پشاور -- فعالیت پسندوں کا کہنا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار، خیبرپختونخوا (کے پی) حکومت کے محکمہ جات خواتین کو سرکاری گاڑیوں کے ڈرائیوروں کے طور پر بھرتی کریں گے اور کرائے پر لیں گے، جو مزید ایک علامت ہے کہ انتہاپسندوں کے ختم ہوتے ہوئے اثرورسوخ کے درمیان اس شعبے میں صنفی مساوات وسیع ہو رہی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے لگائے گئے ایک اشتہار کے مطابق، کے پی، بشمول ضم کردہ قبائلی اضلاع، میں خواتین سے کہا گیا ہے کہ وہ ڈرائیور کی تقریباً 65 ملازمتوں کے لیے درخواست دیں، جس میں سے 10 فیصد صرف خواتین کے لیے مخصوص ہیں، جبکہ 5 فیصد اقلیتوں کے لیے اور 2 فیصد معذور افراد کے لیے رکھی گئی ہیں۔
خواتین مخصوص نشستوں کے لیے درخواست دینے کے علاوہ، خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر ڈرائیور کی کسی بھی کھلی نشست کے لیے درخواست دے سکتی ہیں۔
حقوقِ نسواں کے کارکنان کی جانب سے توجہ دلائی گئی کہ ماضی قریب میں، انتہاپسندوں نے خطے کے بہت سے حصوں میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کے لیے جانے یا بغیر محرم کے بازاروں میں جانے سے منع کر رکھا تھا۔
خطے کو سنہ 2012 میں ان چاہی بدنامی جھیلنا پڑی تھی جب تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ارکان نے سوات میںلڑکیوں کی تعلیم کی فعالیت پسند ملالہ یوسفزئیکو گولی مار کر شدید زخمی کر دیا تھا۔ وہ اب انگلینڈ میں مقیم ہے۔
ٹی وی رپورٹر زبیر خان، جو خود بھی سوات سے تعلق رکھتے ہیں، نے کہا کہ سوات میں خواتین کے سرکاری گاڑیاں چلانے کا منظر دھمکیاں دینے والوں کو شکست دینے میں حکومت اور فیصلہ سازوں کی ایک بڑی کامیابی ہو گا۔
وہ فعالیت پسند جو اسے خواتین کو بااختیار بنانے اور صنفی مساوات کے لیے ایک سنگِ میل قرار دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کے پی حکومت کا یہ اقدام معاشرے میں لڑکیوں کے اعتماد میں اضافہ کرے گا۔
کے پی کمیشن برائے حیثیت خواتین (کے پی سی ایس ڈبلیو) کی چیئرپرسن، ڈاکٹر رفعت سردار نے کہا کہ پہل کاری معاشرے کے بدلتے ہوئے خیالات کی عکاسی کرتی ہے۔
انہوں نے کہا، "حکومت کا خواتین کو بطور ڈرائیور رکھنے کا فیصلہ ایک صحت مند علامت ہے اور اس معاشرے میں تبدیلی کا اظہار ہے جس نے خواتین کے لیے مساوی حیثیت کو قبول کیا ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا، "سرکاری شعبے میں خواتین ڈرائیور تمام شعبوں میں امتیاز حاصل کرنے میں نوجوان لڑکیوں کے لیے بہت زیادہ حوصلہ افزاء ثابت ہو گا۔"
کے پی میں حقوقِ نسواں کی ایک تنظیم، عورت فاؤنڈیشن کی ریزیڈنٹ ڈائریکٹر، شبینہ ایاز نے بھی مقامی حکومت کی جانب سے اس اقدام کو سراہا۔
انہوں نے کہا، "صنفی مساوات اور بااختیار بنانے کے لیے کوئی بھی سرکاری پہل کاری قابلِ تحسین ہے کیونکہ عورت فاؤنڈیشن نے چند برس پہلے بہت سی کام کرنے والی خواتین کو ڈرائیور کی ملازمتوں کے لیے تربیت دی تھی، مگر معاشرتی ہٹ دھرمی اور حکومتی بے حسی کی وجہ سے، انہیں کبھی بھی ملازم نہ رکھا گیا۔"
شبینہ نے مزید کہا، "ہم خواتین کو نرس، ڈاکٹر، استانی کا کردار دینے کے عادی ہیں، مگر ایک ایسے سرکاری اقدام میں بہت عرصہ لگا ہے جو خواتین کو بطور انجینیئر، ڈرائیور اور پولیس اہلکار یا بم ڈسپوزل افسر تسلیم کرتا ہے۔ کے پی حکومت اس فیصلے کا کریڈٹ لینے کی مستحق ہے۔"
فیصلے کی تحسین
ان کا کہنا تھا کہ ابھی بھی "خواتین ڈرائیوروں کو محض بھرتی کر لینا کافی نہیں ہے -- حکومت پر ایک حوصلہ افزاء ماحول کو یقینی بنانا اور ان خواتین کو تحفظ فراہم کرنا بھی لازم ہے تاکہ انہیں ہراساں نہ کیا جائے یا ڈرایا دھمکایا نہ جائے۔"
