صحت

پاکستانی ڈاکٹروں نے صحت اہلکاروں کی اموات کے لیے چین کے بنے پی پی ای کو موردِ الزام ٹھہرا دیا

از اشفاق یوسفزئی

25 اپریل کو مریض خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور میں کورونا وائرس کے مریضوں کے مرکز میں جاتے ہوئے۔ [کے پی محکمۂ صحت]

25 اپریل کو مریض خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور میں کورونا وائرس کے مریضوں کے مرکز میں جاتے ہوئے۔ [کے پی محکمۂ صحت]

پشاور -- پاکستانی محکمۂ صحت کے اہلکاروں کی کورونا وائرس کی عالمی وباء کے دوران چین سے درآمد شدہ ذاتی حفاظتی لباس (پی پی ای) کے معیار پر تشویشوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

25 مارچ کو، ایک چینی جہاز نے 450،000 فیس ماسک پاکستان پہنچائے تھے۔

یہ پاکستان میں پہنچنے والی چینی پی پی ای کی کئی رسدوں میں سے ایک ہے۔ کچھ پی پی ای کے لیے پاکستان ادائیگی کر رہا ہے، جبکہ باقی ماندہ چین کی جانب سے عطیہ ہیں۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری ڈاکٹر عمر جواد نے کہا، "چین سے درآمد شدہ ناقص پی پی ای کی وجہ سے کورونا وائرس کے انتظام میں مشغول 1،000 سے زائد ڈاکٹروں، طبی عملے اور نرسوں کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔"

25 اپریل کو پشاور میں حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں ڈاکٹر اور محکمۂ صحت کے اہلکار کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے ایک تنہائی وارڈ کے باہر کھڑے ہیں۔ [کے پی محکمۂ صحت]

25 اپریل کو پشاور میں حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں ڈاکٹر اور محکمۂ صحت کے اہلکار کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے ایک تنہائی وارڈ کے باہر کھڑے ہیں۔ [کے پی محکمۂ صحت]

مردان میڈیکل کمپلیکس میں ایک ڈاکٹر 25 اپریل کو ممکنہ طور پر کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کا انتظار کرتے ہوئے۔ [کے پی محکمۂ صحت]

مردان میڈیکل کمپلیکس میں ایک ڈاکٹر 25 اپریل کو ممکنہ طور پر کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کا انتظار کرتے ہوئے۔ [کے پی محکمۂ صحت]

انہوں نے کہا، "غیر معیاری پی پی ای جو وہ استعمال کر رہے تھے، اس کی وجہ سے فرائض کی انجام دہی کے اوقات میں ہسپتالوں میں مریضوں سے لگنے والی انفیکشن کے بعد چار ڈاکٹر جاں بحق ہو چکے ہیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ، "چین سے درآمد شدہ وینٹی لیٹرز انتہائی نگہداشت یونٹوں میں بہترین علاج کو یقینی بنانے سے قاصر رہے ہیں۔"

23 مارچ اور 25 اپریل کے درمیان چار ڈاکٹر جاں بحق ہوئے ہیں۔

کہا، "جاں بحق ہونے والوں میں وائرس اس وقت منتقل ہوا تھا "جب وہ کورونا کے مریضوں کا علاج کر رہے تھے، ان سبھی نے پی پی ای استعمال کیا تھا،مگر یہ چین کی جانب سے فراہم کردہ گھٹیا قسم کا سامان تھاپاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی خیبرپختونخوا (کے پی) شاخ کے سیکریٹری، ڈاکٹر جواد خان نے

"ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ چین گھٹیا معیار کی چیزیں سمگل کرنے اور بیچنے کے لیے بدنام ہے، مگر اب،" انہوں نے کہا۔ "مگر یہ ثابت ہو گیا ہے کہ ان اشیاء نے محکمۂ صحت کے اہلکاروں کی کورونا وائرس سے حفاظت نہیں کی۔"یہ عوام کے تحفظ کے نام پر غیر معیاری ماسک، گاؤن اور جوتے فراہم کر کے پیسے کماتا رہا ہے.

اموات میں اضافہ

کے پی محکمۂ صحت میں ایک سرکاری ماہرِ صحت، محمد شوکت کے مطابق، کورونا وائرس کی وباء سے پہلے، پاکستانی ڈاکٹر ایسا پی پی ای پہنتے تھے جو یورپ سے درآمد شدہ تھا یا مقامی طور پر تیار کردہ تھا تاکہ انہیں ہیپاٹائٹس اور انسانی قوتِ مدافعت ختم کرنے والے وائرس (ایچ آئی وی)/ایڈز سے محفوظ رکھا جائے۔

ان کا کہنا تھا، "گزشتہ پانچ برسوں میں، ہمارے ہاں پورے ملک میں آپریشن رومز میں ڈاکٹروں اور صحت اہلکاروں کے ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہونے کے صرف 200 واقعات پیش آئے تھے، اور ان میں سے 99 فیصد بعد ازاں صحت یاب ہو گئے تھے۔ مگر عالمی طور پر کورونا وائرس کی وجہ سے پی پی ای کی بڑھتی ہوئی طلب کی وجہ سے،چین انسانی جانوں سے کھیل رہا ہے.

