حقوقِ نسواں

خیبرپختونخوا خواتین پر تشدد میں کمی کا متلاشی

از دانش یوسفزئی

30 مئی 2015 کو پشاور میں پاکستانی خواتین بلدیاتی انتخابات کے ایک پریزائڈنگ افسر کے گرد جمع ہیں۔ خیبرپختونخوا خواتین کے لیے فائدہ مند قوانین لاگو کرنے کا متلاشی ہے۔ [اے ایف پی/ اے مجید]

30 مئی 2015 کو پشاور میں پاکستانی خواتین بلدیاتی انتخابات کے ایک پریزائڈنگ افسر کے گرد جمع ہیں۔ خیبرپختونخوا خواتین کے لیے فائدہ مند قوانین لاگو کرنے کا متلاشی ہے۔ [اے ایف پی/ اے مجید]

پشاور -- خواتین پر تشدد کے متعلق ہولناک اعدادوشمار کی بناء پر، خیبرپختونخوا (کے پی) میں حکام اور حقوقِ نسواں کے حمایتی قدامت پسند صوبے کو ملک کی نصف آبادی کے لیے ایک دوستانہ ماحول بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

اس معاملے پر خیبر میڈیکل کالج پشاور کی جانب سے مرتب کردہ اعدادوشمار پرانے لیکن پریشان کن ہیں: جولائی 2009 تا جولائی 2011 تک کے پی میں، حکام نے گھریلوں ناچاقیوں میں 305 خواتین کی اموات ریکارڈ کیں۔ ان اموات میں سے، 115 اموات سنہ 2010-2019 میں اور 190 اموات 2011-2010 میں ہوئیں۔ 305 اموات میں سے اکثریت (182) دیہی علاقوں میں ہوئیں۔

مبصرین کو خدشہ ہے کہ ایک قدامت پسند معاشرے میں تشدد کے بہت سے کیسز غیر رپورٹ شدہ ہی رہ جاتے ہیں جہاں ایسی خواتین جو شکایت کرتی ہیں انہیں سماجی بدنامی یا بدترین خطرے کا سامنا ہوتا ہے۔

متحد ہونا

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا حل تنہائی میں افراد کی جانب سے کام کرنے کی بجائے، حکومت اور این جی اوز کے درمیان مل کر کام کرنے کا متقاضی ہے۔

آسٹریلیا اور ایک آئرش مخیر ادارے ٹروکائر کی معاونت سے، پشاور کی مقامی حقوقِ نسواں کی این جی او، بلیو وینز، خواتین کی حمایت میں قانون سازی کو مضبوط کرنے اور جنس پر مبنی تشدد (جی بی وی) کا جواب دینے کے لیے ایک پالیسی کی حمایت اور تحقیق پر مبنی منصوبے کا اطلاق کر رہی ہے۔

پشاور میں 2 اگست کو ہونے والی ایک تربیت گاہ کے دوران، این جی اوز اور کے پی حکومت کی نمائندگی کرنے والے شرکاء نے ایک صوبائی حلقہ قائم کیا جو "جی بی وی کی روک تھام اور جواب کے لیے شراکت دار" کہلاتا ہے۔

حاضرین نے جی بی وی کے خلاف باہمی تعاون پیدا کرنے کا عہد کیا۔ موجودہ اتحادی، کے پی حکومت کے ادارے اور دیگر شرکائے کار ایک جگہ اکٹھے ہوئے۔

بلیو وینز کے پروگرام رابطۂ کار قمر نسیم نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "جی بی وی کے جوابی نظام میں خامیوں کی نشاندہی کرنے اور متاثرین کے لیے خدمات کو بہتر بنانے کے لیے حکمتِ عملیوں پر مبنی حل تجویز کرنے کے لیے ۔۔۔ تمام موجودہ کردار ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو گئے ہیں۔"

اس وقت نیٹ ورک کے 25 ارکان ہیں، جن میں کے پی محکمۂ صحت، کے پی پولیس، یونیورسٹی آف پشاور کے شعبہ جنسی مطالعات، کے پی کمیشن برائے حیثیتِ نسواں اور کے پی میں خواتین کی صورتحال میں قانونی یا سیاسی شمولیت رکھنے والے دیگر اداروں کے نمائندگان شامل ہیں۔