انہوں نے مزید کہا، "اہم ترین بات یہ ہے کہ ان خواتین ڈرائیوروں کو اگر ملازمت پر رکھا جاتا ہے تو ان کے اپنے تفویض شدہ فرائض ہونے چاہیئیں۔ یہ محض خالی جگہیں پُر کرنا اور انہیں ملازمت پر رکھنا اور پھر انہیں دوسرے کام کرنے پر مجبور کرنا نہیں ہونا چاہیئے۔ وہ کار کو چلا سکتی ہیں اور صاف کر سکتی ہیں، اور ٹائر تبدیل کرنا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔"
پشاور کے مقامی خواتین کے وکالتی گروپ، دا حوا لور کی چیئروومن، خورشید بانو نے کہا کہ عام طور پر، کے پی میں خواتین اب بہت زیادہ آزادی والی زندگیاں گزار رہی ہیں۔
انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا، "طالبان کے زمانے میں، [جنگجو] لڑکیوں کے سکولوں کو نشانہ بناتے تھے اور خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکتے تھے۔ اب کوئی انتخابی نتیجہ اس وقت تک قبول نہیں ہوتا جب تک کہ 10 فیصد ووٹ خواتین کی جانب سے نہ ڈالے گئے ہوں۔"
انہوں نے کہا، "ہم درست سمت میں جا رہے ہیں۔"
اسلام آباد کے خواتین کے ایوانِ صنعت و تجارت کی صدر، فریدہ رشید نے کہا کہ انہیں کے پی حکومت کی پہل کاری سے حوصلہ ملا ہے اور انہوں نے اسے خواتین کو بااختیار بنانے میں ایک فیاضانہ سرمایہ کاری قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا چونکہ خطے میں خواتین کے لیے صحت، بہبود، تعلیم اور آمدن کے اشاریئے ملک میں کم ترین ہیں، کے پی پروگرام مقامی معاشی ترقی میں خواتین کے کردار میں اضافہ کرے گا۔
جبکہ فعالیت پسند حکومت کی جانب سے معاشی سرگرمیوں میں خواتین کا کردار بڑھانے کے لیے کی جانے والی پہل کاریوں کی تعریف کر رہے ہیں، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ خطے میں خواتین کی ترقی کی رفتار کو مزید تیز کیا جانا چاہیئے۔
پشاور کی مقامی حقوقِ نسواں کی تنظیم، بلیو وینز کی چیئرپرسن شاہین قریشی نے کہا، "سیکریٹریٹ میں خواتین ڈرائیوروں کا ہونا اچھی بات ہے -- اس سے ناصرف خواتین کے اعتماد میں اضافہ ہو گا بلکہ یہ نوجوان لڑکیوں کے لیے کام کے ماحول کو بھی بہتر بنائے گا۔"
انہوں نے مزید کہا کہ ابھی بھی "کے پی حکومت کو یقینی بنانا چاہیئے کہ بی آر ٹی [بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم] کی بسوں میں بھی خواتین ڈرائیور ہوں، جس سے کے پی میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ایک مضبوط پیغام جائے گا۔"
قریشی نے کہا کہ کے پی میں، "خواتین نے ہر شعبے میں بدترین امتیاز کا سامنا کیا ہے، خصوصاً جب مالاکنڈ اور سابقہ فاٹا [وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات] جنگجوؤں کے زیرِ اثر تھے جنہوں نے لڑکیوں کو ناخواندہ رکھنے کے لیے ان کے سینکڑوں سکول اڑا دیئے تھے۔"
ان کا مزید کہنا تھا، "بہت سے لوگ سوچیں گے [کے پی کی پہل کاری] کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی تعریف کی جائے، مگر میں کہتی ہوں کہ یہ خواتین کو معاشرے میں مرکزی دھارے میں لانے کے لیے اور اپنے خاندانوں کے لیے روزی روٹی کمانے والیوں کے طور پر انہیں ایک بہت فعال کردار دینے کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔"
خواتین نے پہلے ہی نجی شعبے میں بطور ڈرائیور پیش رفت کی ہے۔ مارچ 2018 میں، گلابی ٹیکسی سروس -- جس میں صرف خواتین ڈرائیور ہیں اور صرف خواتین سواریاں اٹھاتی ہیں -- کے پی میں شروع کی گئی تھی۔
ٹیکسی چلانے کی سروس کریم نے سنہ 2016 میں لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں خواتین ڈرائیور متعارف کروائی تھیں۔