پناہ گزین

پاکستان میں خاتون افغان پناہ گزین خود مختار بننے کے لیے مہارتیں سیکھ رہی ہیں

ضیاء الرّحمٰن

4 مارچ کو کراچی میں ایک فیشن شو میں پاکستان کی ٹاپ ماڈلز نے افغان خواتین پناہ گزینوں کے ہاتھ کے بنے زیورات پہنے۔ [یو این ایچ سی آر]

4 مارچ کو کراچی میں ایک فیشن شو میں پاکستان کی ٹاپ ماڈلز نے افغان خواتین پناہ گزینوں کے ہاتھ کے بنے زیورات پہنے۔ [یو این ایچ سی آر]

کراچی – کراچی میں رہنے والی خواتین افغان پناہ گزین ایسی گراں قدر مہارتیں حاصل کر رہی ہیں جو انہیں ہاتھ سے بنی نفیس چوڑیاں، بالیاں اور گلوبند بنانے اوربیچنے سے ایک معاش کمانے کے قابل بناتی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) نے گزشتہ نومبر کراچی میں پناہ گزینوں کے لیے آرٹیزیئنز سکلز ڈیویلپمنٹ پراجیکٹس کا آغاز کیا۔

مہارتوں کی ترقی کا یہ مرکز شہر کے ایک نواحی علاقے الآصف اسکوائر کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں ہے، جہاں افغان پناہ گزینوں کی اکثریت رہائش پذیر ہے۔

ملک بھر میں نہایت چھوٹے اور چھوٹے کاروباروں کی معاونت کرنے والی ایک کراچی اساسی تنظیم ایک ہنر ایک نگر (اے این اے ایچ) کے اشتراک سے کشیدہ کاری، درزی کے کام اور زیورات سازی کے اس تربیتی مرکز نے خصوصی ہنرمندی اور مارکِٹنگ کی مہارتوں میں درجنوں خواتین – زیادہ تر افغان پناہ گزین خواتین – کو تربیت دی ہے۔

گزشتہ 19 نومبر کو افغان خواتین پناہ گزین الآصف اسکوائر، کراچی میں یو این ایچ سی آر کی جانب سے پناہ گزینوں کے لیے منعقدہ آرٹیزنیئنز سکلز ڈیولپمنٹ پراجیکٹس کی ایک تربیتی نشست میں شریک ہیں۔ [ضیاء الرحمٰن]

گزشتہ 19 نومبر کو افغان خواتین پناہ گزین الآصف اسکوائر، کراچی میں یو این ایچ سی آر کی جانب سے پناہ گزینوں کے لیے منعقدہ آرٹیزنیئنز سکلز ڈیولپمنٹ پراجیکٹس کی ایک تربیتی نشست میں شریک ہیں۔ [ضیاء الرحمٰن]

کئی ماہ کی تربیت حاصل کرنے کے بعد، ان خواتین نے 4 مارچ کو یو این ایچ سی آر اور پاکستانی فیشن ڈیزائنر ہما عدنان کی جانب سے مشترکہ طور پر کراچی کے ایک شاندار علاقہ کلفٹن میں منعقدہ ایک فیشن شو میں اپنا ہنر دکھایا۔

پاکستان کی اعلیٰ پائے کی ماڈلز نے کیٹ واک کرتے ہوئے سرامک موتیوں، کپڑے، پتھروں اور دھات سے بنے زیورات کی نمائش کی۔

اس فیشن شو نے دستکاروں اور اس پراجیکٹ کو وسیع طور پر نمایاں کیا، اور 28 مئی کو خواتین کے ایک گروہ نے اپنی پہلی تنخواہ کے چیک وصول کیے۔

تربیت حاصل کرنے والی ایک افغان پناہ گزین ملائکہ قہر نے جولائی میں کہا، "اپنے کام کی پہلی تنخواہ حاصل کر کے میں مضبوط اور خودمختار محسوس کر رہی ہوں۔"

انہوں نے کہا، معاش کمانے سے"ہمارے اعتماد میں اضافہ ہوا اور ہماری زندگیاں بدل گئیں۔"

پناہ گزینوں کی کاروباری تربیت

یو این ایچ سی آر کی پاکستان کی کنٹری رپریزنٹِٹیو رویندرینی مینیکدیویلا نے گزشتہ برس 19 نومبر کو اس مرکز کے افتتاح کے موقع پر کہا کہ مہارتوں کے اس تربیتی مرکز کا بنیادی مقصد افغان پناہ گزین خواتین کو مالی طور پر خودمختار بنانا ہے۔

منیکدیویلا نے قبل ازاں ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ تربیت نہ صرف خواتین افغان پناہ گزینوں کو پاکستان میں خودمختار بننے میں مدد دے گی، بلکہ افغانستان واپسی پر ان کے مستقبل کے معاشی امکانات کو بھی بہتر بنائے گی۔

انہوں نے کہا، "اس طرح کا منصوبہ ان زدپزیر افراد کی زندگیوں پربہت بڑے اثر کا حامل ہو گا۔ ایسا اقدام پناہ گزینوں کی آمدنی پیدا کرنے کی استعداد میں بہتری لائے گا۔"

