معاشرہ

کے پی پولیس کی پہل کاری کا مقصد قبائلی علاقہ جات میں خواتین اور بچوں کی معاونت کرنا ہے

از ظاہر شاہ شیرازی

پشاور میں 24 جنوری کو پروگرام کے اجراء کے بعد مظلوم کی معاون خدمات کی ایک افسر انسپکٹر جنرل آف خیبر پختونخوا پولیس ثناء اللہ عباسی کے ساتھ ایک گروپ فوٹو میں نظر آ رہی ہے۔ نئی تربیت یافتہ افسران تمام اقسام کے تشدد سے متاثرہ بچوں اور خواتین کا خیال رکھیں گی۔ [کے پی پولیس]

پشاور میں 24 جنوری کو پروگرام کے اجراء کے بعد مظلوم کی معاون خدمات کی ایک افسر انسپکٹر جنرل آف خیبر پختونخوا پولیس ثناء اللہ عباسی کے ساتھ ایک گروپ فوٹو میں نظر آ رہی ہے۔ نئی تربیت یافتہ افسران تمام اقسام کے تشدد سے متاثرہ بچوں اور خواتین کا خیال رکھیں گی۔ [کے پی پولیس]

پشاور -- انسانی حقوق کے کارکنان اور قانون نافذ کرنے والے حکام کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا پولیس کی جانب سے شروع کردہ ایک پہل کاری قبائلی اضلاع میں خواتین اور بچوں کی اعانت کرنے میں مددگار ہو گی جو کبھی دہائیوں طویل فساد اور عسکریت پسندی سے متاثرہ رہے تھے۔

24 جنوری کو شروع کیے گئے مظلوم کی معاون خدمات (وی ایس ایس) پروگرام کا مقصد نئے ضم شدہ قبائلی اضلاع کے حساس خواتین اور بچوں کو راحت اور معاونت فراہم کرنا ہے۔

حال ہی تک علاقہ تین دہائیوں تک کے لیے عسکریت پسند اور انتہاپسند سرگرمیوں سے متاثر رہا ہے، جس سے سینکڑوں خواتین بیوہ اور بچے یتیم ہوئے ہیں۔

پولیس حکام کا کہنا تھا کہ وی ایس ایس تشدد کے ان متاثرین کی ایک وقف شدہ اور خصوصی طریقے سے علاج کروانے میں مدد کرے گی۔ شروع میں، پولیس پشاور، مردان، چارسدہ، ایبٹ آباد اور سوات میں خدمات کی پیشکش کرے گی جس کے بعد انہیں بتدریج باقی ماندہ صوبے میں پھیلایا جائے گا۔

17 فروری کو باجوڑ میں خار ہسپتال میں معذور افراد کے لیے بحالی مرکز میں ڈاکٹر ایک بچے کا معائنہ کرتے ہوئے۔ [حنیف اللہ]

17 فروری کو باجوڑ میں خار ہسپتال میں معذور افراد کے لیے بحالی مرکز میں ڈاکٹر ایک بچے کا معائنہ کرتے ہوئے۔ [حنیف اللہ]

17 فروری کو خار میں ضلعی ہیڈکوارٹرز ہسپتال کے بحالی مرکز میں ایک اہلکار بارودی سرنگ کے ایک متاثر شخص کے لیے مصنوعی عضو بناتے ہوئے۔ [حنیف اللہ]

17 فروری کو خار میں ضلعی ہیڈکوارٹرز ہسپتال کے بحالی مرکز میں ایک اہلکار بارودی سرنگ کے ایک متاثر شخص کے لیے مصنوعی عضو بناتے ہوئے۔ [حنیف اللہ]

تاریخی پہل کاری

پروگرام کے جزو کے طور پر، خواتین پولیس اہلکار اس بارے میں تربیت حاصل کر رہی ہیں کہ حساس متاثرین کو نزاکت کے ساتھ کیسے سنبھالنا ہے۔