انہوں نے مزید کہا کہ 1 مارچ کے بعد سے وائرس تیزی کے ساتھ پاکستانیوں کو متاثر کر رہا ہے جب ملک میں کورونا وائرس کے زیادہ کیسز آنا شروع ہو گئے کیونکہ اب 95 فیصد پی پی ای چین سے آ رہے ہیں اور ناکارہ ہیں۔

جمعہ (1 مئی) تک، ملک میں کورونا وائرس کے مصدقہ کیسوں کی تعداد 16،817 تھی بشمول 385 اموات۔

حیات آباد میڈیکل کمپلیکس (ایچ ایم سی) پر ایک اسسٹنٹ پروفیسر، زوہیب احمد نے کہا، "25 اپریل کو، ناک، کان اور گلے کے ایک سرجن، پروفیسر محمد جاوید، ایچ ایم سی میں کورونا وائرس سے جاں بحق ہو گئے تھے۔ وہ [ایچ ایم سی کی] کورونا وائرس سے لڑنے والی ٹیم کے سربراہ تھے اور پوری احتیاط سے پی پی ای استعمال کرتے تھے مگر وائرس سے متاثر ہو گئے۔"

انہوں نے کہا کہ ابھی تک، ایچ ایم سی میں محکمۂ صحت کے 20 اہلکار، بشمول ڈاکٹر، نرسیں اور نیم پیشہ ور طبی عملے میں پی پی ای استعمال کے باجود کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ چین سے آنے والا سامان خراب تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا، "چین میں 1،000 سے زائد صحت اہلکار کورونا وائرس سے ہلاک ہو چکے ہیں، جو [سامان] کے معیار کی ایک واضح تصدیق ہے۔"

احمد نے کہا کہ کے پی میں اس وقت تک 500 سے زائد صحت اہلکار متاثر ہو چکے ہیں، جو کہ سب کے سب چین کا بنا ہوا غیر معیاری پی پی ای استعمال کرتے تھے۔

کے پی حکومت صحت کے ان اہلکاروں کے خاندانوں کی ممکنہ مصیبتوں سے آگاہ ہے جو اپنی جانیں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

ڈان نے مطابق، وزیرِ اعلیٰ کے پی کے مشیر، اجمل وزیر نے 1 مئی کو پشاور میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ حکومت کورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والے کسی بھی طبی ماہر کے خاندان کو 7 ملین روپے (43،932 ڈالر) فراہم کرے گی۔

ایک سنگین تشویش

خیبر ٹیچینگ ہسپتال پشاور میں کام کرنے والے ڈاکٹر سعید خان نے کہا کہ گزشتہ ماہ سے ہسپتال میں کام کرنے والی بارہ نرسوں اور چار ڈاکٹروں کو کورونا وائرس کا مرض لگ چکا ہے۔

انہوں نے کہا، "وہ سب پی پی ای استعمال کرتے تھے، جو کہ ایک سنگین تشویش والا معاملہ ہے۔ ہمیں اپنے عملے کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے معیاری پی پی ای کی ضرورت ہے۔"

پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل، ڈاکٹر عبدالسلام نے کہا، "جس رفتار سے پاکستان اپنے صحت اہلکاروں سے محروم ہو رہا ہے، اس کے پیشِ نظر ہمیں اشیاء سازی کی اچھی روایات کے حامل ممالک سے پی پی ای درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔"

انہوں نے کہا، "چینی پی پی ای، ٹیسٹنگ کٹس اور وینٹی لیٹر اس مشکل وقت میں ہماری مدد نہیں کریں گے۔ ہمیں کورونا وائرس کے موزوں سراغ لگانے کو یقینی بنانے کے لیے اچھی ٹیسٹنگ کٹس کی ضرورت ہے۔"

ان کا کہنا تھا، "ہمیں انتہائی بیمار مریضوں جو کورونا وائرس کی وجہ سے انتہائی نگہداشت یونٹوں میں پہنچتے ہیں کے موزوں علاج کو یقینی بنانے کے لیے بہترین وینٹی لیٹرز کی ضرورت ہے؛ ورنہ، ہم غیر معیاری سامان کی وجہ سے اپنے صحت اہلکاروں نیز مریضوں سے ہاتھ دھوتے رہیں گے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500