پناہ گزین

پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین کی 40 سالہ میزبانی کرنے پر اقوام متحدہ کا اعتراف

منجانب عدیل سعید اور اے ایف پی

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان(بائیں جانب) نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئتریس کے ہمراہ 17 فروری کو افغان مہاجرین کی میزبانی کے 40 سال ہونے پر اسلام آباد میں سربراہ کانفرنس برائے پناہ گزین کے موقع پر خطاب کیا۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان(بائیں جانب) نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئتریس کے ہمراہ 17 فروری کو افغان مہاجرین کی میزبانی کے 40 سال ہونے پر اسلام آباد میں سربراہ کانفرنس برائے پناہ گزین کے موقع پر خطاب کیا۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

اسلام آباد -- اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوئتریس پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین کی میزبانی کے40 سال مکمل ہونے کے موقع پر بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے پیر (17 فروری) کو پاکستان پہنچ گئے۔

پاکستان میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے ترجمان قیصر آفریدی نے کہا، "افغان مہاجرین کی پاکستان موجودگی کے 40 سال: باہمی یکجہتی کے لیے نئی شراکت داری'، افغانستان کے لاکھوں متاثرین کے لیے خیر سگالی کی مثالی علامت کے طور پر نمایاں کرنے کے لیے دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا۔"

آفریدی کے مطابق اسلام آباد میں کانفرنس میں تقریباً 20 ممالک کے سرکردہ سفیروں نیز یو این ایچ سی آر فیلیپو گرانڈی، امریکی خصوصی نمائندہ برائے مصالحتی عمل افغانستان زلمے خلیل زاد، سابق افغان صدر یونس قانونی اور پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے شرکت کی۔

اے ایف پی کے مطابق پاکستان کے تین روزہ دورے پر آئے سیکرٹری جنرل گوئتریس نے قوم کو افغان مہاجرین کی معاونت کرنے کا سہرا دیا۔ انہوں نے پاکستان کی سلامتی کی صورتحال میں "غیر معمولی تبدیلی" کو بھی سراہا۔

پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے 17 فروری کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوئتریس سے ملاقات کی۔ [وزرات برائے امور خارجہ]

پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے 17 فروری کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوئتریس سے ملاقات کی۔ [وزرات برائے امور خارجہ]

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوئتریس مورخہ 17 فروری کو مہاجرین کے لیے خیر سگالی کی سفیر ماہرہ خان کے ہمراہ۔ [انتونیو گوئتریس]

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوئتریس مورخہ 17 فروری کو مہاجرین کے لیے خیر سگالی کی سفیر ماہرہ خان کے ہمراہ۔ [انتونیو گوئتریس]

17 فروری کو دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کے افتتاحی خطاب میں گوئتریس نے کہا کہ 40 سال سے افغانستان کے عوام نے متواتر بحرانوں کا سامنا کیا، اور ان 40 سالوں میں پاکستان کی عوام نے یکجہتی کے ساتھ ردعمل دیا۔

گوئتریس نے مزید کہا کہ "یہ فراخدلی اب کئی دہائیوں اور نسلوں پر محیط ہے، اور تاریخ میں درج یہ دنیا کی سب سے بڑی محفوظ شدہ مہاجرین کی صورتحال ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "میں نے یہ یکجہتی لفظی نہیں بلکہ عملی طور پر وقوع پذیر ہوتے دیکھی ہے، اور پاکستان اور افغانستان کے مہاجرین کی کہانی بہت سی وجوہات کی بنا پر باہمی ہمدردی کی کہانی ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "افغانستان اور اس کی عوام کو تنہا نہیں چھوڑا جا سکتا، اور اب بین الاقوامی برادری کے لیے عملی اقدام کرنے کا وقت ہے۔"

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے پیر کو کانفرنس کے موقع پر کہا کہ "میں یہ بات فخر سے کہتا ہوں کہ میرے ملک نے لاکھوں مہاجرین کی میزبانی کی، اور یہ فراخدلی کسی مالی صلے کی محتاج نہیں رہی"۔

