25 اپریل کو اس وائرس سے جاںبحق ہو گئے، اب ڈاکٹر نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی (این ٹی یو) فیصل آباد کے منظور شدہ مقامی ساختہ پی پی ای استعمال کر رہے ہیں۔

ڈپٹی میڈیکل سپرانٹنڈنٹ ڈاکٹر محمّد ایوب نے کہا، "چین کی جانب سے عطیہ کیے گئے پی پی ای کے استعمال کے باوجود ہمارے 40 سے زائد کارکنان صحت اس وائرس سے متاثر ہو گئے۔ اب ہمارا عملہ تحفظ محسوس نہیں کر رہا؛ اس لیے ہم بازار سے اعلیٰ معیاری مال خرید رہے ہیں۔"

"ہمارے پاس اس وقت 400 کووڈ -19 مریض داخل ہیں، اور ہمیں اپنے ڈاکٹروں، نرسوں اور طبی عملہ کو تحفظ فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنا کام جاری رکھ سکیں۔"

کے پی کے ڈائریکٹر صحت ڈاکٹر نواز آفریدی نے کہا کہ علاقائی ہسپتالوں نے بازار سے پی پی ای خریدنا شروع کر دیا ہے۔

"ہسپتالوں اور قرنطینہ مراکز میں عملہ کے کووڈ -19 سے متاثر ہونے کی شکایات کے بعد ہم نے پی پی ای کے لیے 4 بلین روپے (6.2 ملین ڈالر) مختص کیے ہیں۔ اب پی سی ایس آئی آر اور این ٹی یو کی جانب سے منظور شدہ پی پی ای بازار سے خریدے جا رہے ہیں کیوںکہ ہمیں صحت کے پیشہ وران کے تحفظ اور مریضوں کے مسلسل علاج کی ضرورت ہے۔"

انہوں نے کہا کہ صوبے میں 270 اموات اور 5,045 مثبت مریضوں، جن میں سے 100 مریضوں کا ہسپتالوں میں علاج جاری ہے، کی اطلاع ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

چین کا مطلب ہے غیر معیاری

جواب