نیٹ ورک نے کے پی میں پہلے ہی سے جی بی وی کے خلاف نبرد آزما این جی اوز کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔ ان میں پختونخوا سول سوسائٹی نیٹ ورک (پی سی ایس این)، خواتین اور لڑکیوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے اتحاد برائے کے پی اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) اور دیگر این جی اوز شامل ہیں۔

بلیو وینز کی پراجیکٹ مینیجر طاہرہ کلیم نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "نیٹ ورک پورے صوبے میں جی بی وی کو کم کرنے کے لیے تزویراتی، انتظامی، اور پیشہ ورانہ طریقے اپنائے گا۔ یہ جوابی خدمات میں خامیوں کا سراغ لگائے گا۔"

پشاور بار ایسوسی ایشن کی ایک رکن، ثناء گلزار نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "خواتین اور لڑکیوں پر جی بی وی کے ممکنہ اثر کے پیشِ نظر، [کے پی] کے کئی شعبے اپنے طور پر کام کرتے ہیں، لیکن ۔۔۔ انہیں مل جل کر مسئلے کو حل کرنے کا موقع شاذونادر ہی ملتا ہے۔"

قانونی اصلاحات، پولیس کی معاونت

کے پی کے قانون ساز خواتین کی حفاظت کو قانون کا تحفظ دینا یقینی بنانے کے ذریعے مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وہ جلد ہی گھریلو جھگڑوں پر ایک بل پر بحث کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جو کہ کے پی اسمبلی میں خواتین ارکان نے کئی ماہرین کے ساتھ مشاورت کے بعد تیار کیا ہے۔

مارچ میں، کے پی اسمبلی نے جہیز، بری اور شادی کی رسومات پر پابندیوں کا ایکٹ 2017 پاس کیا تھا، جو دلہن کے خاندان کو دولہے کے کاندان کو جہیز کی رقومات کی ادائیگی کرنے پر پابندی عائد کرتا ہے۔

کے پی پولیس افسران جی بی وی کے خلاف ایک مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینے کی کوشش کو یہ کہتے ہوئے سراہتے ہیں کہ اس سے جی بی وی کیسز کو رپورٹ کرنے میں ہچکچاہٹ کم ہو گی اور کے پی کی خواتین میں حقوق کی آگاہی بڑھے گی۔

رضوانہ حمید خان، جو پشاور میں تمام مردوں پر مشتمل ایک تھانے میں پہلی خاتون ایس ایچ او بن کر خود ایک تاریخ رقم کر رہی ہیںنے کہا کہ پلیٹ فارم شرکاء کو جی بی وی کے خلاف لڑنے میں روابط تلاش کرنے میں مدد دیتا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "بلیو وینز اس مقصد کے لیے درست لوگوں تک پہنچنے میں کامیاب رہی ہے۔"

ایک دینی طریقہ

پی سی ایس این کے رابطۂ کار تیمور کمال نے تجویز پیش کی کہ معاشرے میں خواتین کے کردار کے متعلق غلط فہمیوں سے لڑنے کا ایک طریقہ مثالی کردار کی حامل اسلامی خواتین جیسے کہ حضرت خدیجہ اور حضرت فاطمہ کا حوالہ دینا ہے، جو بہت عرصہ پہلے پاکبازی، بہادری، عقلمندی اور قیادت کے لیے مشہور تھیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ خواتین کے لیے مردوں کے ناروا سلوک کا مقابلہ کرنے کا ایک اور طریقہ دینِ اسلام کے نبی کے لگاؤ اور فیاضی پر زور دینا ہے۔

پشاور میں سفید ڈھیری مسجد کے ایک عالم، مولانا سراج علی خان نے کہا کہ کے پی کو سخت عقائد کے نتیجے میں برسوں سے دہشت گردی کا مسئلہ درپش رہا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "معاشرہ تبدیلی کے لیے کھلا ہے۔ [پلیٹ فارم جیسے] اقدامات ناصرف خوش آئند ہیں بلکہ خواتین کی ترقی کے لیے وسیع مواقع بھی مہیا کرتے ہیں، جو پہلے مکمل طور پر نظر انداز کردہ تھیں۔"

نیٹ ورک اپنی پیش رفت پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے مہینے میں دو اجلاس کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، ابتداء میں تین برسوں کے لیے۔ شرکاء کو امید ہے کہ کے پی حکومتی ادارہ پروگرام کے اختتام پر نیٹ ورک کو اپنے قبضے میں لے سکتا ہے، جس سے کوششیں استحکام پذیر ہوں گی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500