کے پی پولیس کے انسپکٹر جنرل ثناء اللہ عباسی نے کہا، "[برطانیہ کے] شعبہ برائے بین الاقوامی ترقی کے جسٹس سسٹم سپورٹ پروگرام کی جانب سے تربیت یافتہ مظلوم کی معاون افسران حساس افراد، خصوصاً بچوں اور خواتین کے خلاف جرائم کے لیے پولیس کے ردِعمل کو بہتر بنائیں گے۔"

ان کا کہنا تھا، "مظلوم کی اعانت کی افسران کے پہلے گروہ نے اپنی خصوصی تربیت 24 جنوری کو مکمل کی تھی اور وہ پانچ اضلاع میں اپنے کام شروع کرنے والی ہیں۔"

عباسی نے کہا، "اُنتیس مزید وی ایس ایس افسران کو بھرتی کیا جائے گا، جو متاثرہ خواتین اور بچوں کے لیے انصاف تک رسائی کو بہتر بنانے میں مدد کریں گی اور ایسے جرائم میں سزائیں ہونے میں اضافہ کریں گی۔ یہ کے پی میں قانون کی حکمرانی کے روڈمیپ کا ایک اعلیٰ سطحی اشاریہ ہو گا۔"

روڈ میپ میں امن و امان کے لیے بہتر پولیس منصوبے، پولیس خدمات کی سابقہ قبائلی اضلاع تک توسیع اور دیگر پہل کاریاں جیسے کہ خاصہ دار اور لیویز محکموں کا کے پی پولیس اور دیگر انتظامی اصلاحات میں انضمام شامل ہیں۔

کے پی کمیشن برائے خواتین کی حیثیت کی پروگرام ڈائریکٹر آمنہ درانی نے کہا کہ پہل کاری خواتین اوربچوں کے لیے بہترین اعانت ہو گی کیونکہ وہ معاشرے میں حساس ترین گروہ ہیں۔

درانی کا کہنا تھا، "یہ خصوصی طور پر تربیت یافتہ خواتین افسران بہت مدد کریں گی۔"

کے پی کی مقامی این جی او چائلڈ رائٹس ڈیفنس کی چیئرپرسن، مسرت سید نے کہا کہ گزشتہ برسوں میں سابقہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں درجنوں بچوں کو عسکریت پسندی پر مجبور کر دیا گیا تھا کیونکہ انہیں اس قسم کا تحفظ حاصل نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ وی ایس ایس کا مقصد حکومتِ پاکستان کی قانون کی حکمرانی کی اصلاحات اور بہتر فوجداری نظامِ انصاف میں معاونت کرنا ہے۔

پشاور کی ایک این جی او بلیو وینز کے ڈائریکٹر، قمر نسیم نے اتفاق کیا کہ وی ایس ایس ایک تاریخی پہل کاری ہے۔

ایک کثیر پہلو مسئلہ

نسیم نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے ایک حکم کے ذریعے، کے پی میں پہلی بار خواتین پر تشدد کے کیسوں سے نمٹنے کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی جا رہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، "پہلی عدالت نے ڈیرہ اسماعیل خان میں کام کرنا شروع کر دیا ہے، جسے ابھی تک 300 مقدمات موصول ہوئے ہیں۔ بچوں کی عدالتیں بھی قائم کی گئی ہیں، جو بچوں کے مسائل حل کرنے میں مدد کریں گی نیز خواتین کے بھی جو ظلم کا شکار ہوئی ہیں۔"

نسیم کے مطابق، کے پی، خصوصاً قبائلی اضلاع میں، ماضی میں خواتین اور بچوں کو ناصرف سماجی اور قبائلی ڈھانچے کے زیرِ عتاب رکھا گیا بلکہ عسکریت پسندوں کا بھی نشانہ بنے جنہوں نے خواتین اور بچوں کی ماتحت سماجی حیثیت کا فائدہ اٹھایا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500