خان نے کہا، معاشی مشکلات کے باوجود، پاکستان نے افغان مہاجرین کے ساتھ خوشگوار تعلقات برقرار رکھے اور اپنی حیثیت کے مطابق انہیں ہر چیز فراہم کی۔

خان نے کہا کہ پاکستان اب جنگجوؤں کا محفوظ ٹھکانہ نہیں ہے، انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ان کی حکومت افغان مصالحتی عمل کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔

عمران خان نے کہا کہ "میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہاں کوئی محفوظ ٹھکانے نہیں ہیں۔ "ماضی میں جو بھی صورتحال تھی، اس وقت میں یقین سے کہہ سکتا ہوں۔۔۔ کہ ہمیں صرف ایک چیز چاہیے: افغانستان میں امن۔"

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان مکمل طور پر اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتا کہملک میں رہائش پذیر تقریبا 2.7 ملین سے زائد افغان شہریوں میں کوئی طالبان نہیں چھپے ہوئے،خان نے کہا کہ ان کی حکومت نے افغانستان میں حملوں کا سدباب کرنے بشمول بارڈر پر باڑ کی تعمیر کے ذریعے ہر ممکن اقدام کیا ہے۔

احساس تشکر

افغانستان سے آنے والے ایک مہاجر، محمد اسماعیل جو 1983 میں اپنے والدین کے ہمراہ پشاور آمد پر پانچ سال کے تھے۔

اس وقت وہ اس بات کا تصور نہیں کر سکتے تھے، کہ ان کے خاندان کی جانب سے پناہ کی درخواست پاکستان میں چار دہائیاں گزارنے کا باعث بنے گی۔

اسماعیل نے کہا کہ "میں پاکستان میں پلا بڑھا، یہاں تعلیم حاصل کی، کاروبار کیا اور چھے بچوں – پانچ بچے اور ایک بچی پر مشتمل خاندان کے ہمراہ انتہائی خوشگوار زندگی گزاری۔"

افغانستان کے صوبے غزنی کے رہائشی، اسماعیل پاکستان کی جانب سے انہیں اور ان کے خاندان کو چھت، امداد، تحفظ، خوراک، تعلیم اور روزگار کی فراہمی کے بعد اب اسے اپنا گھر سمجھتے ہیں۔

اسماعیل نے کہا کہ "پاکستان اور اس کے باشندوں کی جانب سے اتنی طویل مدت کے لیے ہماری میزبانی کرنے پر شکریہ ادا کرنے کے لیے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں، اور ان کی مہمان نوازی مثالی اور دنیا میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔"

پشاور میں افغان قونصل خانے میں مہاجرین کے اتاشی ڈاکٹر عبد الحمید جلیلی نے کہا "پاکستان میں رہائش پذیر لاکھوں افغان مہاجرین کے احساسات بھی ایسے ہی ہیں اور وہ پاکستانی برادری کی جانب سے بھائی چارے اور غیر معمولی مہمان نوازی کا اظہار کرنے پر انتہائی ممنون ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ 1.4 ملین اندراج شدہ افغان مہاجرین میں سے تقریبا 82% تا 85% اور غیر اندراج شدہ 840,000 مہاجرین کی پیدائش پاکستان میں ہوئی، اور ان کے لیے اب یہ ملک ان کا مادر وطن ہے۔

جلیلی نے کہا "ہم پاکستانی قوم کی جانب سے افغان شہریوں کے لیے اپنے وسائل کا اشتراک کرنے اور انہیں چھت، خوراک، صحت کی نگہداشت اور زندگی کی بنیادی آسائشیں فراہم کرتے ہوئے بھائی چارے کا مظاہرہ کرنے کی بھی انتہائی قدر کرتے ہیں"۔

انہوں نے اس بات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مہمان نوازی مثالی ہے، اور عالمی برادری کو پاکستان اور اس کے عوام کی جانب سے افغان شہریوں کے لیے آزمائش کے وقت میں سہارا دینے کے اقدام سے سیکھنا چاہیے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500