عدنان کی سربراہی میں فیشن برانڈ ایف این کے ایشیا بھی اس اقدام کا جزُ ہے اور اس نے جون میں یو این ایچ سی آر کے ساتھ معاونت کے ایک اعلامیہ پر دستخط کیے۔ اس برانڈ نے خواتین کو زیورات بنانے اور اپنی مصنوعات کی تشہیر کرنے کے طریقے سکھائے۔

عدنان نے ایک انٹرویو میں کہا، "تربیت کا نصاب بننے والے زیورات کو بہتر بنانے اور پناہ گزینوں کی تشہیر اور کاروباری مہارتوں کو بہتر بنانے پر مرکوز ہے۔"

انہوں نے کہا کہ تمام تربیت یافتگان کو ٹول کِٹس یا سلائی مشینیں ملتی ہیں تاکہ وہ تربیت ختم ہونے کے بعد کام کر سکیں۔

انہوں نے مزید کہا، "نمائش کا بنیادی مقصد دستکاروں کو قومی منڈیوں سے مربوط کرنا ہے۔"

تربیت حاصل کرنے والی ایک افغان پناہ گزین، فاطمہ نے کہا کہ افغان خواتین اپنی ماؤں سے – دستکاری، ہاتھ کی سلائی اور بنائی جیسی متعدد شوقیہ مہارتیں سیکھتی ہیں۔

انہوں نے کہا، "لیکن اس تربیت نے ہمیں منڈی کے حالیہ رجحانات اور تشہیری مہارتیں بہتر بنانے سے متعلق سمجھ بوجھ حاصل کرنے میں مدد کی۔"

پناہ گزین برادری تک مواقع لانا

کراچی میں افغان پناہ گزینوں نے دستکاروں کی مہارتوں کی ترقی کے منصوبہ برائے پناہ گزین کا خیر مقدم کیا۔

ایک 57 سالہ افغان پناہ گزین محمّد اسماعیل الآصف اسکوائر میں رہتا ہے اور اس کی دو بیٹیاں ہیں۔ اس نے کہا کہ وہ ہمیشہ اپنی بیٹیوں کو تربیت حاصل کرنے کے لیے بھیجنا چاہتا تھا، لیکن یہ موقع ایک مستری اور دیہاڑی دار کی پہنچ سے باہر تھا۔

انہوں نے کہا، "پہلے تو میں ان کی فیس ہی کا متحمل نہیں تھا۔۔۔ اور دوسرے۔۔۔ میں انہیں الآصف اسکوائر سے دور نہیں بھیج سکتا تھا۔ لیکن ہمارے علاقے میں ایک مرکز تشکیل دیا جانا نہ صرف خواتین کے لیے بلکہ ان کے والدین کے لیے بھی ایک شاندار خبر ہے۔"

الآصف اسکوائر 1,300 فلیٹس اور 800 دکانوں پر مشتمل ایک بڑا اپارٹمنٹ کمپلیکس ہے۔ تقریباً 80 فیصد باشندے افغانستان، زیادہ تر کابل، بلخ اور کندوز کے صوبوں سے ہیں۔

کراچی کا واحد افغان پناہ گزین کیمپ، کیمپ جدید چند میل کے فاصلے پر ہے۔ وہاں زیادہ تر باشندے – ہردو مردوخواتین—ہاتھ سے قالین بافی کرتے ہیں۔

کراچی میں افغان برادری کے ایک رہنما، حاجی عبداللہ نے کہا، "پناہ گزین عارضی کارخانوں میں برسرِ روزگار ہیں، اور ان کے بنائے ہوئے قالین مقامی تاجروں کو فروخت کیے جاتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ بعد ازاں یہ تاجر بھاری منافع کے عوض ان قالینوں کو یورپ اور خلیج سمیت متعدد ممالک کو برآمد کرتے ہیں۔

عبداللہ نے کہا، "خواتین کے لیے مہارتوں کی ترقی کے مراکز جیسے اقدامات افغان پناہ گزینوں کو عالمی طور پر اپنا کام دکھانے اور معاشی طور پر خود مختار ہونے میں مدد کر سکتے ہیں۔"

یو این ایچ سی آر کے مطابق، پاکستان تقریباً 1.4 ملین افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے۔ یو این ایچ سی آر اور حکومتِ پاکستان کی جانب سے جاری کی گئی ایک دستاویز، رجسٹریشن کارڈ کے ثبوت کے حامل تقریباً 63,000 افغان پناہ گزین صوبہ سندھ، زیادہ تر کراچی میں مقیم ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

یہ افغانی کراچی میں کیوں رہ رہے ہیں؟ ان کو واپس ان کے جہنّم افغانستان یا ان کے آقا ہندوتوا ملک ریپستان دفع کر دیا جائے LOL

جواب

مجھے عدنان پر فخر ہے اور اس سے نہایت متاثر ہوں. اس نے افغان پناہ گزین خواتین کو موقع فراہم کیا ہے. شکریہ پاکستان. پاکستان زندہ باد.

جواب